اقتدار کی سیاست (Power Politics) میں نیلسن منڈیلا پیدا نہیں ہوتے۔ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں؟
سیاست کی دو صورتیں ہیں۔ ایک اقتدار کی سیاست ہے۔ اس کی منزل حصولِ اقتدار ہے۔ اقتدار کی سیاست کرنے والے کو 'سیاستدان ‘ کہتے ہیں۔ مصلحانہ سیاست سے مراد سیاست میں اصلاح لانا ہے۔ اس کی منزل سیاسی افکار اور ماحول کی اصلاح ہے۔ یہ سیاستدان کا کام نہیں۔ اس کے لیے ایک سماجی مصلح (Social Reformist) کی ضرورت ہوتی ہے۔
اقتدار کی سیاست ہمیشہ زمینی حقائق کی پابند ہوتی ہے۔ آئیڈیلز کے ساتھ اس کا تعلق زبانی کلامی ہی ہوتا ہے۔ سیاستدان زمینی حقائق کو اس طرح اپنے حق میں استعمال کرتا ہے کہ بالآخر اقتدار کی دیوی اس پر مہربان ہو جائے۔ انسانی تاریخ میں کوئی ایک دور ایسا نہیں گزرا جب زمینی حقائق سے بے نیاز کوئی مصلح اقتدار تک پہنچا ہو۔ اس میں صرف ان کا استثنا ہے جن کے اقتدار کا فیصلہ زمین پر نہیں‘ آسمان پر ہوا ہے۔ سیاست کو 'امکانات کا کھیل‘ کہا گیا ہے۔ اس کا مفہوم یہی ہے کہ کون ہے جو موجود امکانات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاریخ یہ ہے کہ انسانی رشتے یا اخلاقی اقدار‘ جو بھی اقتدار کے راستے میں حائل ہوتا ہے‘ اس کو قربان کردیا جاتا ہے۔ جو نہیں کرتا‘ اقتدار کی دیوی اس پر کبھی مہربان نہیں ہوتی۔
جن مفکرین اور ماہرینِ سیاسیات نے اقتدار کی سیاست کو موضو ع بنایا ہے‘ انہوں نے واضح کیا ہے کہ اقتدار کا حصول اور تسلسل دونوں اخلاقیات کے نہیں‘ زمینی حقائق کے پابند ہوتے ہیں۔ اچاریہ چانکیہ کی ارتھ شاستر‘ میکاولی کی پرنس اور فنِ حرب‘ ابنِ خلدون کا مقدمہ‘ جس نے بھی اقتدار کی سیاست پر لکھا ہے‘ اس نے بتایا ہے کہ اقتدار زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہو کر ہی قائم ہوتا اور قائم رہتا ہے۔
میکاولی مثال کے طور پر 'بادشاہت‘ کی وکالت کرتا ہے۔ وہ 'ریپبلک‘ ہی کو آئیڈیل سمجھتا ہے مگر اس کیلئے عوام کے نیک ہونے کو لازم قرار دیتا ہے۔ اس کی نظر میں عوام چونکہ نیک نہیں ہوتے‘ اس لیے وہ 'بادشاہت‘ ہی کو ایک قابلِ عمل سیاسی نظام کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اپنے مؤقف کے حق میں جب وہ تاریخ سے استدلال کرتا ہے تو عثمانیوں کی مثال بھی دیتا ہے۔ میکاولی اخلاقیات کے خلاف نہیں۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ جب اقتدار کا مطالبہ یہ ہو کہ اخلاقیات کو نظر انداز کیا جائے تو پھر اقتدار کے مطالبے کو مان کر ہی اسے قائم رکھا جا سکتا ہے۔ حکمران کیلئے اصل مقصد ریاست کے مفادات کا تحفظ ہے۔ اس مقصد کیلئے اخلاقی اقدار کی قربانی دی جا سکتی ہے۔ میکاولی کو برا کہنے کے باوجود لوگ آج بھی اسی کے افکار پر عمل پیرا ہیں۔ کیا ہم سب ریاست کے مفاد کو فی نفسہ ایک قدر نہیں سمجھتے؟
کیا ماضی یا آج کے دور میں کسی ایک ایسی حکومت کی مثال پیش کی جا سکتی ہے جو ریاست کے طے شدہ مفاد کے مقابلے میں اخلاقیات کو ترجیح دیتی ہو؟ ہم اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں‘ واقعہ یہ ہے کہ اقتدار کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہیں اور زبانِ حال سے انہیں درست تسلیم کیا جاتا ہے۔ انسانوں کے قتلِ عام کو بھی اگر ریاست کے مفاد کے لیے گوارا کیا جا سکتا ہے تو پھر کسی شے کی حرمت باقی نہیں رہتی۔ جو بات قوموں اور ریاستوں کے مفاد کے لیے جائز ہے‘ وہی افراد اور گروہوں کے لیے بھی جائز سمجھی جاتی ہے۔ بعض اوقات بزعمِ خویش کسی نیک مقصد کے لیے اخلاقی اقدار کو قربان کیا جاتا ہے۔ جیسے ملک کو چونکہ کرپشن سے بچانا ہے‘ اس لیے جسے ہم کرپٹ سمجھتے ہیں اسے سزا دینا ضروری ہے‘ قطع نظر اس کے کہ قانون کی نظر میں وہ مجرم ہے یا نہیں۔
یہ طوالتِ کلام اس لیے نہیں ہے کہ میں سیاست اور اخلاقیات کے تعلق کو غیرضروری سمجھتا ہوں۔ میں نے یہ داستان صرف یہ بتانے کے لیے سنائی ہے کہ اقتدار کی سیاست ہمیشہ زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔ اس لیے اقتدار کی کشمکش کے کسی فریق کو یہ مشورہ دینا کہ وہ یک طرفہ طور پر اخلاقیات کا نمائندہ بن کر کھڑا ہو‘ ایک غیرحقیقی مطالبہ ہے‘ قطع نظر اس کے کہ مشورہ دینے والے کے دل میں ملک کے لیے کتنا دردِ دل پایا جاتا ہے۔
اس باب میں ہم جن واقعات کو اپنی تائید میں پیش کرتے ہیں‘ غور کریں تو یہ محض نظرکا دھوکا ہوتا ہے۔ اسد قیصر صاحب یا علی محمد صاحب اگر مولانا فضل الرحمن سے ملے ہیں تو اس کا مصالحتی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کل ہی یہ فرمایا ہے کہ یہودیوں نے جو ایجنٹ بھیجا تھا‘ ہم نے ملک میں جس طرح اس کو شکست دی ہے‘ اسی طرح اسرائیل کو بھی شکست دیں گے۔ پھر نواز شریف صاحب کی تقریر پر تحریکِ انصاف کا ردِ عمل دیکھ لیجیے۔ کیا مصالحت کا ارادہ رکھنے والے اس لب و لہجے میں کلام کرتے ہیں؟
سیاستدانوں کو جو چیز مصالحت پر مجبور کرتی ہے‘ وہ سیاسی عمل اور سیاسی فضا ہے۔ میثاقِ جمہوریت کیا تھا؟ بے نظیر بھٹو صاحبہ اور نواز شریف صاحب کو یقین ہو گیا تھا کہ اقتدار کی کشمکش میں شریک تیسری غیر سیاسی قوت اہلِ سیاست کے لیے اقتدار کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کرنا چاہتی ہے۔ اس کا مطلب جمہوری عمل کا خاتمہ ہے۔ اس سے سیاسی جماعتیں ایک ایسے میثاق تک پہنچیں جو جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے بنیاد بن گیا۔ نیلسن منڈیلا کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔
گویا یہ سماجی حالات ہیں جو اہلِ سیاست کو کسی بات پر مجبور کرتے ہیں۔ اگر سماج بعض اقدار کے بارے میں حساس ہو جائے تو سیاسی جماعتیں ان کے احترام پر مجبور ہوں گی۔ یہ کام سماجی مصلح کرتے ہیں۔ یورپ میں یہی ہوا۔ ایک سے زیادہ سماجی تحریکوں نے بادشاہت‘ مذہب اور جمہوریت کے بارے میں ایک فضا پیدا کی۔ جب سماج نے نئی اقدار کو بحیثیت مجموعی قبول کر لیا تو سیاست خود بخود اس سانچے میں ڈھل گئی۔ نواز شریف ہوں یا عمران خان‘ اگر عوام نے محاذ آرائی سے بیزاری کا اظہار کر دیا تو یہ مجبوراً مذاکرات پر آمادہ ہوں گے۔ سرِ دست اس کا کوئی امکان نہیں۔ سماجی مصلحین وہی ہو سکتے ہیں جو اقتدار کی سیاست میں فریق نہ ہوں۔ سیاستدان مصلح نہیں ہو سکتا۔ برسوں پہلے میں نے برادرم حفیظ اللہ نیازی کی موجودگی میں یہ بات عمران خان صاحب سے کہی تھی کہ پاکستان کو کسی نئے سیاستدان کی نہیں‘ ایک مصلح کی ضرورت ہے۔ انہوں نے سیاستدان بننے کو ترجیح دی۔ اس کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی آج تحریک انصاف کے صدر ہیں۔
ایک اور اہم بات؛ سیاست میں نیلسن منڈلا کی تلاش کا مقدمہ اس مفروضے پر کھڑا ہے کہ سیاست کی باگ نواز شریف صاحب کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کی باگ بدستور غیر سیاسی قوت کے پاس ہے۔ عمران خان صاحب کے سیاسی کردار کا فیصلہ انہوں نے خود کرنا ہے یا اس غیر سیاسی قوت نے۔ ان کے سامنے سیاست کا جو ماڈل ہے‘ اس میں مفاہمت کا کوئی کردار ہوا تو ہو جائے گی۔ بصورتِ دیگر یہ ایک ایسا خواب ہے جو تعبیر آشنا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ اقتدار کی سیاست ہے۔ اس کے کرداروں سے ہم اچھائی کی جو توقع باندھیں‘ یہ جانتے ہوئے باندھیں کہ دراصل یہ اقتدار کی سیاست کے کھلاڑی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ کھلاڑی اعلیٰ اخلاقیات کے پابند ہو جائیں تو اس کے لیے ہمیں سماج کے اخلاقی معیار کو بہتر بنانا ہو گا۔ یہ کام سیاست دان نہیں‘ کوئی سماجی مصلح ہی کر سکتا ہے۔