زندگی آئے دن اپنے ادھورے پن کا احساس دلاتی ہے۔ دن بھی ایک بڑا وقفہ ہے۔ہر لمحہ کہیے تو بھی غلط نہیں۔
انفس پہ غور کیجیے تو ایک خلا ہے جو کبھی بھرتا نہیں۔وجود کے باطن میں جھانکیے تو تا حدِ نظر کچھ دکھائی نہیں دیتا۔کسی کو پانے کی خواہش ہے جو عمر کے ساتھ پیرہن بدلتی ہے۔کبھی سیاہ کبھی سفید‘کبھی لال کبھی زرد۔کبھی رنگِ دنیا کبھی صبغۃ اللہ۔ انسان مسلسل لفظوں کی پناہ تلاش کرتا ہے۔ عشقِ مجازی‘عشقِ حقیقی۔لغت کی پناہ گاہیں اس کے کسی کام نہیں آتیں اور ایک دن وہ خود کو 'چپ‘ کے کھلے آسمان تلے کھڑا دیکھتاہے۔ایک ایسی دنیا جہاں جذبات تو ہوتے ہیں مگر ان کے اظہار کیلئے الفاظ نہیں ہوتے۔ خاموشی کو حکما نے دانش کی معراج کہا ہے تو شاید اسی لیے۔
انسانی زاویے سے آفاق میں بھی ایک ادھورا پن ہے۔آنکھیں کبھی کوئی منظر‘اس کی تمام جہتوں کیساتھ اپنی آغوش میں سمیٹ نہیں سکیں۔ تمام جہتیں تو ایک طرف‘جو پہلو نظروں کے سامنے ہوتا ہے‘وہ بھی مکمل نہیں ہوتا۔ گلاب کے رنگ میں مسلسل زوال ہے۔اس کی مہک بھی ہر گزری ساعت کیساتھ سمٹ رہی ہے۔موسم کودیکھیے تو تغیر اس کا جوہر ہے۔ نہ سردی میں دوام ہے نہ گرمی میں۔ دوام ایک طرف‘سردی گرمی کی حدت سے محروم ہے اور گرمی سردی کے جوہر سے خالی۔ وہی ادھورا پن آفاق میں بھی ہے جو انفس میں ہے۔
انسان مگر مکمل منظر کا متلاشی ہے۔گرم موسم میں خنک ہوائیں اسے بھلی معلوم ہو تی ہیں مگر وہ گرمی سے دست بردار نہیں ہوناچاہتا۔وہ رات کے سناٹے میں سکون ڈھونڈتا ہے مگر دن کے اجالے کی قیمت پر نہیں۔ پورب کو دیکھتے ہوئے‘وہ چاہتا ہے کہ پچھم بھی نگاہ میں رہے۔طلوعِ آفتاب کا منظر اسے بھاتا ہے مگر غروبِ آفتاب کی ساعتوں میں آتشیں اُفق بھی اسے گھائل کیے رکھتا ہے۔
انسان مکمل منظر دیکھتاچاہتا ہے مگر اس کا ہرتجربہ ادھوراہے۔چاہت اور تجربے کے درمیان ایک خلا ہے۔وہ اس خلا کو بھرنا چاہتا ہے۔فکر و نظر کا سفر اسی لیے ہے۔ نظریات اسی لیے وجود میں آتے ہیں۔انسان صدیوں سے اس دنیا کی تلاش میں ہے جو مکمل ہو۔ایک استثنا کے ساتھ‘ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔وہ کوئی ایسا معاشرہ تشکیل نہیں دے سکا جس میں خلا نہ ہو۔ وہ کوئی ایسا تصورِ حیات پیش نہیں کر سکاجو اسے بیک نظر‘ پورب و پچھم کا مشاہدہ کرا سکے۔اس کوشش میں وہ توہمات تک جا پہنچا۔اس وادی میں قدم رکھنے کا مطلب خود کو کھو دینا ہے۔جو کھو گیا یا مٹ گیا‘اس کی چاہت بے معنی اور اس کا تجربہ بھی ناقابلِ التفات۔ کہتے ہیں پہنچا ہوا ہے۔احساسِ ذات سے بے نیازی کو لوگوں نے پانا سمجھ لیا۔اگر یہ پانا ہے تو پھر کھونا کسے کہتے ہیں؟
ان تجربات اور افکار کی ناکامی کا سبب کیاہے؟یہ خلا کیوں بھرا نہیں جا سکا؟یہ ادھورا پن کیوں دور نہیں ہوا؟اس کا جواب بڑا سادہ ہے۔ انسان نے اس دنیا میں مکمل منظر دیکھناچاہا جو خود ادھوری ہے۔شکستہ آئینہ مکمل منظر نہیں دکھا سکتا۔دنیا کے وجود میں ایک خلا ہے۔ادھورا پن ہے۔وہ اپنی سرشت میں یک رُخی ہے۔آشفتہ سری کے پاس عقل کے عوارض کا علاج نہیں ہوتا۔یہ تخیل کا افلاس ہے یا فکرکی کجی ہے کہ انسان جذب و مستی کو حکمت ودانش کا متبادل سمجھ لیتا ہے۔یہ افلاس بڑھ جائے تو اسے آگہی کی اگلی منزل قرار دے دیتا ہے۔
انسان کے فکری سفر میں وہ استثنا کون سا ہے جو اس خلا کو باقی نہیں رہنے دیتا؟و ہ آئینہ کس کے پاس ہے جو پورامنظر دکھا سکتا ہے؟وہ طبیب کون ہے جس کے پاس ادھورے پن کا علاج ہے؟یہ طبیب خدا کا پیغمبرہے۔پیغمبر وہ آ ئینہ ہے جس میں زندگی کی مکمل تصویر دکھائی دیتی ہے۔اس کے بیان کردہ نسخے کے دواجزائے ترکیبی ہیں:ایک تصورِ الہ جو وحدتِ فکر پیدا کرتا ہے۔ دوسرا تصورِ آخرت جودنیا کے خلا کو بھر دیتا ہے۔
خدا کی مرکزیت(God Centric) پر قائم تصورِ حیات‘فکری وحدت پیدا کرتا ہے۔وہ انسان کو بتاتا ہے کہ ایک خالق کو مان لینے کے بعد‘تصور کی سطح پر خلا باقی نہیں رہتا۔کائنات کے منتشر اجزا باہم مربوط ہو جاتے ہیں اوران میں ایک معنویت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی معنویت انسان کی فکری آسودگی کا سامان ہے۔اس سے چاہت اور تجربے کا فاصلہ مٹ جا تا ہے۔ہر ادھورے پن کا وہ جواز مل جا تا ہے جس کامطالبہ عقل کرتی ہے ۔
آخرت کا تصور دنیا کی زندگی کے خلا کو بھر دیتا ہے۔ آخرت کے علاوہ انسان کے پاس کوئی ایسا تصور موجود نہیں جو اس دنیاوی زندگی کے ادھورے پن کو دور کر تا ہو۔یہ مان لینا کہ موت انسان کے خاتمے کا اعلان ہے‘اسکی ناآسودگی کا سب سے بڑا سبب ہے ‘جس پر آخرت سے انکار کا متبادل تصورِ حیات قائم ہے۔حیرت ہوتی ہے جب لوگ تصورِ آخرت پر سوال اٹھاتے ہیں۔وہ اسے تو عقلی مانتے ہیں کہ انسان ادھورے پن کیساتھ مر جائے مگرانہیں ایسی دنیا کا تصور غیر عقلی دکھائی دیتا ہے جواس ادھورے پن کو دور کرنے کی قوت رکھتا ہے۔
محبت ایک درجے میں انسان کے ادھورے پن کا علاج ہے۔یہ انسان کے جذباتی اور نفسیاتی وجود کے لیے تکمیل کے اسباب فراہم کر سکتی ہے مگر اس کے پاس زندگی کے عمومی خلا کا کوئی جواب نہیں ہے۔وہ اسے بھر نہیں سکتی۔اس کے اردگرد پھیلا ظلم اور انصاف کی عدم فراہمی کا علاج محبت کے ہاتھ میں نہیں ہے۔آفاق کے ادھورے پن کو محبت بھر سکتی ہے اگر محبوب کے خیال میں ہمہ جہتی اور وسعت ہو۔ یہ پھیلاؤ اور ہمہ گیری‘ تصورِخدا کے سوا کہیں نہیں پائی جا تی ہے۔یہی سبب ہے کہ انبیا کے تجویز کردہ نسخے میں خدا سے محبت‘انسان کا مطلوب ہے۔وہ محبت جواس کی بے پناہ وبے کنار ہستی سے پھوٹتی اورانسان کے وجود کا احاطہ کر لیتی۔جو ایک فطری نتیجے کے طور پر عبادت کے جذبے میں ظہور کرتی اور رکوع وسجود کی صورت اختیار کرتے ہوئے اطاعت میں ڈھل جاتی ہے۔
یہ انبیا ہی کی تعلیمات ہیں جو محبت کے دو رنگوں کو ہم رنگ بنادیتی ہیں۔ بندوں سے محبت اور خدا سے محبت۔خدا مرکزیت تصورِ حیات کے ساتھ‘جب محبت ظہو رکرتی ہے تو ایک ایسا سماج وجود میں آتا ہے جو اس دنیا کی زندگی کو آسودہ بناتا اورایک حد تک اس کے ادھورے پن کو دور کر دیتا ہے۔اس کے بعد جو خلا باقی رہتا ہے‘ تصورِ آخرت اسے دور کردیتا ہے جو خدا کی محبت کا اظہار اور اس کا ناگزیر تقاضا ہے۔یہ انسانوں کے ساتھ خداکی محبت ہے کہ اس نے خود پر رحمت کو لازم کر دیا ہے۔یہ اس کی رحمت ہے جو اس زندگی کے ادھورے پن کو ہمیشہ کے لیے دور کر دیتی ہے۔
اس دنیا کا ادھورا پن انسان کو مضطرب رکھتا ہے۔وہ ظلم دیکھتا ہے مگر ظالم کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا۔اس کے اندر سے آواز اٹھتی ہے کہ کوئی منصف ہے تو وہ حشر اٹھا کیوں نہیں دیتا؟انبیا اس کو ایک حشر کی خبر دیتے ہیں۔ایسا دن‘ جب انصاف کا ترازو اس کے ہاتھ میں ہو گا جو ہر شے کی خبر رکھتا اور اپنافیصلہ نافذ کرنے کی مکمل قدرت رکھتا ہے۔ انسان کے ادھورے پن کا علاج‘اس کے علاوہ دریافت نہیں کیا جا سکا کہ وہ اپنا ہاتھ انبیا کے ہاتھ میں دے دے۔
دستِ ہر نااہل بیمارت کند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند