موجودہ ریاستی بندوبست‘ کیا ایک بار پھر ملک کو سیاسی استحکام دینے میں ناکام ثابت ہوا ہے؟
اس سوال کے جواب کے لیے‘ تاریخ کے دو ابواب پر ایک بار پھر نظر ڈالنا ہو گی۔ 1970ء میں‘ جب انتخابات کا موسم آیا تو عدم استحکام کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا تھا۔ یہ واضح تھا کہ انتخابات کے متوقع نتائج ملک کو ایک نئے بحران سے دوچار کر دیں گے۔ وقت کا جبر یہ تھا کہ انتخابات کو ملتوی کرنا بھی عدم استحکام کو دعوت دینا تھا۔ ریاست ایک مخمصے سے دوچار تھی۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ انتخابات ہو گئے مگر نتیجہ وہی نکلا جس کا ڈر تھا۔
تاریخ کا دوسرا باب 1977ء میں رقم ہوا۔ انتخابات ہوئے اور نتائج دھاندلی کے الزامات سے آلودہ ہو گئے۔ اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ ان الزامات میں کتنی صداقت تھی‘ ملک میں ایک احتجاجی تحریک برپا ہو گئی۔ یہ انتخابات ایک سیاسی جماعت کی حکومت نے کرا ئے تھے جو انتخابات میں بھی شریک تھی۔ اُس وقت عبوری حکومت کا تصور نہیں تھا۔ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیاگیا جو مانا نہیں گیا۔ احتجاجی تحریک برپا ہوئی جو انسانی لہو سے رنگین تھی۔ لاشوں کے ساتھ‘ اس احتجاج نے ملک کو مارشل لاء کا تحفہ دیا جوگیارہ برس کو محیط تھا۔
2024ء کے انتخابی نتائج نے پھر اُسی موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے ہمیں پہلے بھی گزرنا پڑا۔ میں نے ان انتخابات سے پہلے‘ آج کے حالات کی ماضی سے مماثلت کی طرف توجہ دلائی تھی۔ میں نے لکھا تھا کہ انتخابات ہوں یا نہ ہوں‘ دونوں صورتوں میں عدم استحکام ہمارا منتظر ہے۔ اس سے بچنے کے لیے ایک حل بھی تجویز کیا تھا۔ حسبِ توقع کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی۔
میں خود کو دہرانا نہیں چاہتا مگر 11 جنوری 2024ء کو شائع ہونے والے کالم 'ایک نئے نظام کی ضرورت‘ کی چند سطریں یہاں نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں: '' اگر تحریکِ انصاف کو مصنوعی طور پر انتخابی عمل سے الگ کیا جاتا ہے تو انتخابات کی اخلاقی ساکھ مجروح ہو گی اور عدم استحکام جنم لے گا۔ اگر وہ انتخابات میں شریک ہوتی اور اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو اقتدار کے ایک دوسرے فریق 'ریاست‘ کے ساتھ اس کا تصادم ناگزیر ہے۔ اس کا نتیجہ بھی عدم استحکام ہے۔ اس لیے یہ لازم ہے کہ سب فریق مل کر ایک ایسے حل کو قبول کر لیں جس کا نتیجہ تصادم نہ ہو۔ ملک کو عدم استحکام سے بچانے کا یہی ایک طریقہ ہے‘‘۔
وہی ہوا جس کاخدشہ اس کالم میں ظاہر کیا گیا تھا۔ انتخابات تو ہو گئے مگر ملک کو عدم استحکام کی راہ پر ڈال گئے۔ آج 1977ء کے حالات سے مماثلت دکھائی دے رہی ہے۔ اگر(ن) لیگ اور پیپلز پارٹی مل کر حکومت بناتی ہیں تو ایک احتجاجی تحریک کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اگر 'آزادوں‘ کو حکومت دی جاتی ہے تو ریاست کے موجودہ بندوبست کے ساتھ تصادم ناگزیر ہے۔ اقتدار کی سیاست میں کبھی مثالی حل نہیں ہوتا۔ تحریکِ انصاف کے حامیوں کو سرِدست یہ بات سمجھانی مشکل ہے۔ یوں عدم استحکام سے فرار ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
جائے ماندن ہمیں حاصل ہے نہ پائے رفتن
کچھ مصیبت سی مصیبت ہے‘ خدا خیر کرے
بعض لوگ نیک نیتی کو اپنے اعمال کا جواز بنا کر پیش کرتے ہیں۔ نیتوں پر حکم لگانا‘ کسی انسان کے لیے ممکن نہیں۔ اس لیے اس دنیا میں اللہ کی جو سنن رائج ہیں ان میں نتائج‘ اعمال سے جڑے ہوئے ہیں‘ نیتوں سے نہیں۔ تینوں کا معاملہ آخرت سے متعلق ہے۔ یہ طے ہے کہ آئین سے انحراف کا نتیجہ قانون کی حکمرانی کی صورت میں نہیں نکل سکتا۔ ہمارے ملک میں آئین شکنوں نے قانون کی حکمرانی کا جھنڈا اٹھایا تو اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ میں ایسے انجام کو فطری انجام کہتا ہوں۔
ایک سماج کی فکری تشکیل جب سننِ الٰہی کے مطابق نہیں ہوتی جنہیں ہم فطری اصول بھی کہتے ہیں‘ تو درست دکھائی دینے والا عمل بھی غلط انجام پر منتج ہوتا ہے۔ انتخابات کا انعقاد درست سمت میں ایک قدم ہے لیکن جب کسی سماج کی تشکیل جمہوری نہیں ہوتی تو اس میں انتخابات انتشار‘ جمہوریت‘ پاپولزم اور قیادت شخصیت پرستی میں بدل جا تے ہیں۔ سیاسیات کے علما کے ہاں یہ سوال زیرِ بحث رہتا ہے کہ جمہوریت ہر معاشرے میں ایک جیسے نتائج کیوں نہیں دیتی؟ اس سوال کا جواب یہی ہے۔ جب تک سماج کا مزاج جمہوری نہیں بنتا‘ انتخابات کے نتائج عدم استحکام ہی کا باعث بنیں گے۔جمہوری سماج کی پہلی پہچان یہ ہے کہ اس میں اختلافِ رائے کو بطور قدر قبول کیا جاتا ہے۔ سماج کو حق و باطل کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے معاشروں میں دوسروں کی رائے اور مؤقف کا احترام کیا جاتا ہے۔ انتخابات میں درجہ حرارت کا بڑھ جانا وقتی عمل کے طور پر گوارا کیا جاتا ہے‘ اسے مستقل رویہ نہیں بنایا جاتا۔ ہم اس معیار پر پورا نہیں اترتے۔ سیاسی شعور روایتی تعلیم سے نہیں آتا۔ اس کی آبیاری ایک سماج کا نظامِ اقدار کرتا ہے۔ منظم معاشروں میں روایتی تعلیم کا نظام بھی نظامِ اقدار سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں دونوں باتیں نہیں ہیں۔ اس لیے یہاں مطلوبہ نتائج بھی حاصل نہیں ہوتے۔
نظامِ اقدار کی اصلاح ایک طویل عمل ہے اور اقتدار کی سیاست فوری حل چاہتی ہے۔ حکومت سازی کا عمل زیادہ مؤخر نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں موجودہ حالات ہی میں کوئی فیصلہ کرنا ہے۔ اس وقت دو صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ تحریکِ انصاف سے منسوب گروہ حکومت بنائے۔ آزاد ارکان اگر سب کے سب تحریکِ انصاف میں شامل ہو جائیں تو بھی‘ اسے حکومت بنانے کے لیے (ن) لیگ یا پیپلز پارٹی کی حمایت چاہیے۔ اس کے تصورِ سیاست میں 'چوروں‘ کو پارٹی میں شامل کیا جا سکتا ہے مگر ان سے اتحاد نہیں ہو سکتا۔ اس لیے یہ ممکن نہیں ہو گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ مل جائیں۔ اس وقت یہی امکان دکھائی دے رہا ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر بھی سیاسی استحکام دو باتوں سے مشروط رہے گا۔ ایک پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کا نباہ۔ دوسری شرط ہے تحریکِ انصاف کا سیاسی طرزِ عمل۔ اگر یہ دونوں جماعتیں مل کر عوام کو ایک بہتر مستقبل کی بشارت نہیں دے سکتیں اور تحریکِ انصاف احتجاج کا راستہ اپناتی ہے تو عدم استحکام کی تلوار اس نظام کے سر پر لٹکتی رہے گا۔ عمران خان صاحب کے سیاسی ماضی اور مزاج کو سامنے رکھیں تو اُن کا انتخاب احتجاجی سیاست ہی ہو گی۔ اسی طرح پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے مشترکہ دورِ اقتدار کو پیشِ نظر رکھیں تو بھی بشارتوں کا امکان کم ہے الّا یہ کہ دونوں اپنے گروہی سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر عوام کی خدمت میں جت جائیں۔ ایسی کایا کلپ‘ سیاست میں کم ہی ہوتی ہے۔ آج انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج‘ صرف تحریکِ انصاف نہیں کر رہی‘ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی بھی سراپا احتجاج ہیں: 'اک ہجومِ غم و کلفت ہے‘ خدا خیر کرے‘۔
گویا‘ اقتدار کی سیاست کا اونٹ جس کروٹ بیٹھے گا‘ مضطرب ہی رہے گا۔ اس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ اسی لیے میرا تجزیہ یہ ہے کہ ریاست کا موجودہ ریاستی بندوبست ملک کو سیاسی استحکام دینے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ یہ بندوبست برسوں سے انہی خطوط پر استوار ہے۔ پامال راستوں پر سفر جاری ہے۔ منزل اور راستہ وہی ہے‘ صرف مسافر بدل جاتے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں ریاستی بندوبست ہے‘ انہیں ایک نئی سوچ کی ضرورت ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ان کے حلقے میں‘ اس ضرورت کا احساس نہیں ہے۔
رہنماؤں کو نہیں خود بھی پتا رستے کا
راہ رو پیکرِ حیرت ہے‘ خدا خیر کرے