مسلمانوں کی فقہی روایت تشکیلِ جدیدکی متقاضی ہے۔ دورِ جدید میں اس جانب سب سے پہلے علامہ اقبال نے متوجہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام کے خمیر میں جو تحرک ہے اس کا تقاضا ہے کہ فقہی روایت جامد نہ ہو۔
علامہ اقبال کی پکار صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ ان کے معاصر اہلِ علم میں سے کسی نے ان کی دعوت پر لبیک نہیں کہا۔ بعد میں آنے والے اہلِ علم کی فہرست میں مجھے ایک نام ایسا دکھائی دیتا ہے جس نے اقبال کی اس بات کو سنجید گی کے ساتھ اپنی گرہ سے باندھ لیا۔ یہ ڈاکٹر محمد خالد مسعود ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس باب میں جس استقامت اور ریاضت کا مظاہرہ کیا وہ حیرت انگیز ہے۔ اس کے ایک مظہر کے طور پر ان کے پرانے مضامین کا نیا مجموعہ ''مسلم معاشرت کی سیاسی اور قانونی تشکیل‘‘ اس وقت میرے سامنے ہے۔
یہ ڈاکٹر صاحب کے وہ مضامین ہیں جوگزشتہ چھ دہائیوں میں لکھے گئے۔ ایک مضمون 1964ء میں ''فکر و نظر‘‘ میں شائع ہوا۔ 2018ء میں لکھے گئے ایک مضمون کے سوا اس مجموعے کے سب مضامین وہ ہیں جو بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں شائع ہوئے۔ یہ مضامین جہاں ڈاکٹر صاحب کے وسعتِ مطالعہ کی گواہی دے رہے ہیں وہاں ان کے تفقہ فی الدین کا ثبوت ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کم و بیش ساٹھ برس سے ڈاکٹر صاحب ان موضوعات پرغور کر رہے ہیں جن پر آج کلام کیا جائے تو لوگ انہیں جدید قرار دیتے ہیں۔
14مضامین کو فقہ سیرت‘ فقہ تاریخ‘ فقہ ولایت‘ فقہ سیاست‘ فقہ احیا و تجدید کے عنوانات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں اصولِ فقہ کی تاریخ ہے۔ ایک باب امام شاطبی کے تصورِ مقاصدِالشریعہ پر باندھا گیا ہے۔ 'اخبار القضاۃ‘ جیسی اہم مگر گمنام کتاب کا تعارف ہے۔ مسلم اقلیتوں کو درپیش فقہی مسائل کا بیان ہے۔ حج کے لیے استطاعت کی شرط جیسے فقہی مسائل کو بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ دو مضامین میں قبرص اور سپین میں اسلام کی تاریخ پر نادر معلومات جمع کر دی گئی ہیں۔ قمری مہینوں اور فلکیاتی حساب جیسے موضوع پر بھی کلام کیا گیا۔
ایک شاندار مضمون اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کے رحمت للعالمین ہونے پر ہے۔ اس رحمت کی آفاقیت کو بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ایک دلچسپ مضمون میں عہدِ رسالت کے مشروبات کا تعارف کرایا گیا ہے۔ بعض مشروبات کی حرمت پر قدیم فقہا کی آرا بھی بیان کر دی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے کو فقہا نے کس وسعتِ نظر کے ساتھ دیکھا ہے۔ ڈاکٹرخالد مسعود صاحب نے 2018ء میں لکھے گئے مضمون میں برصغیر میں اجتہاد کے مسئلے پر جودادِ تحقیق دی ہے‘ وہ پڑھنے کے لائق ہے۔ اس میں ایک طرف قدیم فتاویٰ کا تذکرہ ہے اور دوسری طرف شاہ ولی اللہ سے سر سید احمد خان تک اس روایت کے ارتقائی مراحل کا بیان ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس ارتقا پر یورپی اثرات کا جائزہ لیا ہے اور ساتھ ہی برصغیر اور ترکی کے فقہی تجربات کا تقابل بھی کیا ہے۔
ڈاکٹر خالد مسعود ان دنوں فقہ کی سماجی تشکیل جیسے ایک بڑے تحقیقی منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مطالعے کی اس وسعت اور چھ عشروں کے فکر و تدبر کے بعد وہی اس کے سزاوار تھے کہ اس موضوع پر قلم اٹھائیں۔ ان مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری فقہی روایت پر ڈاکٹر صاحب کی بہت گہری نظر ہے۔ میں نے بہت کم علما کو دیکھا ہے جو فقہ اور اصولِ فقہ کے مباحث سے اس گہرائی کے ساتھ آشنا ہیں۔ نئی سماجی تبدیلیوں کا ادراک و تفہیم اور معاصر افکار سے آگاہی اس پر مستزاد ہے۔ ڈاکٹر خالد مسعود نے میکگل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ یورپ کے علمی اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔ یوں وہ مغرب کی علمی روایت سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ اس مجموعے میں شامل مضامین کے مطالعے سے اس تنوع کا احساس ہوتا ہے جو ایک پڑھنے والے کو علمی اعتبار سے مالا مال کر دیتا ہے۔
فقہ کے باب میں علامہ اقبال جس تحقیقی کام کے خواہش مند تھے‘ اس کا اظہار انہوں نے اپنے خطبات میں کیا ہے اور مکتوبات میں بھی۔ ان مضامین کے مطالعے سے مجھے قدم قدم پر یہ احساس ہوتا رہا کہ شاید ڈاکٹر خالد مسعود صاحب ہی وہ شخصیت ہیں جو اقبال کے اس خواب کو تعبیر دے سکتے ہیں۔ اپنی کتاب '' اقبال کا تصورِ اجتہاد‘‘ میں انہوں نے اقبال کے اجتہادی تصورات کی جس طرح تفہیم کی ہے اور مسلمانوں کی علمی روایت اور ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے جس طرح اقبال کے تصورات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے وہ ایک طالب علم کے لیے کسی ارمغان سے کم نہیں۔ اقبال کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی پہلی شرط اقبال شناسی ہے۔ یہ کتاب اس کا اعلان ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس شرط کو پورا کرتے ہیں۔ فقہ کی سماجی تشکیل کے حوالے سے ان کا علمی کام سامنے آئے گا تو مجھے یقین ہے کہ وہ اقبال کے خواب کی تعبیر ہو گا۔
ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کے یہ مضامین 'فکر و نظر‘ کی فائلوں میں 'قید‘ تھے۔ اب انہیں 'آزاد‘ کر دیا گیا ہے۔ یہ کارنامہ صاحب زادہ محمد امانت رسول نے سر انجام دیا ہے۔ انہوں نے 'ادارۂ فکرِ جدید‘ کے فورم سے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا اور یوں عام قاری اور طالب علم کے لیے ان مضامین تک رسائی ممکن ہو گئی۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے براہِ راست استفاہ کیا ہے اور برسوں سے ان کے ساتھ ایک تعلق ہے جو میرے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ میں جب 'فکر و نظر‘ کا ایڈیٹر تھا تو اس کی قدیم فائلیں دیکھنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔ میرے لیے بھی اس مجموعے میں شامل بعض مضامین بالکل نئے تھے۔ عام آ دمی کے لیے تو بدرجہ اتم یہ مضامین نیا پن لیے ہوئے ہیں۔
برادرم امانت رسول صاحب نے کچھ اور علمی کمالات بھی دکھائے ہیں۔ ان کی نگرانی میں اہلِ علم کے ایک گروہ نے علامہ زمخشری کی شہرہ آفاق تفسیر 'الکشاف‘ کا ترجمہ بھی شروع کر دیا ہے اور اس کی پہلی جلد شائع ہو گئی ہے۔ اس منصوبے کے آغاز سے پہلے انہوں نے مجھ سے مشورہ کیا تو میں اس کے اُردو ترجمے کی افادیت کے بارے میں متردد تھا۔ وہ لیکن یہ بھاری پتھر اٹھانے پر آمادہ ہو گئے۔ اس کے ساتھ انہوں نے علامہ یوسف القرضاوی کی معروف کتاب 'فقہ الجہاد‘ کے ترجمے کو آگے بڑھایا ہے اور اس کی مزید دو جلدیں بھی شائع ہو گئی ہیں۔ برادرم عاطف ہاشمی نے اس کا بڑا رواں ترجمہ کیا ہے۔
ڈاکٹر خالد مسعود جیسی شخصیات ہماے عہد کا علمی تعارف ہیں۔ وہ علامہ اقبال ہی نہیں‘ ڈاکٹر فضل الرحمن مرحوم کی علمی روایت کے بھی وارث ہیں۔ جس علمی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ انہوں نے کام کیا ہے وہ ہم جیسوں کے لیے باعثِ رشک ہے۔ ڈاکٹر صاحب ان لوگوں میں سے ہیں جو وقت کو ایک امانت سمجھ کر خرچ کرتے ہیں اور اسے ضائع نہیں کرتے۔ چھ عشروں سے وہ جس انہماک سے علمی کاموں میں مصروف ہیں‘ کم لوگ ہی اس ریاضت کا اہتمام کر سکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب بتاتی ہے کہ جن مسائل کو لوگ آج جدید قرار دیتے ہیں‘ ڈاکٹر صاحب ساٹھ سال سے ان پر تدبر کر رہے ہیں۔ میں جس 'قحط الرجال‘ سے افسردہ ہوتا ہوں ڈاکٹر خالد مسعود جیسے چند اہلِ علم کا وجود اس افسردگی میں کمی کا باعث ہے۔
پسِ نوشت: گزشتہ کالم میں مجھ سے ایک تسامح ہوا۔ میں نے ''زنداں نامہ‘‘ کے بجائے ''پس دیوارِ زنداں‘‘ لکھ دیا۔ ''زندان نامہ‘‘ فیض صاحب کا مجموعۂ کلام ہے اور ''پس دیوارِ زنداں‘‘ شورش کاشمیری کی جیل میں گزرے دنوں کی رُوداد ہے۔