سیاسیات کا سنجیدہ طالب علم خود کو واقعات تک محدود نہیں رکھ سکتا۔ واقعات کے پس پردہ جھانکنا اس کی مجبوری ہے۔ یہی بات اسے ایک عامی سے ممتاز کرتی ہے جو واقعات کے پس منظر یا پیش منظر کو اہم نہیں سمجھتا۔
سیاسی نظریات (Political Theories) اسی طرح بنتے اور بگڑتے ہیں۔ بعض اوقات ایک بات بطور اصول طے ہوتی ہے مگر وہ ایک خاص سیاق و سباق ہی میں نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔ مغرب میں نظامِ ریاست و سیاست کی تفہیم کا عمل صدیوں سے جاری ہے۔ افلاطون اور ارسطو جیسے عالی دماغ ان موضوعات پر اس وقت کلام کر رہے تھے جب عالمِ انسانیت فی الجملہ قبائلی معاشرت کے عہد میں جی رہی تھی۔ یہ سفر تادمِ تحریر جا ری ہے۔ مغرب کے اہلِ علم ہر نئے واقعے کو قائم شدہ سیاسی نظریات کی روشنی میں سمجھتے ہیں۔ سمجھ نہ آئے تو سیاسی نظریے پر سوال اٹھا دیتے ہیں۔ اس میں علمی دیانت کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ اپنی غلطی کا بر ملا اعتراف کرتے ہیں۔
فوکو یاما ہمارے دور کے سیاسی مفکر ہیں۔ انہوں نے تصور پیش کیا کہ مغرب کا سرمایہ دارانہ لبرل جمہوری معاشرہ انسان کے فکری ارتقا کا آخری مرحلہ ہے۔ یہ ہیگل کے فلسفے کی گویا آخری اطلاقی صورت تھی جس کے مطابق ہر 'دعویٰ‘ ایک جوابی دعوے میں بدلتا‘ پھر ان کے ملن سے ایک نیا امتزاجی دعویٰ وجود میں آتا اور وہ ایک وقت کے بعد خود ایک 'دعویٰ‘ بن جا تا ہے۔ فوکویا ما کا خیال تھا کہ موجودہ 'دعویٰ‘ حتمی ہے۔ کتاب کی اشاعت کے کچھ عرصہ بعد‘ فوکو یاما کو یہ احساس ہوا کہ ان کی یہ تعبیر درست نہیں۔ انسانی ارتقا کا سفر ابھی تمام نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنی بات سے رجوع کر لیا۔
ایسا کیوں ہوا؟ فوکو یاما نے خود کو محض واقعات تک محدود نہیں رکھا بلکہ ہر واقعے کو سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا کہ وہ کیوں وقوع پذیر ہوا۔ انہیں جب یہ واقعات قائم شدہ نظریے کے مطابق قابلِ توجیہ دکھائی نہیں دیے تو اپنے مقدمات پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ سیاسی نظریات میں اسی طرح ارتقا ہوتا ہے۔ اگر مغرب کے اہلِ علم واقعات کے ظاہر سے باہر نکل کر ان کے باطن میں نہ جھانکتے تو ان کے ہاں سیاسی نظریات کی اتنی توانا روایت قائم نہ ہوتی۔
اس کے بالمقابل مسلمانوں میں سیاسی نظریے کی کوئی روایت موجود نہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہوئی کہ ہمارے ہاں سیاسی اداروں کی ایک مذہبی توجیہ کی گئی۔ مذہب چونکہ چند مستقل بالذات مقدمات پر کھڑا ہوتا ہے‘ اس لیے مسلمانوں میں قائم ہو نے والے سیاسی اداروں کو بھی یہی حیثیت دے دی گئی۔ یہ ادارے دو ہیں: خلافت اور امامت۔ چونکہ انہیں مذہبی تقدس حاصل ہو گیا‘ اس لیے اس سوال پر کسی نے غور ہی نہیں کیا کہ خلافت ملوکیت میں کیوں تبدیل ہوئی اور امامت کیوں امرِ واقعہ نہ بن سکی؟ جس نے یہ کوشش کی‘ اسے اپنوں ہی نے قبول کر نے سے انکار کر دیا۔ ابن خلدون نے اس عمل کو عمرانی حوالے سے سمجھنا چاہا۔ ہمارے علمی ذخیرے میں اب صرف 'مقدمہ ابن خلدون‘ ہے جسے سیاسی و عمرانی نظریات کے حوالے سے دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔
مسلم دنیا میں ہونے والے جمہوری تجربات کو سامنے رکھیے تو صرف انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور ایک حد تک ترکیہ میں ان تجربات کو کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان‘ ایران اور بنگلہ دیش میں صورتِ حال مختلف ہے۔ نتائج میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر ہر جگہ ایک مقامی ماڈل متعارف کرایا گیا۔ یہ ماڈل جہاں لبرل ڈیموکریسی سے قریب تر تھے وہاں جمہوریت سیاسی استحکام کا باعث بنی۔ جیسے انڈونیشیا! وہاں شخصی سطح پر مذہبی‘ سیاسی اور سماجی آزادی کو بطور قدر مستحکم کیا گیا ہے اور اس میں ریاست کے ساتھ مذہبی جماعتوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔
جہاں جمہوریت کو مقامی گروہی مفادات سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش ہوئی‘ وہاں بھی یہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔ جیسے ایران! وہاں علما کے ادارے شورائے نگہبان کو عوام کی رائے پر حاکم بنایا گیا ہے۔ اس سے عوام کی حاکمیت باقی نہ رہی۔ پاکستان میں جمہوریت کو ایک مخصوص ریاستی ادارے سے ہم آہنگ رکھنے کی سعی کی گئی جو بے ثمر ثابت ہوئی۔ ترکیہ میں ابھی تک جمہوریت ویسٹرن ڈیموکریسی ہی کی ایک شکل ہے۔ صدر طیب اردوان نے اس میں اپنے نظریات کو شامل کر نے کی کوشش کی مگر زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ ترکیہ میں شخصی آزادی کی وہی صورت ہے جو کسی مغربی ملک میں ہو سکتی ہے۔
جمہوری کلچر کے بغیر جب ہم جمہوریت سے نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس سے دو طرح کے تضادات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ جمہوریت کسی ایک موجود ڈھانچے کو قبول نہیں کرتی جو اس کے بنیادی تصور سے ہم آہنگ نہ ہو۔ جیسے جمہوریت میں پاپائیت کا پیوند نہیں لگ سکتا۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے 'اسلامی جمہوریت‘ کو 'تھیو ڈیموکریسی‘ (Theo-Democracy) کا نام دیا تھا۔ ان کے پیشِ نظر تو مسلم سماج کی اقدار تھیں‘ کسی خاص طبقے کی حکمرانی نہیں مگر عملاً مسلم معاشروں میں جب جمہوریت کی بات ہوئی تو اس سے مراد مذہبی طبقے کی حکمرانی ہی لی گئی۔ دوسرا تضاد عوامی سطح پر سامنے آیا جہاں جمہوریت شخصیت پرستی یا پاپولزم میں ڈھل گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمہوری عمل حق و باطل کا معرکہ بن گیا درآں حالیکہ جمہوریت اختلافِ رائے کے احترام کا نام تھا۔
میں اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ پاکستان میں جمہوریت کی کامیابی‘ چند بنیادی مقدمات سے مشروط ہے۔ جب تک معاشرتی سطح پر کچھ تبدیلیاں نہیں آ جاتیں‘ انتخابات وہ نتائج نہیں دے سکتے جو جمہوریت سے منسوب ہیں۔ اس میں سب سے اہم سیاسی جماعتوں کا ہونا ہے۔ پاکستان میں حقیقی معنوں میں کوئی سیاسی جماعت موجود نہیں۔ دوسرا ریاستی اداروں کا اقتدار کی سیاست سے لاتعلق ہونا ہے۔ فی الحال اس کا بھی کوئی امکان نہیں۔ انتخابی نتائج نے سیاسی جماعتوں کو مزید کمزور کیا ہے اور اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری خود ان کی قیادت پر ہے۔
پاکستان میں چونکہ واقعات کو ایک وسیع تر تناظر میں سمجھنے کی مشق نہیں ہوتی‘ اس لیے سیاسی نظریات تو دور کی بات‘ درست تجزیہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لوگ اپنے مفروضے کو حق سمجھتے اور پھر اسے قبول کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یا ایک ریاستی ادارے سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ و ہ بیک جنبشِ قلم سیاسی معاملات سے لاتعلق ہو جائے۔ ماضی میں اس کی جوکوشش ہوئی ناکام ثابت ہوئی۔ آخر اس کی کوئی وجہ ہو گی۔ اس کا کہیں تجزیہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ بھی ایک بے معنی بات ہے کہ پاکستانی قوم آج ایک جماعت کے ساتھ کھڑی ہے۔ ایک منقسم مینڈیٹ ہے اور وہ سب کے سامنے ہے۔ گیلپ سروے کے مطابق 8 فروری کو ہونے والے انتخابی عمل کو 87 فیصد افراد نے شفاف اور باعثِ اطمینان قرار دیا۔
سیاسی عمل کی پیچیدگی کو جب فلسفے اور سماجی علوم کی سطح پر سمجھا جاتا ہے تو اس سے سیاسی نظریات وجود میں آتے ہیں۔ صحافیانہ سطح پر درست تجزیہ ممکن ہوتا ہے اور عوامی سطح پر‘ سیاست کی بہتر تفہیم پیدا ہوتی ہے جس کا نتیجہ سیاسی شعور کی بیداری ہے۔ میں جس حد تک انتخابی نتائج کو دیکھ سکا‘ مجیب الرحمن شامی صاحب اور سہیل وڑائچ صاحب جیسے دو چار تجزیہ کار ہی تھے جو انتخابی عمل کو ایک وسیع تر تاریخی اور سیاسی پسِ منظر کے ساتھ سمجھ اور سمجھا رہے تھے۔
جمہوریت کو اگر منزل تک پہنچنا ہے تواسے نیا راستہ اختیار کرنا ہے۔ ابھی تو پرانی روش پر پیش قدمی جاری ہے۔