محترم مفتی تقی عثمانی صاحب کو اس پر تشویش ہے کہ پاکستانی لڑکیاں عالمی مقابلۂ حسن میں ملک کی نمائندگی کریں گی۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس کے ذمہ داران کو سزا دے اور کم ازکم نمائندگی کے تاثر کو تو زائل کرے۔ بعض لوگوں کو مفتی صاحب کے مطالبے پر اعتراض ہے۔ اس اعتراض کی نوعیت کیا ہے اور کیا وہ اپنے اس اعتراض میں حق بجانب ہیں؟ یہی سوالات آج کے کالم کا موضوع ہیں۔
ہمارے تہذیبی پس منظر میں 'مقابلۂ حسن‘ کا تصور قابلِ فہم نہیں۔ یہ خالصتاً سر مایہ دارانہ تصورِ حیات کی دین ہے جس میں ہر شے کو جنسِ بازار سمجھا جاتا ہے۔ عورت کی نسوانیت کو مرد صارف کے لیے قابلِ فروخت بنانے کے حربے تلاش کیے جاتے ہیں اور اس کی فطری کمزوری کا استحصال کیا جاتا ہے۔ کیٹ واک اور مقابلۂ حسن اسی کے مختلف مظاہر ہیں۔ اسلام تو کیا‘ یہ فعل مسیحی اور یہودی تہذیبی اقدار سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ اسلام مرد اور عورت دونوں کو تکریم دیتا ہے۔ عورت کی یہ تذلیل اس کے لیے قابلِ قبول نہیں جو اسے جنسِ بازار بنا دیتی ہے۔
اس کا تعلق آزادی کے اُس تصور سے نہیں ہے جو 'تحریکِ آزادیٔ نسواں‘ کے نام پر اٹھی تھی۔ وہ پدر سرانہ معاشرت کے خلاف ایک ردِ عمل تھا جو عورت کو مرد سے کمتر درجہ دیتی ہے‘ اسے کم عقل سمجھتی اور بہت سی سماجی و سیاسی ذمہ داریوں کے لیے اہل قرار نہیں دیتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کنزیومر ازم کے تحت‘ جس کا مقصد منافع خوری ہے‘ مصنوعی سماجی اقدار پیدا کی جاتی ہیں۔ ایک شاندار تشہیری مہم سے اسے پہلے معاشرتی سطح پر قابلِ قبول اور پھر ضرورت بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی بنیاد یقینا کسی فطری طلب میں ہوتی ہے۔ اس طلب کو حسرت یا ہوس میں بدل دیا جاتا ہے۔ یہی انسانی کمزوری کنزیومر ازم کے لیے در اندازی کا موقع پیدا کرتی ہے۔
سرمایہ دارانہ اخلاقیات اسی پس منظر میں پیدا ہوئی ہے اور اس نے انسانوں کو اس تہذیبی حساسیت سے محروم کر نے کی سعی کی ہے جو روایت کے نام پر دنیا کے ہر معاشرے میں پائی جاتی ہے۔ اس حساسیت کو پیدا کرنے میں مذہب کا بڑا کردار ہے۔ اس لیے جب اس پر ضرب پڑتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ اس نظامِ اقدار کا انتشار ہے جو مذہب کو تہذیبی زندگی سے متعلق رکھتا ہے۔ اس کا احساس کرتے ہوئے مذہب کا کوئی نمائندہ اگرکنزیومر ازم کے کسی مظہر پر تنقید کرتا ہے تو اسے قابلِ فہم سمجھنا چاہیے۔
مسلم معاشرے کی اپنی تہذیبی حساسیت ہے۔ اسلام مرد و زن دونوں میں یہ حساسیت پیدا کرتا ہے۔ وہ خاندان کے جس ادارے کو جنم دیتا چاہتا ہے اس کے لیے یہ ضروری ہے۔ یہ حساسیت اگر نہ ہو تو وہ خاندان وجود میں نہیں آ سکتا جو ایک بچے کی تربیت کے لیے اس طرح سازگار ہو کہ وہ ایک کامیاب انسان بنے۔ اسلام آخرت کی کامیابی ہی کو اصل کامیابی قرار دیتا ہے۔ اگر مسلم معاشرے میں سرمایہ دارانہ اخلاقیات در آئیں گی تو اس کے افراد کی شخصیتیں 'آخرت مرکز‘ نہیں 'دنیا مرکز‘ بنیں گی۔ اس لیے یہاں مقابلہ ہائے حسن جیسے مظاہر کو گوارا نہیں کیا جا سکتا۔
قرآن مجید ایک عالمِ دین کی جو بنیادی ذمہ داری بیان کرتا ہے وہ 'انذار‘ ہے۔ اس کا مطلب ہے آخرت میں جوابدہی کا احساس پیدا کرنا اور لوگوں کو خبردار کرنا کہ انہیں ایک دن خدا کے حضور میں حاضر ہونا ہے۔ اس لیے جب کوئی ایسا اقدام کیا جائے گا جو اس حوالے سے غفلت پیدا کرنے والا ہو تو ایک عالم کی ذمہ داری ہے کہ وہ آواز اٹھائے اور عامۃ الناس کو متنبہ کرے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے یہی ذمہ داری ادا کی ہے۔ اگر وہ اس پر خاموش رہتے تو دراصل اپنے فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے۔ ایک عام مسلمان شہری کے طور پر مجھے ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ لہٰذا مفتی صاحب پر کیا جانے والا اعتراض جوہری طور پر بے معنی ہے۔
اعتراض کا دوسرا زاویہ یہ ہے کہ سماج میں ظلم اور عدوان کے واقعات ہوتے ہیں۔ ان کا صدور ریاست کی طرف سے ہوتا ہے اور سماج کے بالا دست طبقات کی طرف سے بھی۔ جیسے لوگوں کو بغیر مقدمہ قائم کیے اٹھا لیا جاتا ہے۔ معصوم بچوں کی مدرسوں اور دوسرے مقامات پر تذلیل ہوتی ہے۔ ایسے مواقع پر مفتی صاحب جیسے علما اس حساسیت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ کیا انہیں اس ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھانی چاہیے؟
میرے نزدیک یہ اعتراض وزنی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس نوعیت کے واقعات اکثر رپورٹ ہوتے ہیں۔ بچوں پر گھروں میں مظالم ہوتے ہیں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔ لوگ غائب ہو جاتے ہیں اور ان کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔ عدالتوں میں ناانصافیاں ہوتی ہیں۔ یہ واقعات تسلسل کے ساتھ ہوتے ہیں اور علما یہاں کسی حساسیت کا مظاہرہ کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ ان کی سنگینی اس مقابلۂ حسن سے کہیں زیادہ ہے جو یہاں کا روزمرہ نہیں۔ اگر سیدنا مسیحؑ کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو علما مچھر چھانتے اور اونٹ نگلتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ جملہ اپنے ہم عصر یہودی علما کے بارے میں کہا تھا۔
میں مقابلۂ حسن پر مفتی صاحب کے ردِ عمل کو مچھر چھاننا نہیں سمجھتا۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہمارے علما کی عمومی روش مگر یہی ہے کہ وہ بڑے بڑے واقعات کو نظر انداز کرتے اور کم اہم پر مورچہ لگا لیتے ہیں۔ میں مفتی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہ انہوں نے ہمیں ایک اہم معاملے کی طرف متوجہ کیا ‘یہ گزارش بھی کروں گا کہ وہ اس اعتراض پر ضرور غور فرمائیں۔ صرف وہی نہیں‘ طبقۂ علما اس کی سنجیدگی کو محسوس کرے جو سماج میں انذار کی ذمہ داری ادا کرنے پر مامور ہے۔
مفتی صاحب نے ریاست سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کی نمائندگی کے تاثر کو ختم کرے۔ یہ مطالبہ صائب ہے۔ ہماری ریاست آئینی طور پر اسلام کی تہذیبی اقدار کی محافظ ہے۔ بطور ریاست تو اسے ان سرگرمیوں سے دور رہنا ہے۔ اس لیے یہ کام ریاستی سرپرستی میں نہیں ہونا چاہیے‘ تاہم اگر کوئی انفرادی حیثیت میں اس طرح کی کسی سرگرمی میں حصہ لیتا ہے تو ریاست اسے روکنے کا حق نہیں رکھتی۔ پاکستان میں کوئی ایسا قانون موجود نہیں جو مقابلۂ حسن میں شرکت کو قابلِ تعزیر جرم قرار دیتا ہو۔ اس لیے سزا کا کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ہر سماج کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی اجتماعی اخلاقی اقدار کی حفاظت کرے۔ سماج کا ایک حصہ ہوتے ہوئے ریاست بھی اس کی پابند ہے کہ وہ اس باب میں اپنا کردار ادا کرے‘ تاہم لازم نہیں کہ ریاست ہر معاملے میں لٹھ اٹھا لے۔ لٹھ وہ اسی وقت اٹھائے گی جب کوئی جرم ہوگا یا کسی موجود قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔ قانون بناتے وقت بھی اسے یہ خیال رکھنا ہے کہ ریاست کی مداخلت اسی وقت قابلِ قبول ہو سکتی ہے جب معاملہ حقوق کی پامالی کا ہو۔ انفرادی اخلاقیات کے معاملے میں وہ تذکیر تو کر سکتی ہے انہیں بالجبر شہریوں پر نافذ نہیں کر سکتی۔
سماج کو اخلاقیات کے باب میں حساس بنانے کا کام تذکیر اورتعلیم ہی کی سطح پر ہو سکتا ہے۔عوام کویہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اس تہذیب کی باگ سر مایہ دارکے ہاتھ میں ہے جس کا خدا اس کا سرمایہ ہے۔وہ اس کی محبت میں جیتا اور اس میں اضافے کی ہرصورت کو جائز سمجھتا ہے۔ اسی مقصد کے تحت اس نے اخلاقیات کا پورا نظام وضع کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تہذیب اسی وقت انسان کے لیے قابلِ قبول ہو سکتی ہے جب اس کا رشتہ خدا سے توڑ کر اس دنیا سے جوڑ دیا جائے اور موت کو اختتامِ زندگی سمجھا جائے۔ مقابلۂ حسن اسی سمت میں ایک قدم ہے۔