ہمارے معاشرے میں اقبال شناسی کا معیار کیا ہے؟
آج یوم ِ اقبال ہے۔حکومتِ وقت نے اس دن کی مناسبت سے عام تعطیل کا اعلان کیا ہے۔جب میں نے یہ خبر سنی تو ذہن کے کسی کونے میں خاموش بیٹھے اس سوال نے سر اٹھایا اور متقاضی ہوا کہ کم ازکم آج کے دن تو اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ فکرِاقبال کے باب میں بہت سے سوالات ہیں جو ہنوز جواب طلب ہیں۔لازم ہے کہ ان سب کو زیرِ بحث لایا جائے۔ میں خود کو اسی ایک سوال تک محدود رکھتا ہوں کہ 'فکرِ ہرکس بقدرِ ہمت اوست‘۔
حال ہی میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی تالیف ‘کتابیاتِ اقبال ‘ شائع ہوئی ہے۔میں نے یہ کتاب ابھی تک دیکھی نہ پڑھی۔اس پر ایک آدھ تبصرہ البتہ نظر سے گزرا۔ڈاکٹر صاحب کوبھی برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔جو چند ایک اقبال شناس اس معاشرے میں موجود ہیں‘وہ ان میں سے ایک ہیں۔اقبال کو جس محبت اور دقتِ نظر سے ہاشمی صاحب نے سمجھا اور سمجھایا‘اس کی نظیر تلاش تو کی جا سکتی ہے مگر مشکل کے ساتھ۔
کتاب پر تبصرہ‘میبل اور میں‘ کو دہرانا ہوگا‘اس لیے اس سے گریز کرتے ہوئے یہ عرض ہے کہ اقبال پر جتنی کتابیں لکھی گئیں‘شاید ہی ہماری کسی دوسری شخصیت پر لکھی گئی ہوں۔ہاشمی صاحب کی 1732 صفحات پر پھیلی اس کتاب میں‘ دنیا کی اکتالیس زبانوں میں لکھی جانی والے کتب اوررسائل و مقالات کا تذکرہ کیا گیاہے۔اس کے باوصف‘ میرا سوال اپنی جگہ باقی ہے۔اس کی بڑی وجہ سماج کا علمی منظر نامہ ہے۔لوگوں کو جب بھی اقبال پر گفتگو کرتے سنا یا ان پر کوئی کتاب پڑھنے کو ملی‘یہ سوال نئی قوت کے ساتھ سامنے آ کھڑا ہوا۔جنہوں نے اقبال شناسی کا فریضہ سر انجام دیا‘ہم تو ان سے بھی پوری طرح واقف نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پرایسے لوگ پائے جاتے ہیں جواقبال کو استہزا کا ہدف بناتے ہیں۔ان کے اعتراضات بآوازِ بلند یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ انہیں اقبال کے افکار کی ہوا تک نہیں لگی۔جو یہ تاثر دیتے ہیں کہ انہوں نے اقبال کو پڑھ رکھا ہے‘ذرا گہرائی میں دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ علی عباس جلالپوری کے چند اوراق‘شاید ان کی نظر سے گزرے ہوں گے‘جن کی ادھوری خواندگی کی بنیاد پر بڑے بڑے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
یہ تو ناقدینِ اقبال کا معاملہ ہے مگر جو مداح ہیں ‘ان کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔وہ بھی اقبال کو مختلف ابواب پر مشتمل ایک ایسی کتاب سمجھتے ہیں ‘جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔جس سماج میں'نظمِ کلام‘ کے لیے بھی دلیل طلب کی جائے‘وہاں‘اقبال شناسی کے ایسے مظاہر کا پایا جانا باعثِ حیرت نہیں۔جہاں اقبال کے ساتھ یہ سلوک ہو‘وہاں اقبال شناسی کے لیے کہاں اور کس سے رجوع کیا جائے؟
اس بے مائیگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اقبال جیسی ہمہ جہتی شخصیت کو گرفت میں لانا آسان نہیں۔ایک حکیم اور مفکر کی حیثیت سے‘ جب میں ان کی شخصیت پر غور کرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ فرد اور اجتماع کی نفسیات کو انہوں نے جس طرح سمجھا‘کم لوگ ہی سمجھ پائے ہیں۔ان پر اگر جدید علم کا دروازہ نہ کھلتا تو بعید نہ تھا کہ وہ بھی اسی غلطی کو دہراتے جو ان کے ہم عصر اہلِ علم نے کی۔ اقبال شناسی کا یہ باب اہلِ علم کی توجہ کا زیادہ مستحق نہیں بن سکا۔
اقبال مسلم فکری روایت سے تعلق رکھتے تھے۔یہ روایت ایک پیغمبر کے گرد گھومتی ہے جووحی کابراہ راست مخاطب ہونے کی وجہ سے‘ایک جامع الصفا ت ہستی ہے۔مسلم روایت چونکہ نام ہی پیروی ٔرسول کا ہے ‘اس لیے اس کا ایک مفہوم یہ سمجھا گیا کہ امت میں جو آدمی تجدید کا کام کرے گا‘لازم ہے کہ وہ بھی اپنی ذات میں انجمن ہو۔اس فکری سفر میں اس بات کو نظر انداز کیا گیا کہ عام آدمی کی وجودی محدویت کے سبب‘اسے وہ جامعیت حاصل نہیں ہوسکتی جو پیغمبر کا امتیاز ہے۔یہی سبب ہے کہ قرآن مجید کے مطابق شہادتِ حق کی جو ذمہ داری نبی ﷺ نے تنہا سرانجام دی‘اسے آپ کے بعد پوری امت کی ذمہ داری قرار دیا گیا۔
مغرب کی علمی روایت میں تدریجاً علم ایک وحدت نہیں رہا۔انیسویں صدی میں تو باضابطہ طور پراسے علوم (Disciplines) میں تقسیم کر دیا گیا۔اس کے پس منظر میں یہ تجربہ کارفرما تھا کہ علم بحرِ بے کنار ہے ۔اس محدود زندگی میں‘ایک فرد کسی ایک شعبہ علم ہی میں کلی تو نہیں‘البتہ قابلِ بھروسا حد تک‘ دسترس حاصل کر سکتا ہے۔علامہ اقبال کو اس روایت کو ادراک ہوا تو اُن میں مشرق ومغرب کے علم کا امتزاج پیدا ہوا۔اس لیے معاصر اہلِ علم کی طرح‘ان کے فکر میں مجددِ کامل کا تصورنہیں پایا جاتا۔اس کے برخلاف‘انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو ایک نہیں‘کئی راہنماؤں کی ضرورت ہے۔ایک وہ جو سیاست میں ا ن کی قیادت کرے۔ایک وہ جو مسلم فقہ کے احیاسے‘ان کی علمی و عملی راہنما ئی کرے۔پھر انہوں نے پارلیمنٹ کے جدید تصور کو اپنانے کا مشورہ دیا جو اجتماعی دانش کو سامنے لائے۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ جمہوریت کے ذریعے‘عام آدمی کے فہم سے بھی استفادہ کیا جائے۔
علامہ اقبال سے پہلے اور ان کے معاصر اہلِ علم میں قیادت کی تقسیم یا اجتماعی دانش کا تصور اس صورت میں موجود نہیں ہے۔ان کے ہاں کلی قیادت کا تصور پایا جا تا ہے۔جو اہلِ علم اقبال شناس تھے‘انہوں نے اقبال کے اس تصور سے ‘بالفعل اتفاق نہیں کیا۔ اکثریت نے اقبال کے فکر میں پوشیدہ اس حکمت کا کم ہی ادراک کیا۔ علامہ اقبال نے اپنے آپ کوبھی کبھی اس حیثیت سے پیش نہیں کیا کہ مسلمان‘ ہر شعبے میں راہنمائی کے لیے ان کی طرف رجوع کریں۔انہوں نے مختلف شعبہ ہائے حیات کے لیے‘مختلف شخصیات سے راہنمائی لینے کامشورہ دیا اور خود بھی اسی پر قائم رہے۔
اجتماعی نفسیات کے باب میں ان کے علم کی ایک اور اچھی مثال‘ تحریکِ احمدیت کے بارے میں ان کے خیالات تھے۔ عقیدے کے پہلو سے ختمِ نبوت کا مسئلہ بلاشبہ اہم ہے مگر اقبال نے اس کے سماجی اور سیاسی پہلو کو بطورِ خاص نمایاں کیا۔نثر میں علامہ اقبال نے جس پر سب سے زیادہ لکھا‘وہ یہی موضوع ہے۔یہ بحث وہی اٹھا سکتا ہے جس کی ایک طرف الہامی روایت پر نظر ہو اور دوسری طرف وہ سماجی نفسیات سے بھی پوری طرح واقف ہو۔
علامہ اقبال سے اختلاف کیاجا سکتا ہے اوراتفاق بھی۔یہ دونوں کام اسی وقت بامعنی اور مفید ہو سکتے جب بطور مقدمہ اقبال شناسی کے مرحلے سے گزرا جا ئے۔بدقسمتی سے اقبال کی چند تلمیحات وتشبیہات کو اقبال شناسی کے لیے کافی شمارکیا جاتا ہے ۔یہ بھی غنیمت ہو تا اگر ان تلمیحات کو فکرِاقبال کے مجموعی نظم کی روشنی میں سمجھا جاتا۔
اقبال شناسی وہ مقام ہے کہ فکرِ اسلامی کا سفر اس پر پڑاؤ کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔آج اقبال کے نام پر شور اتنا ہے کہ اُن کا تاثر ان کے فہم پر غالب آگیا ہے۔تاثر منفی ہوتا ہے اور مثبت بھی۔ اقبال شناسی میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔اسی وجہ سے ہم ان کے افکار سے حقیقی طور پر استفادے سے محروم ہیں۔'خطبات‘ میں انہوں نے خود ہی اس اندازِ فکرسے خبردار کر دیا تھا۔اب اس کا کیا کریں کہ اس تنبیہ کو سمجھنے کے لیے بھی اقبال شناسی ضروری ہے۔