جمہوریت کو کیوں نعمت قرار دیا گیا؟ کیا سبب ہے کہ موجودہ نظام ہائے حکومت میں جمہوریت ہی پر اتفاقِ رائے وجود میں آیا؟
سیاست ریاست کے استحکام کے لیے ہوتی ہے‘ ریاست کی سلامتی کو جو سب سے بڑا داخلی خطرہ درپیش ہوتا ہے وہ اقتدار کے متمنی فریقوں میں کشمکش ہے۔ ماضی میں اس کشمکش کا فیصلہ تلوار کرتی تھی۔ اس طرح فیصلہ تو ہو جاتا تھا مگر ریاست کو برس ہا برس اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی تھی۔ جمہوریت نے اس کشمکش کا ایک پُرامن حل تجویز کیا۔ اب اقتدار کے متمنی فریقوں کی آویزش کا فیصلہ بھی ہو جاتا ہے اور ریاست بھی عدم استحکام سے دوچار نہیں ہوتی۔ سیاست کو تشدد سے پاک کرنا جمہوریت کی سب سے بڑی خدمت ہے۔
تشدد اور سیاست کے حوالے سے ایک دوسرا پہلو بھی قابلِ غور ہے۔ تشدد پر ریاست کی اجارہ داری کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ریاست‘ اجتماعی مفاد میں جبر کا استعمال کر سکتی ہے۔ یہاں تک کہ معاشرے کو جرم سے پاک کرنے کے لیے کسی کی جان بھی لے سکتی ہے۔ ریاست کے اس حق کو خدا کا قانون تسلیم کرتا ہے اور انسانی قانون بھی۔ اس کی حکمت بھی واضح ہے۔ تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا اختیار اگر غیرریاستی گروہوں یا افراد کو دے دیا جائے تو معاشرے کو فساد سے محفوظ نہیں رکھا جا سکتا۔
جمہوری عمل کی پہچان یہی ہے کہ وہ تشدد سے پاک ہوتا ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں تشدد کو بطور حکمتِ عملی اختیار کر لیں تو پھر اسے اس لیے گوارا نہیں کیا جا سکتا ہے کہ تشدد کرنے والے اہلِ سیاست ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اس کی ایک مثال ایم کیو ایم ہے‘ یہ ایک سیاسی جماعت تھی لیکن جب اس نے تشدد کو اختیار کیا تو پوری قوم کا یہ کہنا تھا کہ اسے سیاست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ایک مختلف طرزِ عمل ہے جسے ریاست کی قوت ہی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ اس سے سب واقف ہیں۔
تشدد کی بدترین صورت یہ ہے کہ اقتدار کی کشمکش میں شامل ایک فریق ریاست ہی کو ہدف بنا لے۔ سیاسی مخالفین کے خلاف تشدد کے حوالے سے ایم کیو ایم کی مثال کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنے سیاسی مخالفین کو تشدد کا نشانہ ضرور بنایا لیکن ریاست کے خلاف قوت استعمال نہیں کی۔ یہ کام ٹی ٹی پی نے کیا اور اعلانیہ کیا۔ اس لیے اس کی سنگینی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔
ریاست کے خلاف تشدد کیوں شدید ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست ہوتی ہی اس لیے ہے کہ اس کے نتیجے میں ریاست کو مضبوط کیا جائے۔ جیسے ہی ریاست کے خلاف تشدد کو بطور ہتھیار اپنایا جاتا ہے‘ ریاست کے مفادات خطرات میں گھر جاتے ہیں۔ فوج ریاستی قوت کی علامت ہے۔ اگر کوئی سیاسی گروہ فوج ہی کو ہدف بنا لے تو پھر لازم ہے کہ ریاست کی قوت بکھرنے لگے۔ یہی سبب ہے کہ بالغ نظر سیاست دان فوج سے جتنا بھی ناراض ہوں‘ فوج کو بطور ادارہ نشانہ نہیں بناتے۔ وہ جانتے ہیں کہ مضبوط فوج کے بغیر ریاست کی سلامتی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ایسے لوگ اپنا غصہ پی لیتے ہیں مگر فوج کے خلاف نہیں اٹھتے۔
وہ اگر تنقید کرتے ہیں تو جانتے ہیں کہ اس کی حد کیا ہے اور وہ کہاں تک جا سکتے ہیں۔ اگر کوئی خارجی قوت کسی ریاست کو کمزور کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے فوجی تنصیبات کو نشانہ بناتی ہے۔ اسرائیل حماس حالیہ کشمکش کو دیکھیں تو حماس اسرائیل کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لیے اس نے اسرائیل کی فوج پر حملہ کیا۔ اس سے پہلے ہم نے دیکھا کہ امریکہ نے عراق کو کمزور کرنا چاہا تو اس کی فوج کو کمزور کیا۔ یہاں تک کہ فوج کے ہونے کی وجہ سے عراق فسادیوں اور غیر ملکی قوتوں کے لیے ایک چرا گاہ بن گیا۔ شام کے خلاف سرگرم قوتوں نے بھی شام کی فوج ہی کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔
پاکستان میں آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ جمہوری عمل کامیابی کے ساتھ آگے بڑھے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاست کو تشدد سے پاک کیا جائے۔ ریاست اگر کسی کے خلاف تشدد کا ناروا استعمال کرتی ہے تو اس پر احتجاج کا حق یقینا مظلوم کو حاصل ہو جاتا ہے لیکن ریاست کے خلاف طاقت کے استعمال کا پھر بھی کوئی جواز نہیں ہوتا۔ خانہ جنگی اس کا نام ہے کہ ریاست کسی عوامی گروہ سے برسر پیکار ہو جائے۔ ایسے معرکے میں کوئی فاتح نہیں ہوتا کیونکہ جس عمل کے نتیجے میں ریاست کمزور ہو‘ وہ سب کیلئے باعثِ شرمندگی ہے۔
آج دانش ور کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آئینی و سیاسی جدوجہد اور تشدد کی سیاست میں نہ صرف خود فرق کرے بلکہ عوام کو بھی نصیحت کرے کہ وہ اس فرق کو جانیں۔ اسے جہاں سیاسی جدوجہد کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے وہاں لوگوں کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ تشدد کی سیاست‘ اور اگر وہ بھی ریاست کے خلاف ہوئی تو اس کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ اس کے بر خلاف یہ آواز اٹھائی جائے گی کہ مجرموں کو سخت سزا دی جانی چاہیے۔
پاکستان کے سیاسی عمل کو اب بالغ نظری کا مظہر ہونا چاہیے۔ مذہب کے نام پر متشدد طرزِ عمل کی اگر اجازت نہیں دی جا سکتی تو سیاست کے میدان میں اسے کیسے گوارا کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے دانش وروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو بتائیں کہ کون تشدد کی سیاست کر رہا ہے اور اس کی مذمت کیوں ضروری ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ سیاسی عمل اور تشدد کی سیاست میں فرق کو نمایاں کیا جائے۔ سیاسی عمل کی حمایت ہو اور سیاست کے نام پر تشدد کی نفی کی جائے۔ بالخصوص جب وہ ریاست کے خلاف اختیار کیا گیا ہو۔ اگر فوجی تنصیبات پر حملہ سیاسی عمل ہے تو ٹی ٹی پی کو بھی یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر متحرک ہو اور اس کے اس حق کے لیے تحریک اٹھائی جائے جس میں لوگ قلم اور دوات کے ساتھ شریک ہو جائیں۔
پاکستان کو ایسی بالغ نظر سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو آئین کی پاسداری کے لیے جدوجہد کرے لیکن اس کے ساتھ سیاسی مخالفین یا جو ریاست کے خلاف طاقت کے استعمال کو رَد کر دے‘ جو تشدد کے مرتکب ہوئے اور اب اپنے عمل پر نادم ہیں‘ انہیں بھی یہ موقع ملنا چاہیے کہ وہ سیاسی عمل کا حصہ بنیں۔ آج ایم کیو ایم سیاست میں متحرک ہے اور یہ خوش آئند ہے کہ اس نے اس فریق سے قطع تعلق کرکے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے جس کی شہرت میں تشدد تھا۔ یہ متشدد اور غیر جمہوری گروہ ہیں جو ریاست پر دباؤ کے لیے تشدد کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اگر سیاسی گروہ بھی اس راہ کو اپنا لیں تو پھر آئینی سیاست اور مسلح جدوجہد میں فرق باقی نہیں رہتا۔ عوام کی تائید ایک مثبت عمل ہے۔ اسے ریاست کے خلاف استعمال کرنے کا مطلب سیاسی جدوجہد کا خاتمہ ہے۔ اس کو خانہ جنگی کہتے ہیں۔