'مطلق آزادی‘ ایک خام خیال ہے۔ لغت میں تو اس لفظ کا سراغ ملتا ہے‘ زندگی میں نہیں۔ انسانی سماج اس تصور سے نا واقف ہے۔
سماج نام ہے منظم ہونے کا۔ سماج اور جنگل میں اساسی فرق 'تنظیم‘ ہی کا ہے۔ سماج منظم ہوتا ہے اور جنگل غیر منظم۔ تنظیم کا مطلب ہے: سماج کے تمام افراد کی حدود کا اس طرح تعین کر دیا جا ئے کہ انسانی معاشرہ جنگل نہ بنے۔ سیاسیات کی زبان میں اسے قانون کی حکمرانی(Rule of Law) کا نام دیا جاتا ہے۔ 'قانون‘ کا لفظ ہی انسانی سرگرمیوں پر پابندی کا اعلان ہے۔ دنیا کا ہر سیاستدان عوام سے ساتھ دینے کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ وہ قانون کی حکمرانی قائم کر سکے۔
قانون اگر نہ ہو تو سڑکوں پر ٹریفک رُک جائے۔ ایک ہنگامہ برپا رہے اور کوئی اپنی منزل تک نہ پہنچ سکے۔ اسی لیے ٹریفک قوانین بنتے ہیں اور دنیا کا کوئی آزاد خیال اس سے انکار نہیں کرتا۔ یہ مثال بات کی تفہیم کے لیے کفایت کرتی ہے‘ اگر عقلِ عام (Common Sense) میسر ہو۔ ورنہ زندگی کا ہر شعبہ ایسی مثالوں سے مملو ہے۔ یہ بتایا جا سکتا ہے کہ گھر سے باہر قدم رکھنا محال ہے‘ اگر انسانی آزادی پر قید نہ لگائی جائے۔
سماج چونکہ اقدار کے تابع ہوتا ہے‘ اسی لیے نظامِ اقدار ناگزیر ہیں۔ یہ اقدار انسان کے صدیوں کے تجربات کا حاصل ہیں اور الہامی علم بھی انہی کی تائید کرتا ہے۔ آزادی کی تحدید چونکہ انسان کے اخلاقی وجود کی سلامتی کے لیے ضروری ہے‘ اس لیے دنیا کا ہر نظامِ اخلاق انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ اسے یہ کرنا چاہیے اور یہ نہیں کرنا چاہیے۔ لبرل سے لبرل فرد کے لیے بھی اس سے اختلاف محال ہے۔ قانون کے ماخذ یا نوعیت کے باب میں تو اختلاف ممکن ہے لیکن اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اہلِ علم میں تاہم یہ بات زیرِ بحث رہی ہے کہ یہ پابندی کہاں تک ہو سکتی ہے اور کون اس کے نفاذ کا اختیار رکھتا ہے۔ اس بات پر اتفاق ہے کہ دو قوتیں انسان کی شخصیت کو منظم کرتی ہیں۔ ایک سماجی اقدار اور دوسرا قانون۔ پہلے کا ماخذ سماج ہے اور دوسرے کا ریاست۔ ریاست سماج سے الگ نہیں۔ یہ اسی کی سیاسی تنظیم ہے۔ ریاست کو کیا قانون سازی کا مطلق حق حاصل ہے؟ انسانی تاریخ نے اس کے تین جواب دیے ہیں۔ ایک جواب اثبات میں ہے۔ اس کا ظہور بادشاہت کی صورت میں ہوا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ انسانی آزادی پر قدغن کا حق خدا کو ہے اور اہلِ مذہب زمین پر اس کے نمائندے ہیں جو اس کے حکم کو عوام تک پہنچائیں گے۔ اس تصور نے مذہبی ریاست (Theocracy) کو جنم دیا۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ ریاست یہ حق عوام کی مرضی سے استعمال کرے گی‘ جن پر پابندیوں کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کی عملی شکل جمہوریت ہے۔
اختلاف اس میں نہیں کہ ریاست اس کا حق رکھتی ہے یا نہیں۔ اختلاف کا محل یہ ہے کہ ریاست کس کا نام ہے؟ بادشاہت‘ مذہبی پیشوائیت یا عوامی نمائندگی؟ اسی سے جڑا یہ سوال ہے کہ یہ پابندی کس حد تک لگ سکتی ہے؟ کیا فرد کی زندگی میں ریاستی مداخلت کی کوئی حد ہے؟ بادشاہت میں کوئی حد نہیں ہے۔ بادشاہ چاہے تو میاں بیوی میں طلاق کروا دے۔ مذہبی ریاست میں بھی کوئی حد نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ خدا مداخلت کا مطلق اختیار رکھتا ہے۔ اہلِ مذہب چونکہ خدا کے دیے ہوئے اس اختیار کو استعمال کرتے ہیں لہٰذا وہ اس کا حق رکھتے ہیں۔ جمہوریت ریاست کے دائرے کو محدود کرتی ہے۔ اس میں فرد کی نجی زندگی میں ریاست کی مداخلت سب سے کم ہے۔
علامہ اقبال نے بھی اس سوال کو موضوع بنایا ہے۔ وہ ریاست کے وجود کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس سوال کا تعلق فرد کے شخصی ارتقا سے ہے۔ یہ پابندی وہیں تک گوارا ہے جہاں فرد کا ذہنی اور فکری سفر رکنے نہ پائے۔ اس کے ساتھ مطلق آزادی بھی نہیں دی جا سکتی کہ یہ نظم کو برباد کر دیتی ہے۔ اقبال نے اس بحث کو تقلید سے جوڑا ہے جو مسلمان معاشروں کا ایک امتیاز ہے اور ہماری فقہی روایت کا حصہ ہے۔
جب اس اصول کو مان لیا گیا کہ ریاست انسانی آزادی پر پابندی کا حق رکھتی ہے تو مختلف شعبہ ہائے حیات میں اس کے لیے اقدامات کیے گئے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاکا دائرہ بھی متعین کیا گیا اور ان کی تنظیم کے لیے بھی قوانین بنے۔ مغرب کے لبرل معاشرے میں بھی میڈیا کو یہ حق نہیں کہ کسی کی ذاتی زندگی کو سکینڈلائز کرے یا خلافِ واقعہ خبریں نشر کرے۔ اس کی خلاف ورزی پر اتنے بھاری جرمانے عائد ہوتے ہیں کہ ہم اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا کو بھی بعض حدود کا پابند نہیں ہونا چاہیے؟
جو لوگ اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہیں‘ وہ بھی اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ ریاست اس حق کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہے۔ وہ ان آوازوں کو بھی دبا دینا چاہتی ہے جو اس کے ظلم کو سامنے لاتی ہیں یا اس کی نا انصافیوں کو بیان کرتی ہیں۔ ریاست پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کر رہی ہے‘ اگر اس کا دائرہ سوشل میڈیا تک بڑھا دیا گیا تو سماج گھٹن کا شکار ہو جا ئے گا۔ اس لیے سوشل میڈیا کو آزاد ہی ہونا چاہیے۔
یہ خدشہ کچھ ایسا بے بنیاد نہیں۔ ہماری ریاست نے اس باب میں اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے اور لوگوں کے جائز حق کو بھی غصب کیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگوں نے بھی اپنی حد سے تجاوز کیا اور سوشل میڈیا کو سماجی وسیاسی نظم اور اخلاقی اقدار کو برباد کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ فرد اور ریاست‘ دونوں کو اپنی حدود کا پابند بنانے کے لیے کون سا نظام ہونا چاہیے جس سے کسی کو شکایت پیدا نہ ہو؟
پرنٹ یا الیکٹر انک میڈیا کا معاملہ تو یہ ہے کہ ان سے متعلق لوگ منظم ہیں۔ ان کی تنظیم کے لیے قوانین موجود ہیں۔ یوں ریاست اور ان کے مابین مکالمہ ممکن ہے اور اس عمل کو کسی نظم کے تابع کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا تو شتر بے مہار ہے۔ ہر آدمی اپنی جگہ ایک ادارہ ہے۔ سرِ دست تو یہ ممکن نہیں کہ ریاست سوشل میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ مل کر کوئی حکمتِ عملی بنا سکے۔ بعض لوگوں نے کوشش کی ہے کہ سوشل میڈیا کو بھی الیکٹرانک میڈیا کے طرز پر منظم کیا جا سکے مگر ابھی ان کوششوں کو ثمر بار ہونا ہے۔
حالات اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ سوشل میڈیا کی افادیت کے باجود‘ اس کا پھیلا ہوا شر‘ اس کے خیر پر غالب ہے۔ اخلاقی زوال کے ساتھ فرقہ واریت اور جھوٹے سیاسی بیانیوں کی مقبولیت سمیت‘ اس آزادی کے کئی نتائج ایسے ہیں جو سماج کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔ بے مہار سوشل میڈیا نے سماج میں ہیجان پیدا کیا اور سماجی و سیاسی اختلاف کو فطری دائرے سے نکال کر حق و باطل کے معرکے میں بدل دیا۔
اب لازم ہے کہ ریاست ایک طرف سیاسی و شخصی آزادی کو یقینی بنائے اور سوشل میڈیا کو ایک نظم کے تابع کرے۔ پارلیمنٹ کی موجودگی میں تو یہ حق اسی کے پاس تھا۔ چونکہ آج پارلیمنٹ موجود نہیں‘ اس لیے لازم ہے کہ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے مشاورت کے ساتھ ایک نظام تشکیل دیا جائے۔ مطلق آزادی ایک خام خیال اور سماج کی بربادی ہے۔ سوشل میڈیا کو‘ لہٰذا اس سے مستثنیٰ نہیں ہونا چاہیے۔