اس میں کیا شبہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور(ن) لیگ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس اختلاف کا اظہار کیا شائستگی کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا؟
مشترکہ مفاد مختلف الخیال گروہوں کو یک جا کر دیتا ہے۔ سیاست میں یہ کوئی اَنہونی بات نہیں۔ مشترکہ مفاد لازم نہیں کہ منفی ہو‘ یہ مثبت بھی ہو سکتا جیسے جمہوریت کی بحالی۔ ہمارے ملک کی تاریخ میں سب سے پارسا سیاسی شخصیات ایسے اتحادوں کا حصہ رہی ہیں اور ان کا باہمی اختلاف بھی باقی رہا ہے۔ ایوب خان مرحوم کے خلاف سیاسی اتحاد بنا۔ قومی اتحاد بھی ایسا ہی ایک اتحاد تھا۔
پاکستان قومی اتحاد اصلاً ایک انتخابی اتحاد تھا جو پیپلز پارٹی کے خلاف وجود میں آیا۔ اس میں مولانا مودودی جیسے اسلامی انقلاب کے داعی‘ مفتی محمود مرحوم جیسے مذہبی سیاست کے علمبردار‘ نواب زادہ نصر اللہ خان جیسے جمہوریت پسند‘ بیگم نسیم ولی خان جیسی سیکولر اور حبیب جالب جیسے اشتراکیت پسند‘ سب بھٹو صاحب کے خلاف متحد تھے۔ نظامِ مصطفی کا نفاذ اس اتحاد کے پیشِ نظر نہیں تھا۔ رفیق ڈوگر نے ایک انتخابی جلسے میں یہ نعرہ بلند کیا اور یہ مقبول ہو گیا جس طرح 'پاکستان کا مطلب کیا‘ کا نعرہ تحریکِ پاکستان میں زبان زدِ خاص و عام ہو گیا تھا۔
سیاسی جماعتوں کا اکٹھا اور پھر الگ ہو جانا معمول کی سیاست ہے۔ پاکستان میں کوئی قابلِ ذکر سیاسی جماعت ایسی نہیں جس نے دوسری جماعتوں سے اتحاد نہ کیا ہو۔ اس سے نہ تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی نے اپنے نظریات کو چھوڑ دیا ہے اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک کو دوسرے کے افعال کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ایسا ہی ایک اتحاد پی ڈی ایم کے نام سے بھی قائم ہوا۔ پیپلز پارٹی پہلے اس کا حصہ تھی پھر الگ ہو گئی۔ تاہم وہ عمران خان صاحب کو اقتدار سے ہٹا نے میں پی ڈی ایم کے ساتھ شریک تھی اور بعد میں مشترکہ حکومت کا حصہ بھی تھی۔
اس اتحاد کا بنیادی مقصد عمران خان صاحب کے اقتدار کا خاتمہ تھا۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے بعد مشترکہ حکومت کے قیام پر بھی اتفاق ہوا۔ اس کا آئینی دورانیہ تمام ہوا تو حکومت ختم ہوئی اور اس کے ساتھ سیاسی اتحاد بھی۔ اب سب کو انتخابی اکھاڑے میں اُترنا اور ایک دوسرے کا سامنا کرنا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض جماعتیں ایک دوسرے سے انتخابی اتحاد کر لیں۔ جمعیت علمائے اسلام اور (ن) لیگ کا اتحاد ممکن ہے۔ پیپلز پارٹی پی ٹی آئی سے اتحاد کے امکانات کا اظہار کر رہی ہے اگرچہ ابھی تک فریقِ ثانی کے کسی ذمہ دار نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔
سیاست کی دنیا میں اس طرح کے اتحاد اچنبھے کی بات نہیں۔ ملنے اور بچھڑنے کا یہ عمل اگر مہذب طریقے پر ہو تو اس سے سیاسی فضا مکدر نہیں ہوتی۔ اس سے اہلِ سیاست کا اعتبار پیدا ہوتا اور عوام کی نظر میں ان کی عزت بڑھتی ہے۔ اس کے برخلاف اگر اسے تلخ بنا دیا جائے اور بات الزامات تک چلی جائے تو پھر عوام کا دل میلا ہوتا ہے اور سیاست دانوں کے بارے میں ایک منفی تاثر جنم لیتا ہے۔ چند دن پہلے ہم نے سنا کہ شہباز شریف صاحب بھٹو صاحب کو قومی سیاست کا ایک زندہ کردار قرار دے رہے تھے۔ آج (ن) لیگ کے ایک سیاسی رہنما فرما رہے ہیں کہ 'بھٹو مر چکا‘۔سیاست کا بھرم اہلِ سیاست سے ہے۔ اگر وہ اختلاف کے اظہار میں شائستگی کا مظاہرہ کریں گے تو اس سے سیاسی فضا خوش گوار ہو گی۔ اختلاف کا اظہار کیا جا سکتا اور اپنے امتیازات کو بھی برقرار رکھا جا سکتا ہے لیکن اس بات کا امکان ختم نہیں ہونا چاہیے کہ مہذب لوگ سیاست سے گریز کرنے لگیں۔ سیاست کے بارے میں یہ تاثر قائم نہیں ہونا چاہیے کہ یہ شائستہ لوگوں کا کام نہیں ہے۔
ہماری سیاسی تاریخ میں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ بدترین سیاسی مخالفین نے کبھی مذاکرات کا دروازہ بند نہیں کیا۔ 1977ء میں مارشل لا کے نفاذ سے ایک دن پہلے تک پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کی قیادت کے مابین گفت و شنید کا سلسلہ قائم تھا۔ جناب کوثر نیازی اور پروفیسر عبدالغفور احمد پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کی طرف سے ان مذاکرات کا حصہ تھے۔ دونوں نے باہمی ملاقاتوں کی روداد لکھی ہے۔ گفتگو میں دونوں اطراف سے بزلہ سنجی کا مظاہرہ بھی کیا جاتا تھا اور فضا کو خوشگوار رکھنے کی شعوری کوشش ہوتی تھی۔مذاکرات کے دوران نماز کا وقفہ ہوتا تھا۔ قومی اتحاد کی قیادت اس کا اہتمام کرتی تھی۔ عبادات کے حوالے سے بھٹو صاحب کا تساہل معلوم ہے۔ ایک موقع پر انہوں نے مفتی صاحب سے کہا: میں نے سنا ہے پہلے پچاس نمازیں فرض ہونے جا رہی تھیں۔ مفتی صاحب نے جواباً اس روایت کی تفصیل بیان کی۔ بھٹو صاحب کا کہنا تھا: اچھا تھا‘ پچاس رہتیں۔ آپ نماز پڑھتے رہتے اور ہم آرام سے حکومت کرتے۔
انتخابات کے دنوں میں تنقید میں شدت آجاتی ہے جو ایک حد تک گوارا ہوتی ہے۔ سیاست کی عموی فضا مگر تقاضا کرتی ہے کہ سیاست میں شدت نہ ہو۔ ایک دوسرے کا احترام کیا جائے اور اختلاف کا اظہار بھی شائستگی کے ساتھ کیا جائے۔ باہمی رواداری کی فضا قائم رہنی چاہیے۔ 2007ء میں بے نظیر صاحبہ کی شہادت پر اور 2013ء میں عمران خان صاحب کے ساتھ پیش آنے والے حادثے کے موقع پر نواز شریف صاحب نے جس طرزِ عمل کا اظہار کیا‘ اس نے سیاسی فضا پر مثبت اثر ڈالا۔
آج سیاسی فضا بہت تلخ ہو چکی۔ اس تلخی کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریکِ انصاف کو بھی سیاسی عمل کی طرف لوٹنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں میں اگر رواداری کی فضا ہو گی تو وہ ایک دوسرے کی معاون بنیں گی۔ بصورتِ دیگر تلخی تقسیم کو مزید گہرا کرے گی جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی قیادت کو اس معاملے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور مذاکراتی عمل کا آغاز کرنا ہوگا۔ کیا اچھا ہو اگر تحریکِ انصاف اور دوسری جماعتیں بھی اس عمل کا حصہ بن جائیں۔
آغاز میں ایک کام بہت ضروری ہے۔ یہ پارٹی ترجمانوں کا انتخاب ہے۔ اس کام کے لیے ایسے افراد کا چناؤ کرنا چاہیے جن کی شہرت یہ ہو کہ وہ دلیل اور شائستگی کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ ان کا انحصار موثر ابلاغ پر ہو نہ کہ اونچی آواز پر۔ صرف یہ ایک فیصلہ تلخی کو نمایاں طور پر کم کر دے گا۔ بعض لوگوں میں دشنام اور گالی دینے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہی کمی ترجمان کے انتخاب کا معیار بن جائے۔
یہ عام انسانوں کا معاشرہ ہے۔ ہر جماعت اور گروہ میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔ اگر ہم اس حقیقت کا اعتراف کر لیں اور ساتھ ہی اپنی صفوں میں سے اچھوں کو نمائندگی کی ذمہ داری سونپیں تو سیاست کو ہیجان سے نکالا جا سکتا ہے۔ قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی میں جب مذاکرات ہوئے تو فریقین نے اپنی صفوں سے مہذب لوگوں کا انتخاب کیا۔ قومی اتحاد کی طرف سے مفتی محمود صاحب‘ نواب زادہ نصر اللہ خان اور پروفیسر عبدالغفور احمد جبکہ پیپلز پارٹی کی طرف سے بھٹو صاحب‘ عبدالحفیظ پیرزادہ اور کوثر نیازی صاحب ان مذاکرات میں شریک ہوئے۔ 30میں سے 29نکات پر اتفاق ہو چکا تھا کہ 5 جولائی1977ء کو سیاسی عمل کو لپیٹ دیا گیا۔
معاملات دور اندیش لوگوں کے ہاتھ میں ہوں تو قومیں حادثات سے محفوظ رہتی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی قیادت کو چاہیے کہ تلخی کو بڑھنے نہ دے۔ رہے مفادات تو ان کے تحفظ کے لیے غیر مہذب ہونا لازم نہیں۔ کاش میں تحریک انصاف کی قیادت کو بھی مشورہ دے سکتا کہ وہ سیاسی عمل کا حصہ بنے۔