9ذوالحجہ بلاشبہ سال کا بہترین دن ہے۔ یہ یومِ عرفہ ہے۔ عالم کے پروردگار کی رحمت اس دن جوش میں ہوتی ہے۔ ایسا وفور کہ بیان نہ ہو سکے۔ یوں سمجھیں کہ جیسے ایک سیلاب امڈ آئے۔ اللہ تعالیٰ‘ اس دن ایک مقام‘ میدانِ عرفات کا انتخاب کرتے اور اسے اپنی تجلیوں کا مرکز بنا دیتے ہیں۔ ان کی رحمت اس خطۂ زمیں کا احاطہ کر لیتی ہے۔ شام ڈھلنے کے ساتھ جو یہاں سے نکلتا ہے‘ اس کے گناہ ایسے دھل جاتے ہیں جیسے اس نے ابھی ابھی جنم لیا ہو۔ ان کی خوش بختیوں کا شمار نہیں جو خدا کی اطاعت میں اور اس کی حدود کا لحاظ کرتے ہوئے یہ دن اس میدان میں گزارتے ہیں۔
حج ایک انفرادی عبادت ہے اور اس مسلمان پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے اس سے بڑی بدنصیبی کوئی نہیں کہ وہ صحت اور مال رکھنے کے باوصف‘ زندگی میں کم ازکم ایک بار یہاں حاضر نہیں ہوتا۔ یہ بدنصیبی دو طر ح کی ہے۔ ایک یہ کہ اس نے اللہ کی حکم عدولی کی۔ دوسرا یہ کہ مغفرت کا ایک موقع گنوا دیا۔ منعمِ حقیقی اپنی نعمتوں کے ساتھ منتظر ہو اور بندہ انکار کر دے۔ یہ تکبر ہے اور متکبر کے لیے یہی سزاوار ہے کہ وہ اپنے رب کی رحمتوں سے محروم رہے۔ جزیرہ نما عرب‘ ان دو مقامات میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس زمین پر اپنے لیے خاص کر لیا ہے۔ دوسرا مقام فلسطین اور اس کے ارد گرد کنعان کا علاقہ ہے۔ یہاں اب شرک کے لیے جگہ نہیں۔ حج خدا کی وحدت کا عالمگیر اظہار ہے۔ اللہ کے بندے اس بات کا اعلانِ عام کرتے ہیں کہ وہ خدا کے گھر میں حاضر ہیں جس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کائنات پہ اسی کی حاکمیت ہے۔ حمد اس کے لیے ہے۔ نعمتیں اسی کی ہیں۔ وہ ایک مجاہد کی طرح ابلیس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہیں اور پروردگار سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ چاہے گا تو وہ اپنی جان مال‘ سب اس کی نذر کر دیں گے۔
حج کی یہی حقیقت ہے جس کو قرآن مجید اور نبیﷺ نے بیان فرمایا ہے۔ یہ ایک مذہبی اجتماع ہے نہ کہ سیاسی۔ نبیﷺ نے خود اس کی حقیقت واضح فرما دی۔ آپﷺ نے ہجرت کے بعد صرف ایک حج کیا۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اس بات کی خبر دے دی گئی تھی کہ یہ آپؐ کا آخری حج ہو گا۔ آپؐ چاہتے تھے کہ دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے‘ اس دین کا اعادہ فرما دیں جسے آپؐ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس لیے حج سے پہلے مسلمانوں کو خصوصی تاکید کی گئی تھی کہ وہ اس موقع پر جمع ہوں۔ فتح مکہ کے بعد آپؐ پہلے حج میں شریک نہیں ہوئے۔ یہ حج امت نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی امارت میں ادا کیا۔ دوسرے سال تمام قبائل کو پیغامات بھیجے گئے کہ اس سال نبیﷺ حج کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں‘ اس لیے سب وہاں جمع ہوں۔ ایک روایت کے مطابق اس موقع پر ایک لاکھ چالیس ہزار‘ کم و بیش صحابہ جمع ہوئے۔ یہ عہدِ رسالتؐ میں صحابہ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔
نبیﷺ یہ چاہتے تھے کہ اس موقع پر کچھ باتوں کی تاکیدِ مزید فرمائیں۔ آپؐ جانتے تھے کہ اس کے بعد لوگ اس سرچشمۂ ہدایت سے براہِ راست فیض نہ پا سکیں گے۔ اب قیامت کی صبح تک لوگ اس سراجِ منیر کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ پائیں گے جس کے نور نے ایک عالم کو ہمیشہ کے لیے منور کر دیا تھا۔ آپؐ نے حج کے موقع پر دو باضابطہ خطبات ارشاد فرمائے۔ ایک نو ذوالحجہ کو میدانِ عرفات میں اور دوسرا منیٰ میں۔ آج کا خطبۂ حج جو 9ذوالحجہ کو میدانِ عرفات کی مسجد نمرہ میں دیا جاتا ہے‘ یہ اسی کی یادگار ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپﷺ نے وفود سے متفرق باتیں کیں اور لوگوں کے سوالات کے جواب بھی دیے۔
نبیﷺ نے اس موقع پر جو کچھ فرمایا‘ اس کو بیسیوں لوگوں نے روایت کیا ہے۔ آپﷺ کے خطبات اور ارشادات کے مجموعے کو 'خطبۂ حجۃ الوداع‘ کہا جاتا ہے۔ محترم عمار خان ناصر صاحب نے ان تمام روایات کے عربی متن اور اردو ترجمے کو یکجاکر دیا ہے۔ یہ تمام روایات صحت کے معیار پر یکساں طور پر پورا نہیں اترتیں‘ جس کو عمار صاحب نے ایک حد تک واضح بھی کر دیا ہے۔ مولانا زاہد الراشدی نے اس خطبے کی شرح و وضاحت میں‘ امریکہ کے ایک شہر میں کئی خطبات دیے جنہیں بعد میں مربوط تحریرکی شکل دے دی گئی۔ گوجرانوالہ کی شریعہ اکیڈمی نے عمار صاحب کی تخریج اور مولانا زاہد الراشدی کی تحریر کو جمع کرکے 'خطبہ حجۃ الوداع‘ کے عنوان سے شائع کر دیا ہے۔ یہ بلاشبہ ایک بہت اہم علمی خدمت ہے۔
ان سب روایات پر ایک نظر ڈالنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ دین کیا ہے اور پیغمبرکس لیے آتے ہیں۔ یہ خطبہ قرآن مجید کی اس آیت کی شرح ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بحیثیت نبی‘ سیدنا محمدﷺ کا مقصدِ بعثت انسانوں کا تزکیہ تھا۔ آپؐ دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے جس معاملے میں متفکر تھے‘ وہ یہی تزکیہ ہے۔ آپﷺ نے زندگی کے کم و بیش ہر معاملے پر گفتگو کی لیکن اگر کسی کو اہم نہیں سمجھا تو وہ آپٔ کے عہد کی سیاست تھی۔ کوئی ایک روایت ایسی موجود نہیں جس میں‘ آپﷺ نے معاصر سیاسی قوتوں‘ روم و فارس کے باب میں مسلمانوں کو کوئی ہدایت دی ہو۔ کہیں ان سے یہ فرمایا ہو کہ تمہیں دنیا میں ایک سیاسی انقلاب کے لیے اٹھنا ہے۔
تمام تعلیمات اخلاقی ہیں۔ دین کہاں سے لینا ہے‘ عورتوں سے کیا سلوک کرنا ہے‘ غلاموں کے بارے میں تمہارا رویہ کیا ہونا چاہیے‘ پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے معاملے میں تمہارے فرائض کیا ہیں‘ بطور امت تمہاری ذمہ داری کیا ہے‘ دوسروں کے حقوق کے بارے میں کتنا حساس ہونا ہے‘ ظلم‘ قتل اور انسانوں کے خلاف جرائم سے کیسے بچنا ہے۔ نبیﷺ کا تمام اصرار انہی باتوں پر ہے۔ صرف دو روایات ایسی ہیں جو نظمِ سیاسی کے بارے میں ہیں۔ ایک خبر ہے اور ایک ہدایت جو حکومت کے بارے میں ہے۔
خبر یہ ہے کہ ''یہ دین ان لوگوں کے مقابلے میں غالب رہے گا جو اس کی مخالفت میں اٹھیں گے۔ نہ اس کوکوئی مخالف نقصان پہنچا سکے گا اور نہ اس سے جدا ہو نے والا‘ یہاں تک کہ میری امت میں بارہ امیر حکومت کر چکیں گے جو سب کے سب قریش میں سے ہوں گے‘‘۔ (مسند احمد) ہدایت یہ ہے کہ ''اگر کٹے ہوئے کان والا سیاہ فام غلام بھی تم پر امیر مقرر کیا جائے جو کتاب اللہ کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو‘‘۔ (مسلم) یہ ایک عمومی ہدایت اور دین کی اس تعلیم کے مطابق ہے جس میں کہا گیا کہ 'معصیت میں اطاعت نہیں‘۔ ایسی اطاعت تو والدین کی بھی نہیں کی جائے گی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاسی امور کا ذکر ممنوع ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ حج کا جوہر انفرادی تزکیہ ہے۔
حج اسی جذبے کے ساتھ کرنا چاہیے۔ یہ پروردگار کی ایک نعمت ہے۔ ہر وہ موقع‘ نعمت ہے جو شکرگزاری کا احساس پیدا کرے۔ زندگی کی حقیقت صبر اور شکر ہے اور یہی قانونِ آزمائش ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی اس عبادت کو قبول فرمائے جو اس سال میدانِ عرفات میں جمع ہوئے۔ جو نہیں جا سکے‘ اللہ انہیں توفیق دے کہ وہ اس گھر جانے کے لیے بے چین رہیں جسے اللہ نے اپنے لیے منتخب کر لیا ہے۔ جہاں دو ادیان جمع نہیں ہو سکتے۔