'سیاسی شعور‘ کیا شعور کا کوئی ذیلی شعبہ ہے جو اس کے کلی وجود سے مختلف اور اس سے بے نیاز ہے؟
بالفاظِ دیگر کیا یہ ممکن ہے کہ ایک فرد دیگر شعبہ ہائے حیات میں تو باشعور ہونے کا کوئی ثبوت نہ دے سکے مگر سیاسی معاملات میں باشعور ہو جائے؟ اس سوال میں 'سیاسی معاملات ‘ کو 'سماجی معاملات‘ سے بدل کر بھی اس سوال کاجواب تلاش کیا جا سکتا ہے۔ دونوں کا حاصل ایک ہی سوال ہے: شعور کو کیا خانوں میں بانٹا جا سکتا ہے؟ یہ سوال اصلاً نفسیات سے متعلق ہے۔ نفسیات انفرادی ہوتی ہے اور اجتماعی بھی۔ اجتماعی نفسیات کو ہم سماجی نفسیات بھی کہہ سکتے ہیں۔
اس مسئلے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیے۔ شعور‘ ہم جانتے ہیں کہ ایک ارتقائی عمل ہے۔ فرد اور معاشرہ دونوں کا شعور ہمیشہ ایک نہیں رہتا۔ شعور میں تبدیلی کئی عوامل پر منحصر ہے۔ جیسے جیسے فرد اور سماج کے علم میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے‘ اس پر زندگی کے نئے اُفق کھلتے چلے جاتے ہیں۔ علم میں یہ اضافہ انسان کے طے شدہ خیالات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرح اس کے فکری نتائج بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اس کا بدیہی نتیجہ یہ ہے کہ اگر علم میں اضافے کے شواہد موجود نہ ہوں تو انسانی سوچ یا رویے میں آنے والی تبدیلی کو شعوری قرار دینا مشکل ہے۔
میں اس بات کو یوں بیان کر سکتا ہوں کہ ایک شخص برسوں سے ظلم برداشت کر رہا ہے۔ ایک وقت مگر ایسا آتا ہے کہ وہ بغاوت پر اُتر آتا ہے۔ یہ بغاوت لازم نہیں کہ کسی شعوری تبدیلی کا نتیجہ ہو۔ یہ ممکن ہے کہ ظلم اتنا بڑھ گیا ہو کہ جبلی طور پر اسے برداشت کرنا اس کے لیے ناممکن ہو گیا ہو اور اس کی شدت نے اسے ردِعمل پر مجبور کر دیا ہو۔ اس سطح کی تبدیلی جانوروں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ کتے‘ بلیوں کو بھی زیادہ تنگ کیا جائے تو جواباً غرانے لگتے ہیں۔ اسے ہم شعوری تبدیلی اس لیے نہیں کہیں گے کہ یہ علم میں کسی اضافے کا نتیجہ نہیں۔ ایسا نہیں کہ بلی کے مطالعے میں کچھ نئے حقائق آئے ہوں اور اس نئی دریافت نے اس کی سوچ کو بدل ڈالا ہو اور وہ غرانے لگی ہو۔
سوچ میں جو تبدیلی علم میں اضافے کے سبب آتی ہے‘ وہ زندگی کے بارے میں انسان کے مجموعی تصور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ علم صرف کتابی نہیں ہوتا۔ یہ مشاہداتی اور تجرباتی بھی ہوتا ہے۔ علم سے تصورِ حیات بدل جاتا ہے۔ زندگی کے بارے میں زاویہ ہائے نظر تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ سیاست کے معاملے میں تو ایک فرد کی سوچ تبدیل ہو جائے اور سماجی معاملات میں وہی رہے جو پہلے تھی۔ شعوری تبدیلی کُلی ہوتی ہے‘ جزوی نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک فرد سیاسی معاملے میں تو باشعور ہو جائے اور مذہبی یا اخلاقی معاملات میں بے شعور رہے۔ مشاہدہ مگر یہ ہے کہ انسانی سماج میں کسی ایک حوالے سے تحریکیں اُٹھتی رہتی ہیں۔ جیسے سیاسی تحریک یا سماجی تحریک۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک انسان کی کلی شخصیت تو پرانی رہتی ہے اور کسی ایک زاویے سے 'نئی‘ ہو جاتی ہے؟
ایسی جزوی تبدیلی کا کوئی تعلق شعور کے ساتھ نہیں ہوتا۔ اس کے تمام تر اسباب جبلی ہیں۔ جیسے مایوسی حد سے بڑھ جائے تو تنکے کا سہارا بھی بہت محسوس ہوتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ سادہ (over simplified) حل کے مقبول ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ جھوٹی تسلی سے دل کو بہلانا چاہتے ہیں۔ آسان حل عام طور پر زیادہ مرغوب ہوتا ہے۔ لوگ جعلی پیروں کے کیوں اسیر ہوتے ہیں؟ دیکھتے ہی دیکھتے چند برسوں میں ایک پیر مقبول ہوتا اور اس کے آستانے پر ہجوم جمع ہو جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ لوگ کینسر کا علاج ایک پھونک سے کرانا چاہتے ہیں۔
ایسے ہی ایک پیر صاحب جن کو ایک ٹی وی چینل کے میزبان نے بے نقاب کیا‘ چند ماہ پہلے برطانیہ گئے۔ مجھے ایک اور بزرگ نے بتایا‘ جن کے عقیدت مندوں کا ایک بڑا حلقہ برطانیہ میں موجود ہے اور جو خود کو خرافات سے دور رکھتے ہیں‘ کہ ان صاحب کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی پچاس ہزار افراد ان سے ملاقات کے لیے رجسٹریشن کرا چکے تھے۔ ان کے فراڈ ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں‘ اس کے باوجود برطانیہ جیسے معاشرے میں لوگ شفا کے لیے ان کے منتظر تھے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ لوگ سادہ حل چاہتے ہیں۔ اب جو اس کمزوری کو جتنی کامیابی سے استعمال کر سکتا ہے‘ وہ اتنا ہی مقبول ہوتا ہے۔ کیا ہم نے گوہر شاہی جیسے لوگوں کے گرد لاکھوں کا مجمع نہیں دیکھا؟ ان جیسوں کے حلقۂ اثر میں ڈاکٹرز‘ انجینئرز سمیت پڑھا لکھا ہونے کی شہرت رکھنے والے ہر طبقے کے لوگ ہوتے ہیں۔ کلٹ اسی طرح وجود میں آتے ہیں۔ اب ایسی انسانی کمزوری کو سیاست میں استعمال کیا جائے اور کوئی اسے شعوری تبدیلی قرار دے تو اس کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
شعوری تبدیلی ایک کُلی عمل ہے۔ یہ جب آتی ہے تو زندگی کے بارے میں فرد یا سماج کے تمام تر تصورات کو بدل دیتی ہے۔ ماضی قریب میں یہ تبدیلی یورپ میں آئی۔ اس نے سیاست سے لے کر سماج تک‘ ہر شعبۂ زندگی کو بدل ڈالا۔ جس نے سیاست میں جمہوریت کو اپنایا‘ اس نے ساتھ ہی کلیسا کے سیاسی کردار کی بھی نفی کی۔ اس نے مرد اور عورت کے مابین فرق کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ اس نے مذہب اور سائنس کے اختلاف میں اپنا وزن سائنس کے پلڑے میں ڈالا۔ اسے شعوری تبدیلی کہتے ہیں۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی جمہوریت کو قبول کرے اور ساتھ مرد اور عورت میں امتیاز کرے۔ مسیحی اور غیرمسیحی میں فرق کرے۔
تاریخ کے وسیع تر تناظر میں دیکھیے تو انبیاء کی لائی ہوئی تبدیلی بھی شعوری ہوتی ہے۔ جو لوگ انبیاء پر ایمان لاتے ہیں‘ ان کا تصورِ حیات یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ ماضی کی صرف اسی روایت کو باقی رکھتے ہیں‘ مذہب جس کی اجازت دیتا ہے۔ یہ تبدیلی ہمہ جہتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک فرد ذاتی زندگی میں خوفِ خدا رکھنے والا ہو اور جب اسے اجتماعی زندگی میں کوئی ذمہ داری سونپی جائے تو اس سے بے نیاز ہو جائے۔
گزشتہ عرصے میں ہم نے لوگوں کی سیاسی وابستگی کو تبدیل ہوتے دیکھا۔ بہت سے خواتین و حضرات ایسے ہوں گے ہم جنہیں براہِ راست جانتے ہیں۔ ہم اپنے مشاہدے سے اس سوال کا جواب تلاش کر سکتے ہیں کہ اس 'شعوری تبدیلی‘ سے پہلے اور بعد‘ ان کے مذہبی افکار یا سماجی رویے میں کوئی تبدیلی آئی‘ اس کے سوا کہ وہ پہلے سے زیادہ منہ پھٹ ہو گئے ہیں؟ مجھے پورا یقین ہے کہ کسی کو کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی ہو گی۔ ہم بہت سے افراد کو دیکھتے ہیں کہ وہ چند ظواہر کے ساتھ ایک مذہبی تشخص اختیار کر لیتے ہیں لیکن زندگی کے بارے میں ان کے عمومی طرزِ عمل میں کوئی فرق نہیں آتا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ہمارا تبصرہ یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے مذہب کو شعوری سطح پر نہیں اپنایا۔ ایسا ہوتا تو صرف ان کا ظاہر تبدیل نہ ہوتا‘ زندگی کے بارے میں رویہ ہی بدل جاتا۔
شعوری تبدیلی نہ صرف ہمہ گیر ہوتی ہے بلکہ وہ کبھی سیاست کے راستے نہیں آتی۔ اگر کسی کو ایسی تبدیلی سے دلچسپی ہے تو اسے 'شعوری تبدیلی‘ کے سطحی خیالات سے نکل کر انفرادی اور اجتماعی نفسیات کو سمجھنا ہو گا۔ اس کے ساتھ دنیا میں آنے والی اُن تبدیلیوں کا مطالعہ کرنا ہو گا جو صحیح معنوں میں 'شعوری‘ تبدیلیاں تھیں۔