دعویٰ ملکیت اور حصولِ ملکیت میں فرق ہے۔
دعویٰ دلیل اور شہادت کا متقاضی ہے۔ دلیل اخلاقی ہو سکتی ہے‘ دینی ہو سکتی ہے اور قانونی بھی۔ دلیل ان تین دائروں میں مقید بھی نہیں۔ انسانی عقل‘ اخلاق اور قانون جس دلیل کو مانتے ہیں‘ ہم دعوے کے حق میں پیش کر سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ میں جس شے کی ملکیت کا دعویٰ رکھتا ہوں‘ وہ میری ملکیت کیسے بن سکتی ہے؟ اس کے لیے میں جو حکمتِ عملی اختیار کروں گا‘ وہ دو باتوں کو لازم کرتی ہے۔ ایک یہ کہ میں اگر کسی تصورِ اخلاق کا پابند ہوں تو وہ اس کے مطابق ہو۔ دوسرا یہ کہ وہ ملکیت کو میرے لیے ممکن الحصول بناتی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اس کے نتیجے میں مَیں موجود اثاثہ بھی ضائع کر بیٹھوں۔ یہی دوسرا پہلو میرا آج کا موضوع ہے۔
سرزمینِ فلسطین پر اہلِ فلسطین کا حق ثابت ہے۔ سب دلائل اس کے حق میں ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اُس کے بڑے حصے پرقبضہ ہو چکا۔ اہلِ فلسطین اس کو چھڑوانا چاہتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہو گا؟ اس سوال کا تعلق حقِ ملکیت سے نہیں‘ اس حکمتِ عملی سے ہے جو اہلِ فلسطین کو یہ قبضہ دلوا سکے۔ یہ حکمتِ عملی خلا میں نہیں بن سکتی۔ اسے برسرِ زمین واقعہ بننا ہے‘ اس لیے لازم ہے کہ یہ زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہو۔ یہ زمینی حقائق کیا ہیں؟
1: فلسطینی اس وقت ایک منتشر قوم ہے۔ اس میں نظریاتی سطح پرکوئی ہم آہنگی ہے نہ حکمتِ عملی کی سطح پر۔ یہ انتشارِ فکر و عمل پہلے دن سے ظاہر و باہر ہے۔ پی ایل او اہلِ فلسطین کی ایک قومی تحریک تھی جو مسلح جد وجہد پر یقین رکھتی تھی۔ سرد جنگ کے دنوں میں نظریاتی طور پر سوویت یونین سے قریب تر تھی اور ساری دنیا کا بایاں بازو اس کی حمایت میں تھا۔ مشرقِ وسطیٰ میں شام‘ عراق اور مصر کے جمال عبدالناصر کا نظریاتی اور سیاسی جھکاؤ اسی طرف تھا۔
فلسطینیوں کا ایک دوسرا گروہ تھا جو اسلامی تشخص رکھتا تھا اور سوویت یونین سے دور تھا۔ سردجنگ کے دنوں میں ہر اشتراکیت مخالف کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ امریکہ سے قریب تر ہے۔ ممکن ہے عملاً ان کے مابین کوئی تعلق نہ ہو لیکن امریکہ ان کے وجود کو اپنے لیے خیر کا باعث سمجھتا تھا کیونکہ دشمن کا دشمن بھی دوست ہوتا ہے۔ ان دنوں میں فلسطین کے اسلام پسندوں کو سعودی عرب اور بعض دوسرے عرب ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ یہ حمایت مصر کے اسلام پسندوں کو بھی میسر تھی۔
جیسے جیسے سرد جنگ اپنے اختتام کی طرف بڑھی‘ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست بھی بدلنے لگی۔ پی ایل او کو اندازہ ہو گیا کہ اب مسلح جدوجہد نہیں ہو سکتی۔ یاسر عرفات نے حکمتِ عملی تبدیل کی اور زمینی حقائق کو قبول کر لیا۔ خود کو سیاسی جد وجہد تک محدود کرتے ہوئے پی ایل او نے اس سیاسی بندوبست کو مان لیا جو امریکہ اور دوسری عالمی قوتوں کی مرضی اور تائید سے قائم ہوا تھا۔ اس میں فلسطین کے بعض علاقوں پر اہلِ فلسطین کو محدود اختیار مل گیا۔ آج ایک طرف اہلِ فلسطین منتشر ہیں اور دوسری طرف حماس کے اس حملے نے اسرائیل میں وحدت پیدا کر دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک منتشر قوم ایک بڑا معرکہ کیسے جیت سکتی ہے؟
2: سعودی عرب کی پالیسی میں بھی ایک قابلِ ذکر تبدیلی آئی۔ اس نے زبانِ حال سے اسلام پسندوں کی حمایت سے انکار کر دیا ہے۔ اخوانیوں اور حماس کے لیے سعودی عرب کی سرزمین اجنبی ہو گئی۔ ان کو اگر کہیں پناہ میسر آئی تو وہ قطر کی سرزمین تھی۔ اس کا تعلق مشرقِ وسطیٰ پر سرداری کی سیاست سے ہے۔ قطر‘ سعودی عرب‘ ترکیہ اور ایران‘ سب اس خطے کے سردار بننا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ ان گروہوں کی حمایت کرتے رہتے ہیں جو مختلف عرب ممالک میں سیاسی اقتدار کے دعوے دار ہیں۔ فلسطین ان سب کا بطورِ خاص ہدف ہے۔ قطر نے حماس اور الاخوان المسلمین کو پناہ تو دی مگر عسکری جد وجہد میں ان کی کوئی معاونت نہیں کی۔
3: حماس جیسا گروہ‘ جو مسلح جد وجہد پر یقین رکھتا ہے‘ اس کے لیے کسی ریاستی قوت کی نصرت ناگزیر تھی۔ جب عرب اس سے دستبردار ہو گئے تو ایران نے اس خلا کو پُر کیا۔ اس سے پہلے ایران کو صرف شیعہ عربوں کی حمایت حاصل تھی‘ چاہے وہ سعودی عرب میں ہوں‘ یمن میں ہوں یا بحرین میں۔ عراق میں اہلِ تشیع کی حکومت قائم ہو چکی۔ یمن کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ اس پس منظر میں ایران نے حماس کا ہاتھ تھام لیا۔ یہ دونوں کی ضرورت تھی۔ اسی اتحاد کے مظاہر ہم آج کل دیکھ رہے ہیں۔ ایران کے لیے یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ اس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی جذباتی تائید حاصل کر لی ہے۔
4: ترکیہ نے تو مرہم پٹی کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ ایران نے حماس کو اس قابل بنایا کہ اس نے اسرائیل پر ایک بڑا حملہ کیا اور اسے ایک ایسا کاری زخم لگایا جس سے تادیر خون رِستا رہے گا۔ شام بھی ایک حد سے زیادہ آگے نہیں بڑھے گا۔ اسے صرف اپنی فکر ہے کہ اسرائیل اس کو نشانہ نہ بنائے۔ آج کوئی عرب یا مسلمان ملک کھل کر حماس کی حمایت نہیں کر رہا۔
5: حماس نے اسرائیل کے خلاف جو اقدام کیا ہے‘ اس کا ردِ عمل ہمارے سامنے ہے۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو ایک قبرستان میں بدل دیا ہے۔ وہاں زندگی کو بحال ہونے میں معلوم نہیں کتنے سال لگیں۔ اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں۔ امریکہ اور مغرب اس کی پشت پر ہیں۔ آنے وا لے دنوں میں اس کا کوئی امکان نہیں کہ حماس کو کوئی بڑی تائید میسر آئے۔ صرف ایران اس کی مدد کر رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں کیا اس کا تسلسل بر قرار رہ سکے گا‘ کچھ کہنا مشکل ہے۔ اگر رہے بھی تو اس سے کیا حاصل ہو گا؟
6: اسرائیل کا قیام ناجائز ہے لیکن عالمی برادری کی اکثریت نے اسے جائز مان لیا ہے۔ یوں اسے جدید عالمی نظام کا تحفظ حاصل ہے‘ سارے مسلمان ممالک جس کا حصہ ہیں۔ یہ عمل اب معکوس نہیں ہو سکتا۔ تاریخ یہ ہے کہ اس سے کم درجے کی حقیقت بھی وجود میں آ جائے تو اسے تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ اس کی ایک مثال افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے۔ دنیا نے اس کو نہیں مانا لیکن یہ بالفعل قائم ہو چکی۔ دنیا کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آج یا کل‘ وہ اس کو مان لے۔ طالبان کی پہلی حکومت بھی اسی طرح قائم ہوئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے خاتمے کا کوئی مقدمہ امرِ واقعہ کیسے بن سکتا ہے؟ یہ معلوم ہے کہ حماس بقائے باہمی کی قائل نہیں۔ وہ اسرائیل کے وجود کو مٹانا چاہتی ہے۔
یہ چند سوالات ہیں جو زمینی حقائق کی کوکھ سے جنم لے رہے ہیں۔ میرا تجزیہ ہے کہ موجودہ تحرک دراصل اس منصوبے کے خلاف ایک ردِ عمل ہے جو مشرقِ وسطیٰ کے مستقبل کے حوالے سے سعودی عرب نے امریکہ کی مدد سے بنایا ہے۔ اس منصوبے کے تحت آثار یہی ہیں کہ اسرائیل کی قانونی حیثیت کو قبول کیا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں ایران نے عالمی قوتوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے کہ جس طرح عراق میں ہماری حمایت کے بغیر کوئی سیاسی نظم قائم نہیں ہو سکتا تھا‘ اسی طرح ہمیں نظرِ انداز کرتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ کا نیا نقشہ نہیں بن سکتا۔ فلسطینیوں کا لہو اس سارے قضیے میں زیبِ داستان کے لیے ہے۔
جنگ انسانی تاریخ میں کبھی مسائل کا حل نہیں رہی۔ تاریخ کا المیہ مگر یہ ہے کہ یہ بات جنگ کے بعد ہی سمجھ میں آتی ہے۔ المیہ در المیہ یہ ہے کہ یہ جنگ جن کے نام پر لڑی جاتی ہے‘ ان کے حصے میں موت آتی ہے یا در بدری۔