شعوری تبدیلی کیسے آتی ہے؟ سیاسی جدوجہد سے؟ فکری تربیت سے؟ سماجی تحریک سے؟
پہلی بات: سماج مسلسل حرکت میں رہتا ہے۔ یہ حرکت ہمہ جہتی ہے۔ سیاست‘ معیشت اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کو منظم کر نے کے لیے اچھے برُے ادارے موجود ہوتے ہیں جو متحرک رہتے ہیں۔ ہم اس عمل کو روک سکتے ہیں نہ ان کے حرکت سے غیر متعلق رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا اس عمومی سرگرمی میں ہمیں شریک ہونا ہے۔ اسے وقت کا جبر کہنا چاہیے۔ تاہم یہ بات واضح رہے کہ ان عمومی سرگرمیوں میں شرکت‘ وہ کتنی اچھی نیت اور سوچ کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو‘ کسی بڑی اور ہمہ گیر تبدیلی کا سبب نہیں بن سکتی۔
ہم ایک محلے میں رہتے ہیں جہاں ایک مسجد قائم ہے۔ اس مسجد کی ایک عمارت ہے۔ یہاں امام مسجد کے خطیب کا تقرر ہونا ہے۔ ہم اس سرگرمی میں شریک ہوتے ہیں کیونکہ مسجد مسلم معاشرت کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ہمارے ذہن میں ایک مثالی مسجد کا تصور ہو جسے تعمیر کرنے کے لیے سماجی و مالی وسائل میسر نہ ہوں۔ اب اگر کوئی مسجد موجود ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ یہ مسجد اس خاکے کے تحت نہیں بنی جو ہمارے ذہن میں ہے تو ہم اس کی موجودگی کا انکار نہیں کر سکتے اور نہ اس وقت کا انتظار کر سکتے ہیں جب ہمارے حسبِ منشا مسجد تعمیر ہو گی۔ ہم اس مسجد کے نظام میں بہتری کے لیے انتظام میں شریک ہو جائیں گے‘ یہ جانتے ہوئے کہ یہ مسجد وہ نہیں ہے جو ہمارے ذہن میں ہے۔
میں اسی مثال کو آگے بڑھاتا ہوں۔ ہم غیر مسلکی بنیاد پر مسجد کی تعمیر چاہتے اور اسے دین اور مسلمانوں کے لیے مضر سمجھتے ہیں کہ مساجد مسلک کی بنیاد پر تعمیر ہوں۔ اس سے سماج میں مسلکی تقسیم گہری ہوتی ہے۔ اب اگر ایسی مسجد کی تعمیر کا امکان نہیں ہے جو ہمارا خواب ہے اور محلے میں کسی خاص مسلک کی مسجد موجود ہے تو ہم اس کو سب مسلم مسالک کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے‘ جو ممکن کوشش ہے‘ وہ کریں گے اور اس عمل سے لاتعلق نہیں رہیں گے۔
دوسری بات: ہم جس شعوری تبدیلی کے خواہاں ہیں‘ اس کو امرِ واقعہ بنانے کے لیے ہمیں ان عمومی سرگرمیوں میں شرکت کے ساتھ‘ ان سے ماورا سوچنا ہو گا۔ سب سے پہلے یہ واضح ہونا چاہیے کہ ہم کیا تبدیلی چاہتے ہیں۔ پھر اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیے کہ یہ تبدیلی کیسے آئے گی؟ اس کے لیے ہمیں تاریخ کا‘ سماجی علوم کا اور انسانی معاشروں کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ ہمیں کچھ بنیادی سوالات کے جواب ڈھونڈنا ہوں گے۔ مثال کے طور پر ہم جو تبدیلی چاہتے ہیں‘ مذہب اس کے لیے معاون ہے یا نہیں؟ سماجی تنظیموں اور اداروں کا اس کے لیے کیا کردار ہو گا؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس عمل کا آغاز کہاں سے ہو گا؟ کسی ایک شعبے سے یا بیک وقت سب شعبہ ہائے حیات میں کوئی حرکت پیدا کرنا ہو گی؟
تیسری بات: تبدیلی کا خواب عام طور پر مفکر دیکھتے ہیں۔ وہی اس کی حکمت عملی بھی بناتے ہیں۔ تبدیلی کی خواہش کہیں بھی پائی جا سکتی ہے مگر اس کے خدوخال کا تعین ایک ایسا ذہن ہی کر سکتا ہے جو انسان اور سماج کو سمجھتا ہو۔ جو ان سوالات کے جواب تلاش کر سکتا ہو جن کا ابھی ذکر ہوا۔ یہی نہیں‘ جو ان رجال کی بھی نشاندہی کر سکتا ہو جو تبدیلی کے اس عمل میں شریک ہو سکتے ہیں۔ ایک مفکر ہی بتا سکتا ہے کہ شعوری تبدیلی سیاسی جدوجہد سے آتی ہے یا فکری تحریک اٹھانے سے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں جو میں لکھ رہا ہوں۔ دنیا میں جو شعوری تبدیلیاں آئیں ان کی بنیاد کسی مفکر ہی نے رکھی۔ سماج کے کچھ رجالِ کار نے مفکر کی بات کو سمجھا اور اس کی بصیرت کی روشنی میں وہ تبدیلی برپا کرنے کے لیے عملی قدم اٹھایا جو مفکر نے تجویز کی۔ تار یخ میں یہ کام دو طرح سے ہوا ہے۔ ایک یہ کہ ایک مفکر کی سوچ سے سماج میں تبدیلی کی ایک منظم کوشش شروع ہوئی یا مفکرین کے ایک ہم خیال گروہ نے مشترکہ کاوشوں سے اس کا آغاز کیا۔ مذہبی تاریخ کے پہلے دور میں‘ جسے انبیا کا دور کہنا چاہیے اور جو سیدنا محمدﷺ پر تمام ہوا‘ ایک فردِ واحد ایک شعوری تبدیلی کی بنیاد بنا۔ دوسرے دور میں مفکرین کے ایک گروہ نے پیغمبر کی تعلیمات کی روشنی میں مختلف شعبہ ہائے حیات میں بہتری کی شعوری کوششیں کیں۔
یورپ میں مختلف مفکرین نے شعوری تبدیلی کی ایک تحریک برپا کی جن میں ایک فکری ہم آہنگی تھی۔ بظاہر یہ کئی تحریکیں تھیں لیکن تصورِ حیات کے حوالے سے یہ ایک ہی تحریک تھی جو نشاۃ الثانیہ‘ تحریکِ تنویر‘ تحریکِ اصلاحِ مذہب اور کئی دوسرے عنوانات کے تحت تاریخ میں محفوظ ہے۔ مسلم تاریخ میں دیکھیں تو جمال الدین افغانی‘ علامہ محمد اقبال‘ ابوالکلام آزاد‘ علامہ شبلی نعمانی اور مولانا مودودی بنیادی فکری ہم آہنگی کے ساتھ‘ مختلف شعبوں میں متحرک مگر ایک ہی تصورِ حیات کے تحت سماجی شعور بیدار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سر سید احمد خاں کو بھی شعوری تبدیلی کے لیے سرگرم اسی گروہ میں شمار کرنا چاہیے بلکہ وہ اس کے سرخیل ہیں۔ علامہ اقبال نے سر سید کی اس حیثیت کا اعتراف بھی کیا ہے۔
یہ لوگ مختلف شعبوں میں بروئے کار آتے ہیں۔ کوئی علومِ اسلامی کو نئی جہت دیتا ہے۔ کوئی سماجی علوم میں اجتہاد کرتا ہے۔ کوئی ابلاغیات کی سطح پر شعوری بیداری کا ذمہ اٹھاتا ہے۔ ان سب کی مشترکہ کاوشوں کا حاصل شعوری بیداری ہوتا ہے۔ میں یہاں شعوری بیداری کو مطلق مفہوم میں لے رہا ہوں۔ شعوری تبدیلی کسی کی نظر میں اچھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔ دونوں صورتوں میں تبدیلی کی حکمتِ عملی یہی ہو گی۔
چوتھی بات: شعوری تبدیلی‘ فکری سطح سے شروع ہوتی ہے۔ اسی لیے اسے شعوری کہتے ہیں۔ زندگی کے بارے میں ایک تصور (Worldview) اس کی بنیاد بنتا ہے اور اس کے بعد وہ اصلاحات تجویز کی جاتی ہیں جو اس تصورِ حیات کے تحت مختلف شعبہ ہائے حیات میں لائی جانی چاہئیں۔ گویا سب سے پہلے ایک فکری تحریک اٹھتی ہے جو سوچ کے ڈھانچے کو تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ تصورِ حیات ہمہ گیر ہوتا اور زندگی کو ایک وحدت کے طور پر دیکھتا ہے۔
پانچویں بات: جب کسی مربوط فکر یا تصورِ حیات کے بغیر‘ کسی ایک شعبے میں اصلاح کی کوئی تحریک اٹھتی ہے تو اس کے نتائج بھی نکلتے ہیں مگر یہ محدود ہوتے ہیں اور سماج میں بحیثیت مجموعی کوئی تبدیلی نہیں لاتے۔ تبلیغی جماعت اور اصلاحِ رسوم جیسی بے شمار قابلِ قدر کاوشوں کو اس ضمن میں پیش کیا جا سکتا ہے جو اخلاص اور تسلسل کے باجود سماجی سطح پر شعوری تبدیلی لانے میں ناکام رہیں۔
پاکستان میں فکری بحران گمبھیر ہوتا جا رہا ہے۔ پراگندگیٔ فکر ہے اور اخلاقی بحران اس کا ایک نتیجہ ہے۔ سماج کے اندر اس حوالے سے کوئی منظم کوشش نہیں ہو رہی؛ اگرچہ غیر منظم تحریکیں (Non Movements) موجود ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ کسی وقت وہ کسی منظم فکری تحریک میں ڈھل جائیں لیکن سرِ دست مجھے اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ جو لوگ سیاست کو تبدیلی کا آلہ سمجھتے ہیں‘ ان کا انجام ناکامی ہے۔ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہیجان شعوری تبدیلی کا اظہار ہے۔ 2024ء کے انتخابی نتائج نے فکری بحران میں اضافہ کیا ہے۔ اگر ہم فی الواقع کوئی شعوری تبدیلی چاہتے ہیں تو معمول کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں سے ماورا‘ ہمیں شعوری تبدیلی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ واقعہ یہ ہے کہ رفو کا کام بہت ہے اور المیہ یہ ہے کہ ہم اضطراب کو شعوری تبدیلی سمجھ رہے ہیں۔