انڈونیشیا کے مسلمان جس اسلام پر ایمان لائے ہیں‘ کیا وہ کوئی اور اسلام ہے؟
چند روز سے جکارتہ میں ہوں اور یہ سوال میرا ہم قدم ہے۔ سچ پوچھئے تو 2004ء سے میں اس سوال سے پیچھا نہیں چھڑا سکا‘ جب میں پہلی مرتبہ انڈونیشیا گیا تھا۔ اس کے بعد جب بھی یہاں آیا‘ یہ سوال میرے ساتھ تھا۔ ہر نئی ملاقات اس سوال کو زندہ کر دیتی ہے۔ اس بار ایسا کیا ہوا‘ میں بیان کر دیتا ہوں۔
نہضۃ العلماء اور محمدیہ یہاں کی دو بڑی مذہبی جماعتیں ہیں۔ دونوں ریاست کے سیکولر تشخص پر یقین رکھتی ہیں۔ ان کو ہم بھارت کی جمعیت علمائے ہند اور جماعت اسلامی کے مثل قرار نہیں دے سکتے کہ وہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور اقلیتوں کو ایک غیر مذہبی حکومت ہی بہتر دکھائی دیتی ہے۔ انڈونیشیا میں تو مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ چیئرمین نہضۃ العلماء کو نو مسلم عوام میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے۔ انڈونیشیا کی کم و بیش ستاسی فیصد آبادی مسلم ہے اور اس میں سے ساٹھ فیصد نہضۃ العلماء سے وابستہ ہے۔ اتنی غیر معمولی اکثریت رکھتے ہوئے یہ جماعت ریاست کے مذہبی تشخص کی قائل نہیں ہے۔
نہضۃ العلماء ہمیشہ سے ایسی نہ تھی۔ انڈونیشیا کی تاریخ میں ایک سیاسی اتحاد 'ماشومی‘ کے نام سے بنا تھا جو سیاست میں متحرک تھا۔ اس اتحاد میں نہضۃ العلماء اور محمدیہ دونوں شامل تھیں۔ دونوں نے بعد میں سیاست سے دستبرداری اختیار کی اور خود کو سماج کی اخلاقی تعمیر تک محدود کر لیا۔ دونوں نے ملک میں جتنے تعلیمی و فلاحی ادارے قائم کیے‘ عوام کی دینی اور مذہبی تعلیم و تربیت کے لیے کام کیا اور اس وقت جتنے مذہبی مدارس ان کے زیر اہتمام قائم ہیں‘ ان کے اعداد و شمار حیران کن ہیں۔ اتنے غیر معمولی اثرو رسوخ اور فلاحی منصوبوں کے باوجود یہ دونوں جماعتیں ریاست کو مذہبی بنانے میں نہ صرف سنجیدہ نہیں ہیں بلکہ اسے انڈونیشیا کے لیے مضر سمجھتی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
یہ جماعتیں دین انہی ماخذ سے کشید کرتی ہیں جن سے ہم دین لیتے ہیں۔ قرآن اور سنت ان کے نزدیک بھی دین کا سرچشمہ ہیں۔ دین ان کے ہاں بھی پانچ ارکان پر کھڑا ہے۔ ختمِ نبوت بھی دونوں کے عقیدے کا حصہ ہے۔ مذہبی اعتبار سے وہ قادیانیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ اس کے باوجود وہ دین کی جو تعبیر کرتے ہیں‘ اس کے نتیجے میں ریاست و سماج کے معاملے میں وہ ہم سے مختلف مؤقف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس بار میں جب محمدیہ کی عالمات سے ملا تو ان کے دینی علم کو قابلِ رشک پایا۔ محمدیہ کے اہلِ علم کا تفسیر کے باب میں یہ نقطۂ نظر ہے کہ یہ تین طرح سے کی جاتی ہے: بیانی‘ رحمانی اور عرفانی۔ بیانی جو متن کا فہم ہے۔ رحمانی جو عقلی استدلال رکھتی ہے اور عرفانی جو دین کی اجتماعی حکمت اور اس کی روح کو بیان کرتی ہے۔ ان جماعتوں کے مذہبی علما سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تفسیر کے باب میں ایک اصول قراۃِ مبادلہ (Reciprocal Reading) کا ہے۔ اس کی شرح یہ ہے کہ متن کو اگر آپ مرد کے نقطۂ نظر سے پڑھ رہے ہیں تو قراۃِ مبادلہ یہ ہے کہ اسے عورت کی نظر سے بھی دیکھا جائے۔ اس طرح قرآن مجید کے ایک متوازن فہم اور شرح تک پہنچنا ممکن ہو جاتا ہے۔ یہاں خواتین کو کسی طرح مردوں سے کم تر نہیں سمجھا جاتا۔ دینی حوالے سے اس بات کی تفہیم کے لیے ان کا خیال ہے کہ یہ اصول اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی تفسیر اس وقت میرا موضوع نہیں۔ مجھے صرف یہ واضح کرنا ہے کہ دینی ستون کو سمجھنے کے لیے یہاں کے علما کا زاویۂ نظر ہم سے بہت مختلف ہے۔
خواتین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ مفعولانہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نہضۃ العلماء کے زیر اہتمام خواتین علما کی ایک تنظیم کوپی (Kupi) قائم ہے۔ اسے تنظیم نہیں بلکہ ایک تحریک قرار دیا گیا ہے۔ جب ہم 'علما‘ کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں مرد علما کا تصور ابھرتا ہے۔ یہ تحریک اس صفت کو صنفی اعتبار سے بلند کرتے ہوئے عام کرنا چاہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ 'علما‘ خواتین بھی ہو سکتی ہیں‘ اس لیے اب خواتین مردوں کی شرح اور تفسیر کی محتاج نہیں۔ وہ خود دین کا علم حاصل کریں گی اور دینی نصوص کی شرح کریں گی۔ یہ تنظیم خواتین علما کی دو بڑی کانفرنسوں کا انعقاد کر چکی ہے تاکہ وہ خواتین کی انفرادیت کو نمایاں کرنے کیلئے حکمت عملی وضع کریں۔
عالمات پاکستان میں بھی موجود ہیں لیکن وہ اس نظامِ تعلیم کا حصہ ہیں جو پہلے سے قائم ہے اور ظاہر ہے کہ مردوں کا بنایا ہوا ہے۔ ان خواتین کا الگ سے کوئی تشخص نہیں ہے۔ نہ علمی‘ نہ انتظامی۔ 'کوپی‘ ایک متبادل نظام بھی ہے اور طرزِ فکر بھی۔ مجھے ان خواتین سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا دینی علم قابلِ رشک اور اعتماد‘ سچ پوچھئے تو خوف زدہ کر دینے والا ہے۔ ایک مجلس میں جب ایک خاتون عالمہ نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 36کی شرح کی جس میں مردوں کو خواتین کا 'قوام‘ قرار دیا گیا ہے‘ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ نہ صرف عربی صرف و نحو سے بخوبی واقف ہے بلکہ اپنی تفسیری روایت سے بھی با خبر ہے۔ وہ جب اس آیت کی شرح کو تفسیر بالقرآن کے اصول پر بیان کر رہی تھی کہ کیسے قرآن کی بعض آیات‘ دوسری آیات کی تفسیر کرتی ہیں تو سامعین کی حیرت دیدنی تھی۔
ان مذہبی جماعتوں کے خواتین و حضرات کی دین سے عملی وابستگی بھی متاثرکن ہے۔ ان کے ہاں عبادت کا اہتمام ہے۔ مساجد خوبصورت اور صاف ستھری ہیں۔ ان کے دروازے جس طرح مردوں کے لیے کھلے ہیں‘ عورتوں کے لیے بھی اسی طرح وا کئے گئے ہیں۔ ایک مدرسے میں جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ بچے اور بچیاں مختلف کمروں میں‘ لیکن ایک ہی عمارت میں دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ نماز کے بعد مسجد میں بچے اور بچیاں ذکر و اذکارکر رہے ہیں۔ یہ منظر بھی بہت متاثر کن تھا۔ میں جب ان کے فہمِ دین کے اصول اور ان سے ماخوذ نتائجِ فکر کو دیکھتا ہوں‘ ان کے طرزِ عمل کا مشاہدہ کرتا ہوں تو مجھے خود سے بہت مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے مدارس فی الجملہ جیسی شخصیات پیدا کرتے ہیں‘ وہ ان سے یکسر مختلف ہیں جو انڈونیشیا کے مدارس پیدا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ فقہی اعتبار سے امام شافعی کے مقلد ہیں‘ اس لیے انہیں 'متجدد‘ کہہ کر رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ اگرسب ایک ہی منبع سے فیض یاب ہیں تو وہ ایک دوسرے سے اتنے مختلف کیوں ہیں؟ ایک ہی پودے پر لگنے والے پھول اپنی خوشبو اور رنگ میں مختلف کیسے ہو سکتے ہیں؟
میرے علم اور مشاہدے میں بہت سے خیالات ایسے بھی ہیں کہ انہیں پاکستانی معاشرے میں بیان کیا جائے تو لوگ حیرت سے دانتوں میں انگلیاں داب لیں یا ہاتھ میں پتھر اٹھا لیں۔میں اس وقت یہ سوال نہیں اٹھا رہا کہ دونوں میں سے غلط کون ہے اور صحیح کون؟ میں تو صرف یہ واضح کر رہا ہوں کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا بیان کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں مختلف نقطہ ہائے نظر ہیں اور سب اسلام ہی ہیں۔ کیا ان فاصلوں کو کم کیا جا سکتا ہے؟ میرا جواب اس بات میں ہے‘کہ اس کا طریقہ مکالمہ ہے۔ لازم ہے کہ ہمارے اور انڈونیشیا کے علماکے مابین گفتگو ہو۔ تبادلۂ خیال ہو اور وہ ایک دوسرے کے دلائل کو خندہ پیشانی کے ساتھ سنیں۔ وحی کا دروازہ بند ہو چکا۔ اب جو کچھ کہے گا وہ دلیل کی بنیاد پر پرکھا جائے گا۔دین کے باب میں دلیل قرآن اور سنت ہی ہیں۔
اس سفر میں مجھے ایک بار پھر جکارتہ کی مسجد استقلال جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ جنوب مشرقی ایشیاکی سب سے بڑی مسجد ہے۔ یہاں کے خطیب اعظم سے تفصیلی گفتگو ہوئی‘ معلوم ہوا کہ یہ محض ایک مسجد نہیں، ایک نظام ہے۔ ایسا نظام کہ اس کی تفصیلات آدمی کو حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔ حیرت کے دروازے کو میں اس وقت بند ہی رکھنا چاہتا ہوں۔