کتنی عجیب بات ہے کہ ''خلافت و ملوکیت ‘‘ کا مصنف جب چودہ سو سال پہلے کی تاریخ کا تجزیہ کرتا ہے تو کسی کو حالات کی رعایت نہیں دیتا اور بڑی بڑی شخصیات کو مجرموں کے کٹہرے میں لاکھڑا کرتا ہے۔ مگر جب اپنے عہد کی سیاست پر حکم لگاتا ہے تو ''نظریۂ ضرورت‘‘ کو آئین شکنی کے لیے بطور جواز قبول کر لیتا ہے۔
مکرم و محترم مجیب الرحمن شامی صاحب نے اپنے ماہنامے ''قومی دائجسٹ‘‘ کے تازہ شمارے میں بعض انٹر ویو دوبارہ شائع کیے ہیں جو جون 1978ء اور مئی 1981ء کے دوران میں لیے گئے تھے۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک اہم دور ہے۔ مارشل لاء کے نفاذ کو ایک برس ہوگیا تھا۔ جن شخصیات سے انٹر ویو کیے گئے‘ ہماری سیاسی تاریخ کے ممتاز ترین لوگ ہیں۔ یہ امتیاز علم و فکرکا بھی ہے اور تدوین و کردار کا بھی۔
کون ہے جو علم اور بصیرت میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے بڑھ کر ہو گا؟ اس پر مستزاد اُن کا حسنِ کردار۔ مولانا مفتی محمود وہ تھے کہ 1977ء میں ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتیں اپنے نظریاتی اختلاف کے باوصف ان کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف متحد ہو گئی تھیں۔ وہ دین کے عالم تھے اور ملک کی تاریخ کے منفرد وزیراعلیٰ بھی رہے۔ چوہدری محمد علی سابق وزیراعظم تو تھے ہی مگرجنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے ان کی خدمات کی داستان متحدہ ہندوستان کے دنوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ جمہوریت کے لیے ان سب کی جد وجہد بھی ہماری تاریخ کا اہم باب ہے۔ حیرت مگر یہ ہے کہ ان انٹرویوز میں تینوں شخصیات نے جنرل ضیاالحق کے مارشل لا ء کا بھرپور دفاع کیا اور ان کی تشریف آوری کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔
ان سب کا خیال ہے کہ 1977ء میں مارشل لاء کا نفاذ جائز تھا۔ اس کی تمام تر ذمہ داری بھٹو صاحب پر تھی جنہوں نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ جنرل ضیا الحق کا آنا ناگزیر ہو گیا۔ جنرل ضیا الحق مر حوم کے بارے میں مولانا مودودی کا حسنِ ظن آخری حدوں کو چھُو رہا ہے۔ شامی صاحب نے سوال کیا: ''آپ کی ایک عمر جمہوریت کی جنگ لڑتے گزری ہے اور آپ نے جمہوری راستے ہی کو اسلامی انقلاب کا راستہ قرار دیا ہے۔ اس پس منظر میں پانچ جولائی 1977ء کے فوجی انقلاب کے بارے میں آپ کا رویہ تائیدی کیوں ہے؟‘‘ مولانا کا جواب تھا: ''آپ کی بات درست ہے۔ جمہوری راستے ہی کو میں اسلامی انقلاب کا راستہ قرار دیتا رہا ہوں اور اب بھی اسی پر یقین رکھتا ہوں‘ لیکن پانچ جولائی 1977ء کا فوجی انقلاب جمہوریت کا راستہ بند کرنے نہیں‘ اسے کھولنے آیا ہے۔ کسے معلوم نہیں کہ پانچ جولائی سے پہلے کیا حالات پیدا کر دیے گئے تھے؟ مسٹر بھٹو شخصی اقتدار کے لیے کتنا آگے نکل گئے تھے...‘‘ اس کے بعد مولانا نے بھٹو عہد کے بارے میں اپنی رائے بیان کی ہے جو ظاہر ہے کہ اچھی نہیں ہے۔
مولانا مودودی نے یہ بھی کہا: ''ہمارے ملک میں جو فوجی انقلاب پانچ جولائی 1977ء کو آیا‘ وہ پاکستان میں برپا ہونے والے پہلے انقلابوں اور دوسرے مسلمان اور ترقی پزیر ملکوں میں آنے والے فوجی انقلابوں سے بالکل مختلف ہے۔ پاکستان کے پہلے دو فوجی انقلاب‘ افواج کے سالاروں کی ہوسِ اقتدار سے پیدا ہوئے تھے جبکہ اس انقلاب کے سربراہ کو حالات نے مجبور کیا کہ وہ آگے بڑھیں‘‘۔
مولانا نے اپنا تجزیہ ان الفاظ میں بیان کیا: ''اس وقت بھی پاکستان کو بڑا خطرہ درپیش ہے‘ بہت بڑا خطرہ۔ اور وہ خطرہ یہ ہے کہ کہیں موجودہ فوجی حکومت ناکام نہ ہو جائے۔ اگر یہ ناکام ہو گئی اور خدا نہ کرے کہ ایسا ہو تو کسی آئینی اور پُر امن طریقے سے کوئی طاقت اس کی جگہ لینے کے لیے موجود نہ ہوگی‘‘۔ مولانا نے اس انٹرویو میں انتخابات سے پہلے احتساب کو ضروری قرار دیا ہے۔
اب آئیے مولانا مفتی محمود مرحوم کے خیالات کی طرف۔ ان سے سوال ہوا: ''پاکستان قومی اتحاد نے مارشل لاء کے تحت حکومت بنانے کا فیصلہ کیوں کیا‘‘؟ جواب میں مفتی صاحب نے کہا: ''میں نے یہ بات ہمیشہ کہی ہے کہ جمہوریت کا دعویٰ رکھنے والی کوئی جماعت مارشل لاء کے تحت کسی حکومت میں شامل نہیں ہو سکتی اور آج بھی یہی کہتا ہوں۔ یہ طے شدہ مسئلہ ہے اور ایک ایسا اصول ہے جس کی صحت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ بعض اوقات ایسی ایمرجنسی ہو جاتی ہے کہ معاملات کو خالصتاً کتابی نظریات کے حوالے سے نہیں‘ عملی حقائق کی روشنی میں دیکھنا پڑتا ہے‘‘۔
محترم مفتی صاحب نے اپنی بات کو ایک مثال سے واضح کرنے کے بعد یہ بتایا کہ حالات کتنے خراب ہو چکے تھے اور پھر کہا: ''ایسے عالم میں اہلِ سیاست پر لازم ہو گیا کہ وہ آگے بڑھ کر مارشل لاء کا ہاتھ بٹائیں۔ اور انتظامی ذمہ داریوں میں ایسے شریک ہوں کہ عوام کے مسائل کم ہوں‘ اسلامی اقدار کو فروغ ملے اور منتخب حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہو جائے‘‘۔ شامی صاحب نے سوال کیا: ''کیا تاریخ میں کوئی ایسی مثال مل سکے گی کہ جب جمہوری قوتوں نے کسی غیرنمائندہ حکومت کے قیام پر اتفاق کیا ہو اور اُس میں شرکت کی ہو؟‘‘ مفتی صاحب نے جواب دیا: ''بالکل۔ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اس برصغیر پاک و ہند میں ایسا ہو چکا ہے۔ آزادی سے پہلے جب انگریز نے دیکھ لیا کہ وہ اب حکمران نہیں رہ سکتا تو انتقالِ اقتدار کی تفصیلات طے کرنے اور انہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے ''غیرنمائندہ حکومت‘‘ کی تشکیل ہوئی۔ اس میں کانگرس شامل تھی اور مسلم لیگ بھی... اس حکومت کا سربراہ انگریز وائسرائے تھا۔ آزادی کی جنگ لڑنے والے اگر عملی حکمت کی وجہ سے انگریز وائسرائے کی زیرِ نگرانی کابینہ میں شامل ہو سکتے ہیں تو آج جمہوریت کے سپاہی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی تشکیل کردہ وزارت میں کیوں شامل نہیں ہو سکتے جبکہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کسی سامراج کے نمائندے نہیں‘ ہماری قومی فوج کے سربراہ ہیں‘‘۔
چوہدری محمد علی مرحوم نے تو مارشل لاء کے نفاذکو 'مولا کاکرم‘ قرار دیا۔ ان شخصیات میں صرف نواب مشتاق احمد گورمانی تھے جو مارشل لاء کو سندِ جواز دینے پر آمادہ نہیں تھے۔ ان کے علاوہ ان تمام بڑی شخصیات نے مارشل لاء کے لیے استثنا پیدا کیا۔ مولانا مودودی نے اپنے اصولی مؤقف کو دہرایا کہ جمہوری راستہ ہی اسلامی انقلاب کا راستہ ہے۔ اس کے بعد 'لیکن‘ کے ساتھ ضیاالحق صاحب کو مستثنیٰ قرار دے دیا۔ مفتی صاحب نے بھی مارشل لا کے ساتھ تعاون کو ممنوع کہا۔ اس کے بعد 'البتہ‘ سے جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء سے تعاون کو جواز فراہم کر دیا۔
میں تکرار کے ساتھ یہ لکھتا رہا ہوں کہ اقتدار کی سیاست زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔ مارشل لا ء سے مولانا مودودی یا مفتی محمود صاحب کی کوئی ذاتی غرض وابستہ نہ تھی۔ یہ شخصیات اس سے بلند تھیں۔ بعد میں انہوں نے ضیاالحق صاحب سے اختلاف بھی کیا۔ کہنا صرف یہ ہے کہ سیاست ماضی کی ہو یا حال کی‘ اس کا تجزیہ یہ جان کرکرنا چاہیے کہ کون سا اقدام کس پس منظر میں کیا گیا؟ اس کے ساتھ مگر یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ غلط اقدام کا کوئی وقتی یا واقعاتی جواز مل سکتا ہے مگر اصول میں ہونی والی غلطی بالآخر ایک برے انجام پر منتج ہوتی ہے۔ ضیا الحق مرحوم کے اقدام کے لیے واقعاتی جواز تلاش کیا جا سکتا ہے مگر یہ سچ ہے کہ اس آئین شکنی نے ملک اور عوام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ ہر مارشل لاء کا حاصل افسوس کے سوا کچھ نہیں تھا۔ سوال مگر یہ ہے کہ آج کے واقعات پر ہم کیا حکم لگاتے ہیں۔ واقعاتی جواز یا اخلاقی و آئینی جواز؟