اصطلاحیں وقت کے ساتھ سفر کرتی ہیں۔ فیشن کے مطابق نئے معانی اوڑھ لیتی ہیں۔ ان کا مفہوم استعمال سے طے ہوتا ہے‘ لغت سے نہیں۔
'سیکولر ازم‘ کے معانی لوگ لغت میں دیکھتے اور اس کا ترجمہ 'لادینیت‘ کرتے ہیں‘ درآں حالیکہ یہ اصطلاح کب سے لغت سے اٹھ چکی۔ یورپ میں اس کا ملبوس وہاں کے سیاسی موسم اور تاریخ کے مطابق ہے۔ امریکہ میں یہ امریکی فیشن کے لحاظ سے نئے معانی کا لباس پہن لیتا ہے۔ سیاسیات کے ماہرین سے آپ پوچھیں تو وہ بتائیں گے کہ یورپین سیکولر ازم اور امریکن سیکولر ازم کیسے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
یہی معاملہ 'غلامی‘ ا ور 'آزادی‘ کا ہے۔ یہ الفاظ جب لغت کا حصہ بنے تو غلامی کا ایک مفہوم مستعمل تھا۔ انسان کو افرادی طور پر غلام بنایا جاتا تھا اور اجتماعی حیثیت میں بھی۔ غلامی کو ایک سماجی قدر کے طور پر قبول کیا گیا تھا۔ غلاموں کی منڈیاں لگتی تھیں۔ دیگر اجناس کی طرح ان کی قیمت طے ہوتی تھی۔ مرد بکتے تھے اور عورتیں بھی۔ غلامی انسانی تہذیب میں اس طرح رچ بس گئی تھی کہ اسلام جیسے حریت پسند مذہب کو بھی اس کے خاتمے کے لیے تدریج کا طریقہ اختیارکرنا پڑا۔ مسلم معاشرے میں بھی یہ صدیوں تک باقی رہی۔ فقہ کی کتابوں میں ان کے حقوق و فرائض کو شریعت کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ گویا یہ مانا گیا ہے کہ شریعت اس کو امرِ واقعہ کے طور پر قبول کر رہی ہے۔ علما کا ایک طبقہ آج بھی غلامی کوجائز سمجھتا ہے۔
غلام‘ حیاتیاتی اعتبار سے انسانوں کی ایک قسم تھی لیکن سماجی اعتبار سے حیوانوں کی۔ ان کو مویشیوں کی طرح خریدا جاتا تھا۔ افریقہ کے لوگوں کی تجارت بہت پرانا واقعہ نہیں۔ یورپ اور امریکہ میں کالوں کو غلام سمجھا گیا اور ان کے ساتھ جو ظلم روا رکھا گیا‘ اس پر تاریخ‘ ادب اور آرٹ گواہ ہیں۔ دنیا کے ہر معاشرے میں عورتوں کو جنسی مقاصد کے لیے خریدا جاتا تھا اور اسے مذہب کی تائید حاصل تھی اور سماج کی بھی۔
آج غلامی کا یہ ادارہ ختم ہو چکا۔ غلامی کو ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔ یہ انسانی مساوات کا دور ہے۔ اب قانونی اور سماجی حوالے سے کالے اور گورے میں کوئی تمیز نہیں۔ مرد اور عورت میں بھی نہیں۔ اسلام نے اس کا خاتمہ کیا اور جدید مغرب میں بھی غلامی ایک جرم ہے۔ قومیں بھی بیسویں صدی میں آزاد ہو گئیں۔ حقِ خود ارادیت کو بطور اصول مان لیا گیا ہے۔ ماضی کی طرح کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ طاقت کے زور پر کسی قوم کو مغلوب بنا لے۔ جو سرحد بیسویں صد ی میں طے ہوگئی‘ اس کی حفاظت عالمی برادری کی ذمہ داری قرار پائی۔
اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دنیا میں اس کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ اس خلاف ورزی کے لیے مگر کوئی جواز تلاش کیا جاتا ہے۔ کسی قانون کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا فورم ہے۔ کسی قوم کو محکوم بنانے کے لیے حیلوں بہانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماضی میں یہ نہیں تھا۔ جس کے پاس طاقت تھی۔ اس کا یہ حق مان لیا گیا تھا کہ وہ جہاں چاہے قبضہ کر لے۔ اسی اصول پر مغلوں اور دوسرے بدیشی حکمرانوں نے ہندوستان پر حکومت کی۔
آج کوئی غلام نہیں ہے۔ اس لیے غلامی کی اصطلاح بھی متروک ہو چکی۔ غلامی کے مقابلے میں استعمال ہونے والی آزادی کی اصطلاح بھی سابقہ مفہوم میں باقی نہیں۔ علامہ اقبال کی شاعری میں یہ اصطلاحیں قدیم مفہوم میں استعمال ہوئی ہیں۔ اُن کے عہد میں سیاسی غلامی موجود تھی۔ ہندوستان پر انگریزوں کا بالفعل قبضہ تھا اور ہم غلام تھے۔ پاکستان بننے کے بعد غلامی ختم ہو گئی۔ ہم فی الواقع آزاد ہو گئے۔ اب پاکستان پر اور یہاں بسنے والوں پر غلام کی اصطلاح کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔
دورِ جدید میں غلامی اور آزادی سیاسی اصطلاحیں ہیں‘ اگرچہ قدیم عہد میں یہ سماجی مفہوم میں بھی استعمال ہوتی رہی ہیں۔ غلامی ذہنی اور فکری بھی ہوتی ہے مگر اس کے لیے مختلف اصطلاحیں مستعمل ہیں۔ جیسے پیری مریدی۔ جیسے تقلید۔ اس مفہوم میں ہم صدیوں سے غلام چلے آرہے ہیں۔ سیاسی آزادی سے اس پر کوئی فرق نہیں آیا‘ تاہم سیاسی مفہوم میں ہم آج آزاد ہیں۔
دورِ جدید کے سیاسی نظم میں غلامی کا کوئی تصور نہیں ہے‘ تاہم قوموں کے باہمی تعلقات نے ایک نئی صورت اختیار کر لی ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے دو الفاظ اہم ہیں۔ ایک انحصار اور دوسرا مسابقت۔ اب قومیں مجبور ہیں کہ ایک دوسرے پر انحصار کریں۔ امریکہ جیسی سپر پاور بھی 1979ء میں پاکستان پر انحصار کرنے پر مجبور ہوئی۔ اُسے بادلِ نخواستہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے آنکھیں بند کرنا پڑیں۔ اگر اس کا پاکستان پر انحصار نہ ہوتا تو وہ ہمیں کبھی اس کی اجازت نہ دیتا۔ اسی طرح یہ مسابقت کا دور ہے۔ جو قوم زیادہ محنت کرے گی‘ اس کے لیے ترقی کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔ اگر وہ خود نہ چاہے تو کوئی اسے محکوم نہیں بنا سکتا۔ حالیہ تاریخ میں جاپان اور چین اس کی مثالیں ہیں۔ ہم ملائیشیا اور ترکیہ کو بھی اس فہرست میں شامل کر سکتے ہیں۔
پاکستان اللہ کے فضل وکرم سے کسی کا غلام نہیں ہے‘ تاہم وہ دوسری اقوام پر انحصار پر مجبور ہے۔ یہ انحصار بالجبر نہیں ہے۔ یہ ہماری اپنی کمزوریوں‘ نااہلی اور بے بصیرتی کا نتیجہ ہے۔ آزاد قوم بھی جب ان میں مبتلا ہو جائے گی تو دوسروں پر اس کا انحصار بڑھ جائے گا اور وہ آہستہ آہستہ سب کچھ گروی رکھ دے گی۔ اسی طرح اگر وہ مسابقت کے میدان میں ہار جائے گی تو یہ بھی ایک داخلی عمل ہے جس کا الزام دوسروں کو نہیں دیا جا سکتا۔
رہا ہمارے ملک کا سیاسی نظام تو اس کی باگ ہمیشہ اشرافیہ کے ہاتھ میں ہی رہے گی۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہے۔ جمہوریت میں یہ گنجائش ہوتی ہے کہ ایک عام آدمی اپنی محنت سے اشرافیہ کا حصہ بن جائے اور وہ اقتدار میں شریک ہو جائے۔ اسی طرح اگر ایوانِ اقتدار کا تالا عام آدمی کے ووٹ سے کھلتا ہے تو پھر اشرافیہ اس پر مجبور ہوتی ہے کہ اس کے جذبات اور ضرویات کا خیال رکھے تاکہ اقتدار تک پہنچ جائے۔ اس میں بھی غلامی نہیں ہوتی۔ سیاسی حالات بعض اوقات یہ رُخ اختیار کر لیتے ہیں کہ کسی ایک ادارے کی حاکمیت قائم ہو جاتی ہے۔ اس سے محفوظ رہنے کا طریقہ جمہوریت اور پُر امن جمہوری جد وجہد ہے۔
دنیا میں عام آدمی کو کبھی اقتدار نہیں ملتا۔ یہ ہمیشہ خواص کے لیے ہوتا ہے۔ عام آدمی کے پاس یہ راستہ موجود ہوتا ہے کہ وہ اپنی محنت سے خواص میں شامل ہو جائے۔ جیسا ایک غریب کا بیٹا سی ایس ایس کر کے بیوروکریسی کے اعلیٰ ترین درجے تک پہنچ جاتا ہے۔ بیوروکریسی بھی اشرافیہ میں شامل ہے۔ اسی طرح اگر سیاسی جماعتیں موجود ہوں تو وہ ان میں بھی اعلیٰ عہدوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ وکالت بھی ایک ایسا پیشہ ہے جس کی سیڑھی سے بہت سے عام لوگ اقتدار تک پہنچے ہیں۔
سیاست میں غلامی سے آزادی صرف ایک سیاسی نعرہ ہے۔ اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ اشرافیہ کے ایک گروہ کی جگہ دوسرا گروہ لے لے۔ اگر ہم اپنے فیصلوں میں آزاد ہونا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں خود انحصاری کے لیے جد وجہد کرنا ہو گی۔ ہمیں مسابقت کے میدان میں مردِ میدان بننا ہو گا۔ ہمارا مسئلہ غلامی نہیں‘ انحصارہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آگے بڑھنے کا راستہ کھلا ہے جسے کوئی بند نہیں کر سکتا۔ یہ راستہ سب کے لیے کھلا ہے۔ اسی راستے پر چل کر ملائیشیا نے مقام بنایا۔ اس راستے کا انتخاب ہم نے کرنا ہے۔ انتخاب کی اس آزادی کا میسر ہونا اس بات کا اعلان ہے کہ ہم غلام نہیں ہیں۔