سیدنا محمدﷺ کی نبوت و رسالت عالمگیر ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ آپﷺ کی دعوت ہر ذی شعور تک پہنچائیں۔
آپﷺ کی بعثت سے لے کر قیامت کی صبح تک اس زمین پر شعور کی آنکھ کھولنے والا ہر انسان آپؐ کی دعوت کا مخاطب اور اس کا پابند ہے کہ آپؐ پر ایمان لائے۔ یہ بات اتنی اہم ہے کہ ختم ِنبوت کا بدیہی نتیجہ ہونے کے باوصف اللہ تعالیٰ نے اسے الگ سے بیان کرنا ضروری سمجھا۔ سورۃ الاعراف میں آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ آپؐ سب انسانوں سے فرما دیں: میں تم سب کے لیے اللہ کا رسول ہوں۔
اس کے اولیں مخاطبین میں جو طبقہ سب سے اہم تھا وہ یہود و نصاریٰ تھے۔ نبیﷺ کی بعثت‘ نبوت کی بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل کو منتقلی کا اعلان تھا۔ آپﷺ سے پہلے ذریتِ ابراہیم ؑ میں جو نبی اور رسول آئے‘ سب سیدنا اسحاقؑ کی اولاد میں سے تھے۔ سیدنا مسیحؑ ان میں آخری تھے۔ اس سے بنی اسرائیل میں سے بعض کو یہ عذر تراشنے کا موقع ملا کہ سیدنا محمدﷺ اگر نبی ہیں تو بنی اسماعیل کے لیے ہیں۔ ہم ان پر کیوں ایمان لائیں؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس عذر کا خاتمہ کر دیا۔
سورۃ الاعراف میں جہاں آپﷺ کی عالم گیر نبوت کا بیان ہے‘ اس سے پہلے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے۔ اس سورۃ میں عہدِ رسالت کے بنی اسرائیل کو ان کی اپنی تاریخ کے تسلسل میں جس طرح نبیﷺ کی نبوت کے ساتھ جوڑا گیا ہے‘ اور جس طرح اللہ تعالیٰ کے عذاب کا قانون بیان ہوا ہے‘ وہ پروردگار کی طرف سے اتمامِ حجت اور جزا و سزا کے باب میں پورا مقدمہ قطعیت کے ساتھ بیان کر دیتا ہے۔
بنی اسرائیل کی تاریخ کا معلوم واقعہ ہے کہ انہوں نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی غیر موجودگی میں ایک بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا۔ واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جس غصے کا اظہار کیا‘ قرآن مجید نے اس کو بیان کیا ہے۔ جنہوں نے شرک کا ارتکاب کیا ان پر قانونِ اتمامِ حجت کے تحت سزا نافذ کر دی گئی اور جنہوں نے توبہ کی انہیں معاف کر دیا گیا۔ ان کے ستر نمائندے خدا کے حضور میں پیش ہوئے اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے گویا ان سب کی طرف سے اجتماعی معافی کی درخواست کی۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ وہ انہی کوعذاب دیتا ہے جو اس کے قانون کے مطابق اس کے مستحق ہوتے ہیں۔ رہی اس کی رحمت تو وہ سب کے لیے عام ہے۔
یہیں سے مضمون پیدا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ عہدِ رسالت کے یہود سے مخاطب ہوتے اور انہیں بتاتے ہیں کہ اس رسولِ اُمی کی پیروی اب ان کے لیے بھی ضروری ہے۔ گویا نبیﷺ کی حیثیت ان کے لیے اب وہی ہے جو ان کے آباؤ اجداد کے لیے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی تھی۔ ساتھ ہی یاد دہانی کرا دی کہ یہ اطلاع ان کے لیے نئی نہیں ہے۔ تورات میں نبیﷺ کی آمد کی خبر انہیں دی جا چکی ہے۔ یہ سب بیان کر نے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کوحکم دیا کہ اب آپؐ اپنی عالمگیر نبوت کا اعلان فرما دیں۔ اس سے یہ بات بدیہی طور پر واضح ہو گئی کہ جس طرح یہود ونصاریٰ آپؐ کی دعوت کے مخاطب ہیں اسی طرح دوسرے مذہبی گروہ بھی اس کا مخاطب ہیں۔
آپﷺ کی نبوت و رسالت کی اس عالمگیریت کو قرآن مجید نے ایک دوسرے اسلوب میں بھی بیان کیا ہے۔ آپﷺ کے بارے میں یہ فرمایا گیا کہ آپؐ عالمین کے لیے رحمت ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی انسان پر بے شمار رحمتیں ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ نبوت سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔ یہ نعمت انسان کو سب سے بڑے اور ابدی خسارے سے بچانے والی ہے۔ ہر دوسری نعمت کسی خسارے سے ایک خاص وقت کے لیے بچا سکتی ہے۔ یہ صرف نبوت ہے جو اسے ہمیشہ کے نقصان سے محفوظ بناتی ہے۔ سیدنا مسیحؑ کی رحمت اصلاً بنی اسرائیل کے لیے تھی۔ آپ علیہ السلام نے خود واضح فرما دیا تھا کہ میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف آیا ہوں۔ سیدنا محمدﷺ پوری انسانیت کے لیے اللہ کے نبی اور رسول ہیں۔
ختمِ نبوت کا ایک بدیہی نتیجہ یہ بھی ہے کہ یہ امت اس نعمت کو عام کر نے کے لیے اپنا کردار ادا کر ے۔ آپﷺ کے بعد چونکہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا‘ اس لیے شہادت علی الناس کی ذمہ داری آپﷺ کے بعد امت کو سونپ دی گئی ہے۔ اس کا مصداقِ اول صحابہ تھے۔ انہوں نے یہ ذمہ داری جس شان کے ساتھ ادا کی اس کی گواہی اس خطۂ زمین کا چپہ چپہ دے رہا ہے۔ یہ کام اب ہمیں کرنا ہیں۔
آج کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جو ہستی محسنِ انسانیت ہے‘ وہ اہلِ شر کا ہدف کیوں ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ اس دنیا میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جنہوں نے آپﷺ کو بچشمِ سر دیکھا اور ایمان نہیں لائے۔ رحمت کو انسانی روپ میں مجسم دیکھنے کے باوجود اس کو قبول نہ کر سکے۔ اس کی وجوہات اہلِ علم نے تلاش کی ہیں۔ مثال کے طور پر ابوجہل کے انکار کا سبب کیا تھا‘ اس پر تفصیل سے لکھا گیا۔ انسان مگر اجتماعی طور پر حق پسند ہوتا ہے۔ انسان کا اجتماعی ضمیر سچ کا انکار نہیں کر سکتا۔ یہ بات کہ مکہ میں آپﷺ سے بڑھ کر صادق اور امین کوئی نہیں تھا‘ اجتماعی طور پر اس وقت بھی تسلیم کی گئی جب آپﷺ کو ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔
یہ لازم نہیں کہ آپﷺ پر ساری دنیا ایمان لے آئے۔ اس لیے کہ ہدایت کا اپنا ایک ضابطہ ہے لیکن انسانیت سے یہ بات آج بھی منوائی جا سکتی ہے کہ آپﷺ جیسی اخلاقی خوبیوں کی مرقع ہستی چشمِ فلک نے پھر کبھی نہیں دیکھی۔ آپﷺ سلسلۂ نبوت کی واحد کڑی ہیں جس نے تاریخ کی روشنی میں ظہور کیا۔ سابقہ انبیاکے ادوار اگرچہ تاریخ میں بیان ہوئے ہیں لیکن ان کی تاریخی سند پر کلام کیا جاتا ہے۔ نبیﷺ کا معاملہ مختلف ہے۔ آپﷺ کی تاریخی حیثیت اور آپؐ کے لائے ہوئے دین کا انکار عقلاً محال ہے جو اس زمین پر آج بھی اصل صورت میں موجود ہے۔ امتِ مسلمہ کا متواتر عمل اس کا گواہ ہے۔
آج اہلِ اسلام نے دنیا کو یہ بتانا ہے کہ آپﷺ خدا کی ہدایت تک رسائی کا واحد مستند ذریعہ ہیں۔ اگرکسی نے حضرت مسیحؑ کو جاننا ہے تو اس کا سب سے قابلِ بھروسا ذریعہ قرآن ہے اور وہ ہمیں آپﷺ کے توسط سے ملا۔ یہی معاملہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور انبیا ما سبق کا ہے۔ آپﷺ کی نفی کر کے یہود ونصاریٰ خود اپنی تاریخ کے سب سے مستند ذریعے سے محروم ہو رہے ہیں۔
ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ہر اُس سوراخ کو بند کریں جہاں سے من گھڑت روایات‘ قصوں اور عداوت پر مبنی بیانیوں کی ذریعے آپﷺ کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ ہر اس جہالت کو سامنے لائیں جسے علم کے لبادے میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ کام دعوت کے پیغمبرانہ جذبے کے ساتھ کیا جائے‘ جس جذبے کے ساتھ آپﷺ نے اپنے مخاطبین کو دعوت دی۔ دنیا کو باور کرایا جائے کہ انسان کا امن آپﷺ کے ساتھ وابستہ ہونے میں ہے۔ یہ امن اس دنیا کا بھی ہے اور اس دنیا کا بھی۔ دنیا کو یہ پیغام بغیر کسی ابہام کے پہنچ جائے کہ آپﷺ کی نبوت عالم گیر ہے اور آپﷺ کی رحمت بھی۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔