ریاست ایک عجیب موڑ پر آ کھڑی ہوئی ہے۔ مثالی حل‘ حقائق اور خواہشات میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہو رہی۔ کرداروں میں کوئی اس قد کاٹھ کا دکھائی نہیں دیتا جو لمحۂ موجود کو اپنی گرفت میں لے کر اس سے حسبِ خواہش فیصلہ لے سکے۔
مثالی حل تو یہی ہے کہ جمہوریت کو اس کی فطری ڈگر پر چلنے دیا جائے۔ شفاف انتخابات ہوں اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے۔ ریاست اس عمل میں فریق کے بجائے محض سہولت کار ہو۔ ریاست کے لیے باوجوہ یہ ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے اب سوال یہ ہے کہ وہ الیکشن کے اُن نتائج سے خود کو کیسے ہم آہنگ کرے جو اس کی تمناؤں سے متصادم بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے ذہن میں آنے والے دنوں کا ایک خاکہ ہے جو ماضی کے تجربات کا حاصل ہے۔ فلاں کو اقتدار ملا تو یہ ہوگا۔ فلاں کو ملا تو یہ۔ اس کا خیال یہ ہے کہ انتخابات کو اگر پوری طرح 'آزادانہ‘ بنا دیا گیا تو نتائج بھی اسی طرح 'آزادانہ‘ نکلیں گے۔
یہ بھی محض افسانہ ہے کہ عدالتیں سماجی و سیاسی حقائق سے بے نیاز ہو کر فیصلے دیتی ہیں۔ اس باب میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا انہیں ایسے فیصلے دینا چاہئیں؟ یہاں نظریۂ ضرورت سامنا آتا ہے۔ یہ نظریہ ہمیشہ تنقید کی زد میں رہا۔ اہلِ دانش بالاجماع یہ کہتے ہیں کہ ہمارے مسائل کا سبب یہی ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ عدالتی فیصلے ریاستی مقاصد و عزائم سے متصادم ہونے لگیں تو پھر کیا ہو؟ کیا ریاست خود کو وقت کے رحم و کرم پر چھوڑ دے؟
عدالت نظام کا حصہ ہوتی ہے۔ میں بارہا توجہ دلا چکا کہ جب کسی شخصیت یا گروہ کو عصبیت حاصل ہو جائے تو عدالتی فیصلے اس پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ عدالت ممکن ہے اپنے تئیں انصاف کر رہی ہو مگر اسے عصبیت ہی کی عینک سے دیکھا جائے گا۔ نواب محمد احمد خان کو کس نے قتل کیا؟ آج یہ سوال بے معنی ہو چکا۔ تاریخ نے اس معاملے کی صرف ایک تعبیر کو قبول کیا: بھٹو کا عدالتی قتل ہواہے۔ اس لیے آج عدالتیں جو فیصلے کریں گی‘ میرا تاثر ہے کہ وہ سیاسی و سماجی فضا پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اب تاریخ کا فیصلہ کیا ہو گا‘ اس کے لیے ہمیں انتظار کرنا ہے‘ بھٹو کے مقدمے کی طرح۔
ہم آج اس کا تجزیہ تو کر سکتے ہیں کہ ہمیں اس مشکل صورتحال کا سامنا کیوں ہے مگر یہ بحث اس وقت بے معنی ہے۔ اس وقت تو راستہ چاہیے۔ ریاست کو‘ سیاسی جماعتوں کو اور سماج کو۔ سب کو اپنے اپنے دائروں سے نکلنا اور کوئی راستہ ڈھونڈنا ہے۔ اس بارے میں تو دو آرا موجود نہیں کہ یہ اس غلط حکمتِ عملی کا حصہ ہے جسے اپنائے کئی سال ہو گئے۔ اس کو دہرانے کی مگر آج کوئی عملی افادیت نہیں۔
اس قضیے میں ریاست سب سے اہم کردار ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اس کے مقاصد اور حکمتِ عملی میں کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ میں غلط اور صحیح کی بحث نہیں کر رہا۔ حالات جس نہج پر آگے بڑھ رہے ہیں‘ وہ ریاستی مقاصد کے پورا ہونے میں مزاحم دکھائی دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد ریاست مزید غلطیاں کرے گی۔ اِلّا یہ کہ وہ مقاصد ہی پر نظر ثانی کرے جس کا امکان کم ہے کہ طاقت کی اپنی نفسیات ہے۔ اس کا زاویۂ نظر ہمیشہ عوام سے مختلف ہوتا ہے۔
2014ء میں ریاست نے ایک فیصلہ کیا۔ اس کے لیے جو حکمتِ عملی اپنائی گئی وہ بہت مربوط تھی۔ عدلیہ‘ میڈیا‘ ریاستی مشینری‘ سب میں مکمل ہم آہنگی پیدا کی گئی۔ چار برس بعد ریاست اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی۔ اس نے وہ کچھ حاصل کر لیا جس کی خواہش کی تھی۔ آج اس طرح کا کوئی بندو بست موجود نہیں ہے۔ انتخابات سر پر کھڑے ہیں۔ ریاست قانوناً اس میں فریق نہیں ہو سکتی۔ اس کے سیاسی حلیفوں کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ سیاست ایک بے لگام گھوڑا بن چکی ہے۔
ہماری تاریخ یہ ہے کہ سیاست جب شترِ بے مہار بن جائے تو انتخابات اس کو لگام نہیں ڈال سکتے۔ اس سے صرف نئی غلطیوں کا امکان باقی رہتا ہے۔ کہنے کو تو کہا جا سکتا ہے کہ ریاست فریق بننے کے بجائے معاملات کو فطری ڈگر پر چلنے دے۔ یہ مگر مثالی حل ہو گا اور میں یہ بتا چکا کہ اس وقت مثالی حل مراکزِ قوت کا انتخاب نہیں ہے۔ اس کی وجہ سادہ ہے۔ اقتدار کی کشمکش سے کوئی فریق رضا کارانہ طور پر الگ نہیں ہوتا۔ پھر اس کا انجام کیا ہو گا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب لکھنے کی سکت قلم میں نہیں ہے۔ اس کے بعد کا منظر رقم کرنے کے لیے حوصلہ چاہیے۔
مسلم تاریخ میں صرف ایک مثال ہے جب ایک جلیل القدر شخصیت نے خود کو اقتدار کی کشمکش سے الگ کیا۔ اس فیصلے نے مسلم تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ افسوس یہ ہے کہ ان کے اس احسن اقدام کے نتائج بیس سال سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ یہ سیدنا حسن ابن علیؓ تھے۔ امام زین العابدینؒ ان کے فکری جانشین تھے۔ مگر اس دوران تاریخ کے گھوڑے نے ایک دوسری راہ کا انتخاب کر لیا تھا‘ وہ جس پر سرپٹ دوڑ رہا تھا۔ امام کی بصیرت اس کو لگام نہیں دے سکی۔ سیدنا حسنؓ ایک استثنا ہی رہے اور تاریخ میں استثنا بہت کم ہوتا ہے۔
اس وقت آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ اقتدار کی کشمکش میں شریک سب فریق کسی قابلِ عمل حل پر متفق ہوں۔ اس کے لیے سب کو اپنی جگہ سے ہٹنا ہو گا۔ جب ہم کسی اتفاق تک پہنچنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ سب کے مفادات کو پیشِ نظر رکھیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک فریق ہی کا مفاد سامنے ہو۔ یہ بات ریاست اور اہلِ سیاست دونوں کو سمجھنا ہو گی۔ عدالت سے بھی توقع کی جانی چاہیے کہ وہ اس کا لحاظ رکھے۔ انتخابات کی تاریخ کے لیے سپریم کورٹ نے ایک حل تجویز کیا جس کے نتیجے میں ایوانِ صدر اور الیکشن کمیشن کے مابین مسئلہ حل ہو گیا جو باعثِ نزاع تھا۔ آج پھر کسی ایسے حل کی ضرورت ہے۔ دکھائی یہ دیتا ہے کہ اس بار بھی آخری فیصلہ عدالت ہی کا ہو گا۔
کیا یہ ممکن ہے کہ سب فریق گروہی مفادات سے بلند ہو سکیں؟ اب ایسا نہیں ہے کہ سیاسی کردار آئیڈیل ازم کی بنیاد پر اپنی جگہ نہیں چھوڑتے۔ ہمیں معلوم ہے کہ جہاں ان کا مفاد متقاضی ہوتا ہے‘ وہ مفاہمت کا راستہ اپناتے ہیں۔ جہاں ان کو یہ اندازہ ہو کہ ان کی جگہ سکڑ رہی ہے‘ وہ وہاں جمہوریت‘ انصاف اور اصول کا دامن تھام لیتے ہیں۔ پھر وہ جمہوریت اور آمریت میں تطبیق پیدا کرتے ہیں۔ 'چوروں‘ میں بھی انتخاب کرتے ہیں کہ کس کو ساتھ ملانا ہے اور کس کے خلاف محاذ کھولنا ہے۔
پاکستان کا سیاسی بحران بڑے لوگوں کا متقاضی ہے۔ کشتی بھنور میں پھنس جائے تو عام ملاح اسے نہیں نکال سکتا۔ اس کے لیے کسی چابک دست ناخدا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اقتدار کے فریقوں میں کوئی یہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے مجھے بھنور سے نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ ہماری تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے کہ جب انتخابات کی دوا مرض میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ طبیب کو بہرِ صورت دوا دینی ہے۔ اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اب جو مریض دوا سے مرتا ہو‘ اس کی بے بسی کا علاج کسی عام طبیب کے پاس نہیں۔ جہاں انسانی بصیرت کام نہ کرے‘ وہاں خدائی مداخلت ہی کی دعا کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے خیر کے اسباب پیدا کرے۔