سیاست میں ایک خلا ہے۔ یہ خلا کسی نئی سیاسی جماعت کا نہیں‘ ایک نئے سیاسی کردار کا تقاضا کرتا ہے:
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا رب
اک آبلہ پا وادیٔ پُرخار میں آوے
سیاست سے عام طور پر‘ اقتدار کی سیاست مراد لی جاتی ہے۔ یہ سیاست ان امکانات کے گرد گھومتی ہے جو کسی فرد یا سیاسی جماعت کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے میں معاون ہوتے ہیں۔ یہ امکانات حقائق کی سرزمین پر جنم لیتے اور یہیں نشو ونما پاتے ہیں۔ ان کا رومان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تاریخ اس طرح اس حقیقت کی پشت پر کھڑی ہے کہ اس کا انکار عقلاً محال ہے‘ تاہم دنیا میں لوگ ایسی باتیں مانتے آئے ہیں جن کے حق میں کوئی عقلی دلیل موجود نہیں۔ اس لیے کوئی حیرت کی بات نہیں اگر لوگ یہاں آئیڈیلز تلاش کرتے ہیں۔
اقتدار کی سیاست مفاہمت پسند ہوتی ہے۔ بالخصوص ان قوتوں سے مفاہمت‘ جو پہلے سے اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہوں۔ نئی سیاسی قوتیں اگر انہیں ہٹا کر اقتدار میں آنا چاہیں تو انہیں مقتدر قوتوں سے ٹکرانا ہوتا ہے۔ یہ آسان نہیں ہوتا۔ ٹکراؤ تصادم کو جنم دیتا ہے اور یہ کمزور فریق کو کمزور تر کر دیتا ہے۔ تصادم سے بچنے کے لیے بالعموم شراکتِ اقتدار پر مفاہمت ہو جاتی ہے۔ کمزور کو کم تر حصے پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔
جمہوریت میں اقتدار کے ایک مرکز کی قیادت پُرامن طریقے سے بدل جاتی ہے جسے 'حکومت‘ کہتے ہیں۔ ریاست مگر صرف حکومت کا نام نہیں۔ وہ طاقت کے کئی مراکز پر مشتمل ہوتی ہے۔ جہاں جمہوریت کمزور ہو‘ وہاں حکومت بھی دیگر مراکزِ اقتدار کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہے۔ اقتدار کے اس مرکز کا تعلق اہلِ سیاست سے ہوتا ہے اور وہ اقتدار کے اسی حصے کے لیے جد وجہد کرتے ہیں۔ اگر کوئی سیاستدان اس زعم میں مبتلا ہو جائے کہ طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہیں‘ وہ جن کی نمائندگی کرتا ہے تو زیادہ مقتدر حلقے اس کی اس غلط فہمی کو دور کر دیتے ہیں۔ جمہوریت مضبوط ہو تو طاقت کا توازن قدرے تبدیل ہو جاتا ہے‘ تاہم مطلق اقتدار پھر بھی نہیں ملتا۔ شراکت برقرار رہتی ہے۔
جمہوریت کی روح تو یہی ہے کہ اقتدارکے شراکت داروں میں‘ سب سے مضبوط اہلِ سیاست کو ہونا چاہیے۔ اسی طرح ایک اچھے سیاسی نظم کے لیے یہ طے کرنا بھی ضروری ہے کہ مختلف سماجی طبقات کا سیاست میں کیا کردار ہونا چاہیے۔ علما‘ سول سوسائٹی‘ میڈیا‘ یہ سب سماجی طبقات ہیں۔ ایک منظم سماج میں ان کے متعین کردار ہیں۔ ان کرداروں کا اپنے اپنے دائرے میں فعال ہونا ضروری ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ وہ اپنے دائرے سے تجاوز نہ کریں۔
یہ سیاست کے آئیڈیلز ہیں۔ نظمِ ریاست کو درست خطوط پر استوار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان آئیڈیلز کی بات ہوتی رہے۔ سیاست میں ایسے کردار موجود ہوں جو عوام اور سیاستدانوں کو یہ بتاتے رہیں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا؟ جمہوریت کی مثالی صورت کیا ہے اور کون ہے جو اس کو مسخ کر رہا ہے۔ کون ہے جو اپنے دائرے سے تجاوز کر رہا ہے اور اسے کیسے اس کے دائرے تک محدود رکھا جا سکتا ہے۔ جو اقتدار کی سیاست میں شریک ہے‘ وہ یہ کام نہیں کر سکتا۔ وہ چونکہ عملیت پسند ہوتا ہے‘ اس لیے بعض ایسی باتوں کو بھی تسلیم کر لیتا ہے‘ ایک مثالیت پسند جسے گوارا نہیں کر سکتا۔ وہ عوامی حاکمیت پر مفاہمت کرتا اور اقتدار میں شراکت کو قبول کر لیتا ہے۔ اقتدار کی سیاست میں ایک فریق اس لیے مثالیت پسند نہیں ہو سکتا۔ یہاں ان کرداروں کو تلاش کرنا چاہیے جو کم سے کم اصولوں پر سمجھوتا کرنے والے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ پھر سیاست میں آئیڈیلز کو کیسے زندہ رکھا جا سکتا ہے؟
اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاست میں کچھ ایسے لوگ موجود رہیں جو اقتدار کی بجائے‘ آئیڈیلز کی سیاست کریں۔ جو یہ آواز لگاتے رہیں کہ مثالی سیاست کیا ہے۔ جو پکارتے رہیں کہ عوام کی حاکمیت کا کیا مطلب ہے؟ جو صدا لگاتے رہیں کہ قانون کی حکمرانی کیسے ہوتی ہے؟ جو یاد دہانی کراتے رہیں کہ سیاست کو کیسے پاکیزہ بنایا جا سکتا ہے۔ اسی کا نام 'انذار‘ ہے۔ یہ کام اصلاً اہلِ دانش کا ہے۔ دانشوروں میں مگر ایک طبقہ ایسا ہونا چاہیے جو تطہیرِ سیاست کو اپنا مقصد بنائے اور سود و زیاں سے بے نیاز ہو کرصحیح بات کرے۔
بعض تھنک ٹینکس یہ فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ جیسے کوئی شفاف انتخابات کی بات کرتا ہے۔ کوئی پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ ان کی افادیت سے انکار نہیں مگر سماج میں اس سے بڑی سطح پر یہ کام ہونا چاہیے۔ وہ کام جو عام آدمی کی سیاسی تربیت کرے اور اسے باشعور بنائے۔ اگر وہ عوام کی حاکمیت اور قانون کی حکمرانی کے تصورات سے شعوری طور پر آگاہ ہو جائیں تو پھر ان کا استحصال مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی سے سیاسی جماعتوں پر خارج سے دباؤ بڑھتا ہے اور انہیں اپنی تطہیرکرنا پڑتی ہے۔ یہ سیاسی اصلاح پسند ہوتے ہیں جو سیاسی کلچر کو بدلنے کا کام کرتے ہیں۔ سیاسی جماعت یہ کام نہیں کر سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اقتدار کی کشمکش میں ایک فریق ہوتی ہے۔ اس کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اقتدار تک پہنچے اور یہ کام مفاہمت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
ہماری سیاست میں ایسے کردار موجود نہیں۔ جو اصلاح چاہتا ہے‘ اُسے اقتدار کی سیاست سے اعلانِ لاتعلقی کرنا پڑے گا۔ یہ کام سیاسی جماعتوں میں رہ کر بھی ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی آدمی کسی پارٹی منصب کا امیدوار نہ ہو۔ قیادت سے اسمبلی کے ٹکٹ کا طالب نہ ہو تو پارٹی میں رہ کر یہ حیثیت اختیار کر سکتا کہ اس کی بات سُنی جائے اور اس کو وزن دیا جائے۔ پرویز رشید صاحب اس کی ایک مثال ہیں۔ میرا تاثر ہے کہ جو آدمی گزشتہ دس برسوں میں نواز شریف صاحب کے خیالات پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوا‘ وہ پرویز رشید ہے۔ انہیں یہ حیثیت اس لیے حاصل ہوئی کہ وہ پارٹی میں رہے مگر منصب اور مفاد سے بے نیاز ہو گئے۔
اگر بڑی سیاسی جماعتوں میں دس بارہ افراد اس طرح بے غرضی کے ساتھ قیادت پر اثر انداز ہونے کی اہلیت پیدا کر لیں تو داخلی سطح پر فکری اور عملی تطہیر ہو سکتی ہے۔ یہ بات مگر نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ اقتدار کی سیاست کے مطالبات مختلف ہیں۔ یہاں مثالیت پسندی کا کوئی گزر نہیں۔ اس میں مفاہمت بھی ہو گی اور درگزر بھی۔ یہاں موازنہ آئیڈیل ازم اور حقیقت پسندی میں نہیں۔ یہاں سب عملیت پسند ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کون ہے جو نستباً آئیڈیلز کا زیادہ خیال رکھتا ہے۔
آج ہماری سیاست میں یہ خلا ہے کہ آئیڈیلز کی سیاست کر نے والا کوئی نہیں۔ اہلِ سیاست کی صفوں میں کوئی ابو الا علیٰ مودودی یا نواب زادہ نصر اللہ خان موجود نہیں۔ کوئی شیر باز خان مزاری نہیں۔ کوئی پروفیسر عبدالغفور نہیں۔ ان کے وجود نے سیاست میں آئیڈیلز کو زندہ رکھا۔ ان سب نے اگرچہ اقتدار کی سیاست کی مگر اقدار کو نظر انداز نہیں کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار کی دیوی ان پر مہربان نہیں ہوئی۔ اس میں لیکن شبہ نہیں کہ انہوں نے سیاست کو پاکیزہ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ سیاست میں ان کا منصب خالی ہے اور یہی اصل خلا ہے۔ یہی خلا زبانِ حال سے پکار رہا ہے:
اک آبلہ پا وادیٔ پُر خار میں آوے