لاہور کا واقعہ مجھ جیسوں کے لیے زیادہ تشویش کا باعث ہے جو مذہب کو خیر کی ایک قوت سمجھتے ہیں۔ ہمارے مذہبی راہ نماؤں اور علما کو اب سوچنا ہو گا کہ پانی سر سے گزرتا جا رہا ہے۔ اس ملک میں مذہب کا مستقبل ان کے ہاتھ میں ہے۔
گزارش ہے کہ یورپ میں مسیحیت کی تاریخ پر ایک بار پھر نظر ڈال لی جائے‘ جہاں عوام کے جان و مال پر اہلِ کلیسا کو تمام تر قدرت حاصل تھی۔ کیا سبب ہوا کہ وہاں مسیحیت اجنبی ہو گئی؟ اُس کو اپنی بقا کے لیے کلیسا کی چار دیواری میں عمر قید قبول کرنا پڑی؟ جہاں عوام اُن کی عدالت میں پیش ہوتے اور ان کے مقدر کے فیصلے ہوتے تھے‘ وہاں وہ دن آیا کہ اہلِ کلیسا عوام کی عدالت میں کھڑے‘ ان سے معافی کی درخواست کر رہے تھے؟ تاریخ کے اوراق میں اس داستان کا ایک ایک باب محفوظ ہے۔
ہے تو تحصیلِ لاحاصل لیکن دہرا دیتا ہوں کہ شایدکسی کے ذہن سے یہ تاریخ محو ہو گئی ہو۔ یہ اہلِ کلیسا کا رویہ تھا جس نے مذہب کو ایک مشقت میں بدل دیا تھا‘ جو رحمت تھا‘ اسے زحمت بنا دیا۔ مذہب کی موجودگی میں عقل کی بات کی جا سکتی تھی نہ تہذیب کی۔ اہلِ کلیسا نے خدا کی مسند سنبھال لی تھی۔ انسانوں کی زندگی اور موت کے معاملات‘ جو خدا کے ہاتھ میں ہیں‘ اہلِ کلیسا نے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ پھر وہ وقت آیا کہ انسانوں کی قوتِ برداشت جواب دے گئی۔ مارٹن لوتھر نے تو اہلِ کلیسا کے خلاف احتجاج کیا‘ عوام نے اسے مذہب کے خلاف احتجاج میں بدل دیا۔ یورپ کی تاریخ کا حاصل یہ ہے کہ ایک معاشرے میں مذہب کا انحصار اہلِ مذہب کے رویے پر ہے۔ وہ چاہیں تو لوگ مذہب سے محبت کرنے لگیں گے‘ وہ چاہیں تو لوگ مذہب سے دور بھاگنے لگیں گے۔
اسی لیے عرض ہے کہ ہمارے ملک میں مذہب کا مقدر اہلِ مذہب کے رویے سے جڑا ہوا ہے۔ مذہب کا دعویٰ‘ اس کا عقلی استدلال‘ اس کا انسانوں کے لیے باعثِ خیر ہونا‘ یہ تمام مقدمات‘ اگر اہلِ علم کے کسی فورم پر زیرِ بحث آئیں تو ان کو ثابت کرنا ممکن ہے۔ عام آدمی کو مگر ایسے فورمز کے نتائج سے کوئی سروکار نہیں۔ اس کو تو اس بات سے دلچسپی ہے کہ مذہب نے اس کے لیے زندگی کو آسان بنایا ہے یا مشکل؟ وہ اس کے لیے امن کا پیغام ہے یا خوف کا؟ مذہب اسے اطمینان دیتا ہے یا بے سکونی؟ عبادت گاہیں جائے سکون ہیں یا بے اطمینانی کا گھر۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی‘ برصغیر کے نامور عالم مولانا منظور نعمانی کے صاحب زادے تھے۔ زندگی کا بڑا حصہ برطانیہ میں بسر کیا۔ ایک مرتبہ لکھا کہ جو سکون وہاں کی مساجد میں نماز پڑھ کر ملتا ہے‘ ہندوستان کی مسجد میں نصیب نہیں ہوا۔ پاکستان اور ہندوستان کی مسلم معاشرت کم و بیش ایک جیسی ہے۔ مولانا کا یہ تاثر کیا ہمیں کچھ سوچنے پر آمادہ کرتا ہے؟
پاکستان کے مذہبی طبقات میں بہت سے لوگ ہیں جنہیں اس معاملے کی حساسیت کا ادراک ہے یا جن کی بصیرت پر اعتبار کرتے ہوئے‘ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس موضوع پر سوچا ہو گا۔ یہ امرِ واقعہ ہے کہ ہمارے مسلم سماج کی تشکیل مسلکی ہے۔ ایک دیوبندی کی نظر میں کسی بریلوی عالم کی بات وہ اہمیت نہیں رکھتی جو مفتی تقی عثمانی صاحب کا فرمان رکھتا ہے۔ اسی طرح ایک بریلوی مسلمان کے لیے مفتی منیب الرحمن صاحب کی بات‘ مفتی تقی عثمانی صاحب کے مقابلے میں زیادہ وزن رکھتی ہے۔ علیٰ ھذا القیاس۔ اس لیے اُن علما کو زیادہ سوچنا ہو گا‘ لوگ جن کو مرجع تقلید مانتے ہیں۔
یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ انتہا پسندانہ یا غیر ذمہ دارانہ رویے اب کسی ایک مسلک کے ساتھ خاص نہیں رہے۔ اس معاملے میں اب پوری طرح مساوات قائم ہو چکی ہے۔ اس لیے سب ممالک کے علما کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقے کو اس جانب متوجہ کریں کہ ان میں سے بعض کا رویہ دین کے بارے میں ایک منفی تاثر قائم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگ دین سے دور جا رہے ہیں۔ لاہور کا واقعہ اس حوالے سے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔
یہ واقعہ کئی پہلوؤں سے ہمارے محترم علما کی توجہ چاہتا ہے۔ مثال کے طور پر:
1۔ عام آدمی کو اس باب میں تعلیم کی ضرورت ہے کہ عربی زبان میں لکھی گئی ہر بات دین نہیں ہے۔ وہ اس بات کا استحقاق نہیں رکھتا کہ گلی یا بازار میں لوگوں کے طرزِ عمل کو مذہبی پیمانے پر جانچے اور اس سے بڑھ کر اقدام پر آمادہ ہو جائے۔ لوگوں میں خوف پیدا کرنا فساد فی الارض ہے اور عالم کے پروردگار کی نظر میں یہ قتل سے بڑا جرم ہے۔ اسے اگر کوئی اندیشہ ہے تو ان علما سے رجوع کرے جن کا علم مسلمہ ہے۔ عام آدمی کی ذمہ داری بس اتنی ہے۔
2۔ معاملہ جب علما کے پاس آئے تو وہ اس کا جائزہ لیں۔ اگر معاملہ ایسا ہے جس پر سماج کو انذار کی ضرورت ہے تو وہ اسے خطبہ جمعہ کا موضوع بنائیں یا ابلاغ کے کسی ذریعے کو استعمال کرتے ہوئے‘ عوام کو اس جانب متوجہ کریں۔ اگر اس کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ قانون کی گرفت میں آنا چاہیے تو وہ قانون نافذ کر نے والے اداروں کو اس جانب متوجہ کریں۔ علما کی ذمہ داری بس یہیں تک ہے۔
3۔ دینی مدارس کے نظام میں 'ابلاغِ دین‘ کا مضمون شامل کیا جائے تاکہ ایک عالم تعلیم سے فراغت کے بعد جب سماج سے براہِ راست مخاطب ہو تو اسے معلوم ہو کہ اسے لوگوں کو دین سے متنفر نہیں کرنا‘ انہیں قریب لانا ہے۔ لاہور جیسے واقعات دین سے محبت نہیں‘ اس کا خوف پیدا کرتے ہیں۔ انہیں کلچر اور مذہب کا فرق بھی معلوم ہونا چاہیے۔ اس کے لیے سماج کی بُنت اور دین کی حقیقت کو سمجھنا از بس لازم ہے۔ انہیں یہ بات بطورِ خاص پڑھائی جائے کہ قدیم مذاہب بالخصوص یہود میں ان کے علما کا کیا رویہ تھا جس پر حضرت مسیحؑ نے تنقید کی اور یورپ میں مسیحیت کا دائرہ کیوں محدود ہوا اور اس حوالے سے اہلِ کلیسا کا کردار کیا تھا۔
مجھے اس باب میں کبھی شبہ نہیں ہوا کہ اللہ کا دین جوہری طور پر خیر کی قوت ہے۔ انبیاء کرام کی انسانوں کے ساتھ محبت اور خیر خواہی اگر لوگوں پر واضح ہو جائے تو پھر انسانیت کے ان محسنین کے ساتھ محبت اور عقیدت کے علاوہ کوئی تعلق قائم کرنا ممکن نہیں۔ اس کے لیے عوام کو خوف سے باہر نکالنا ضروری ہے۔ جو لوگ عوام کے دلوں میں دین کا خوف بٹھا رہے ہیں‘ وہ انہیں دین سے دور کر رہے ہیں۔
مجھے اس ملک میں دین کے مستقبل کے بارے میں تشویش ہے۔ دین بیزاری کی لہر میں تیزی آتی جا رہی ہے اور اس کا سبب دین ہرگز نہیں۔ یہ مذہبی لوگوں کے رویے ہیں‘ لوگ جن سے دین اخذ کرتے اور ان کے اعمال کے لیے دین کو ذمہ دار ٹھیرانے لگتے ہیں۔ محض کتابیں یا علمی مباحث دین بیزاری کی اس لہر پر قابو نہیں پا سکتے۔ ہم مذہبی لوگوں کو اس بارے میں خبردار رہنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے رویے لو گوں کو دین سے دور رکھنے کا باعث نہ بنیں۔ دعوتِ دین کی ایک حکمت ہے جسے قرآنِ مجید نے بیان کیا ہے۔ جو انبیاء کرام کی سیرت سے کشید کی جا سکتی ہے اور جسے اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے اپنے اسوۂ حسنہ سے واضح فرما دیا ہے۔ صحابہ نے اس پر عمل کرکے دکھایا ہے۔ ہمیں اس کی طرف لوٹنا ہو گا اور اس میں خوف نہیں‘محبت ہے۔ جبر نہیں‘ دعوت ہے۔