پاکستان میں جس موضوع پر سب سے زیادہ کتب شائع ہوتی ہیں وہ 'اسلام‘ ہے۔ یہ کثرت‘ سچ پوچھیے تو اسلام کی مظلومیت کا اظہار ہے۔
مشاہدہ یہ ہے کہ جب کسی بی اے پاس کو‘ بیٹھے بٹھائے ایم اے کرنے کا خیال بے چین کرتا اور وہ اسے عملی جامہ پہنانے کا ارادہ کر لیتا ہے تو جس مضمون کی طرف‘ سب سے پہلے اس کا دھیان جاتا ہے وہ 'اسلامیات‘ ہے۔ اگر کوئی موضوعاتی سروے ہو کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ایم اے کس مضمون میں کیا جاتاہے تو مجھے یقین ہے کہ اس کا جواب 'اسلامیات‘ ہی ہو گا۔ پھر یہ بھی کہ پاکستان میں ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے والا ہر آدمی ناصح بن جاتا ہے۔ اسے نوجوانوں کی بداخلاقی اور مذہب سے دوری پریشان کرتی ہے۔ ان کی آخرت کی فکر اسے اُداس رکھتی ہے۔ وہ اُٹھتے بیٹھتے اُنہیں نصیحت کرتا ہے۔ عام طور پر ایسے لوگوں کا حلقہ چونکہ وسیع نہیں ہوتا اس لیے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جو گوہرِ نایاب ان کے ہاتھ لگا ہے‘ اس کی قدر و منزلت سے ایک عالَم کو آگاہ کریں۔ یوں وہ کتاب لکھنے کا ارادہ کرتے ہیں اور پنشن و بقایاجات کی مد میں ملنے والی رقم کا بڑا حصہ اس کارِ خیر میں خرچ کر دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ معاشرے میں اسلام کے بارے میں چونکہ معلومات کی کمی ہے‘ اس لیے وہ ایک علمی خلا کو بھر رہے ہیں۔
ہم ایک مذہبی معاشرہ ہیں۔ مذہب کا عمومی تصور مسلکی ہے۔ ہم میں شاید ہی کوئی ہو جو صرف مسلمان کی شناخت کو اپنے لیے کافی سمجھتا ہو۔ وہ بریلوی ہوتا ہے یا دیوبندی۔ شیعہ یا سنی۔ یوں مذہب کے عنوان سے شائع ہونے والی نوے فیصد مقبول کتب مسلکی ہوتی ہیں۔ شیعہ‘ شیعہ علماء کی لکھی ہوئی کتب پڑھتا ہے اور سنی‘ سنی علماء کی کتابوں سے مذہب کو سمجھتا ہے۔ تفسیر‘ حدیث‘ فقہ‘ ہر مذہبی موضوع پر مسلکی کتب سب سے زیادہ شائع ہوتیں اور فروخت بھی ہوتی ہیں۔ عام آدمی آج بھی مذہب کے حوالے سے کسی روایتی عالم کے قول ہی کو مستند سمجھتا ہے۔ وہ مذہب کو جاننے یا اس پر عمل کرنے کے لیے کسی ایسے عالم کی کتب کی طرف رجوع کرتا ہے جس کا تعلق کسی نہ کسی مسلک سے ہوتا ہے۔
صدیوں سے موجود مسالک کے ساتھ‘ کچھ ایسے اہلِ علم بھی پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے فکری کام کی بنیاد پر جماعتیں بنائیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ایک جماعتی عصبیت وجود میں آئی‘ جس نے ان کی کتب کے خریدار پیدا کیے۔ جن کی جماعت نہیں تھی‘ ان کے معاملے میں یہ رہا کہ وقیع علمی کتب کے مؤلف اور مصنف ہونے کے باوصف کوئی کتاب کو جانتا ہے نہ صاحبِ کتاب کو۔ یہ ایک الگ المیہ ہے جس کا بیان یہاں مقصود نہیں۔ یہاں صرف یہ کام ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ شائع ہونے اور پڑھی جانے والی کتب مذہبی ہیں۔ اس کے بعد آپ یہ سوال اُٹھا سکتے ہیں کہ پھر ہماری مذہبی حالت اتنی ابتر کیوں ہے؟ مذہبی علم اتنا کمزور کیوں ہے؟
ان سوالات کو ایک طرف رکھتے ہوئے‘ ہم مزید آگے بڑھتے ہیں۔ مذہب کے بعد جو موضوع تختۂ مشق بنتا ہے‘ وہ ادب ہے۔ ادب میں بھی بالخصوص شاعری۔ لوگ شاعری کے ذخیرے میں منوں کے حساب سے اضافہ فرما رہے ہیں۔ برسوں پہلے‘ ایک بار افتخار عارف صاحب نے ایک بسیار نویس شاعر کے بارے میں کہا کہ ان کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ میں نے پوچھا: کیسے؟ جواب دیا: ان کی کتابوں کی اشاعت کے لیے جو کاغذ استعمال ہوا‘ نہیں معلوم اس کے لیے کتنے درخت کٹے ہوں گے۔
یہاں ہر اُس آدمی کو‘ جسے اپنے بارے میں یہ گمان ہو جائے کہ وہ چند الفاظ کو ترتیب دے کر ایک جملہ بنا سکتا ہے‘ یہ خیال مضطرب رکھتا ہے کہ اس کے اندر ایک شاعر چھپا ہوا ہے۔ اگر اس نے اسے باہر نہ نکالا تو دنیا علم و حکمت کے ایک ماخذ سے محروم رہے گی۔ یہ ادبی دردِ زہ کتاب کو جنم دیتا ہے۔ کتابیں چھپ جاتی ہیں۔ درخت کٹ جاتے ہیں۔ یہ بات کوئی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ محنت اور ریاضت سے شاعری میں بہتری تو لائی جا سکتی ہے‘ شاعر بنا نہیں جا سکتا۔ یہ قدرت ہے جو کسی کسی کو یہ ہنر عطا کرتی ہے۔
یہ تبصرہ ظاہر ہے کہ عمومی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمارے سماج میں اچھے شاعر نہیں ہیں۔ افتخار عارف‘ ظفر اقبال‘ محمد اظہار الحق‘ ڈاکٹر وحید احمد اور جلیل عالی کی موجودگی میں یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے؟ میں نے اپنے پسندیدہ شعرا کی فہرست میں سے چند نام یہاں لکھ دیے۔ یہ فہرست حتمی ہے اور نہ مکمل۔ پھرجس طرح کی فکاہیہ شاعری ہمارے عہد میں تخلیق ہوئی ہے‘ اردو کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ انور مسعود‘ خالد مسعود تو آج کی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ جو گزشتہ چند برسوں میں رخصت ہوئے‘ ان کا بھی کوئی جواب نہیں۔ دلاور فگار اور پروفیسر عنایت علی کی شبیہ ذہن کے پردے پر نمودار ہوتی ہے تو ہونٹ بے ساختہ مسکرا اٹھتے ہیں۔
سوال مگر استثنا کا نہیں۔ جب اتنا ادب پیدا ہو رہا ہے تو ہمارا ذوق پست کیوں ہے؟ ہم اچھے مصرعے اور اچھے جملے کی شناخت کیوں نہیں کر سکتے؟ ہماری جمالیاتی حس کیوں مر رہی ہے؟ دلّی اور لکھنٔو کے لہجے کی بات ہوتی ہے‘ اس ادب سے کوئی پاکستانی لہجہ کیوں نمودار نہیں ہوا؟ اس نے اہلِ سیاست میں نواب زادہ نصر اللہ خان کا کوئی جانشین کیوں پیدا نہیں کیا کہ جن کا اختلاف پہلے تہذیب کے سانچے سے گزرتا‘ وہاں ا س کی تراش خراش ہوتی اور پھر وہ نوکِ زبان پر آتا تھا؟ ابو الاعلیٰ مودودی کی فصاحت و بلاغت کا کوئی وارث ہماری سیاست میں کیوں نہیں ہے؟
کتاب میلوں کا کلچر مستحکم ہو رہا ہے۔ مذہبی کتابیں دھڑا دھڑ چھپ اور بک رہی ہیں۔ شاعری اور نثر کی پیداوار اتنی ہے کہ حساب کتاب میں نہیں آ رہی۔ ان کا کوئی اثر ہمارے مذہبی خیالات ا ور رویوں میں کیوں دکھائی نہیں دیتا؟ ہم ایسی تہذیب کیوں پیدا نہیں کر سکے جس پر 'پاکستان‘ کا لیبل لگا ہو؟ سب سے زیادہ حیرت اس پر ہے کہ اردو میں اتنا لٹریچر چھپ رہا ہے اور پھر بھی اردو زبان ہمارے ملک میں اجنبی ہوتی جا رہی ہے۔ خواص کا طبقہ تو کب کا اردو سے ناتا توڑ چکا۔ ہمارے ادب میں اتنی جان کیوں نہیں ہے کہ وہ اردو ہی کو توانا بنا سکتا؟
سوال اور بھی بہت ہیں۔ مثال کے طور پر سائنس کے موضوع پر کتنی کتب شائع ہو رہی ہیں؟ کس نے اردو زبان کو سائنسی مضامین کے لیے سازگار بنایا؟ شہزاد احمد کے بعد کون؟ یاسر پیرزادہ کا شکریہ کہ وہ ایسے مضامین کو چھڑتے ہیں۔ اگرچہ یہ چھیڑ چھاڑ‘ بہت سے دوسرے نازک تاروں کو بھی چھیڑ دیتی ہے۔ اس کی مگر اپنی افادیت ہے‘ جو اس وقت زیرِ بحث نہیں۔ بحث یہ ہے کہ اس کثرت میں سے وہ مال کیسے چھانٹا جائے جو تہذیبی اعتبار سے پیغامِ حیات بن سکے۔ جس سے ہمارے مذہبی تصورات کی اصلاح ہو۔ مذہب ایک خیر کی قوت بن کر سامنے آئے۔ ہمارے ہاں لطیف جذبات پیدا ہوں تاکہ ہم زندگی اور انسانی رویوں کے حسن کو پہچان سکیں۔ ہمارا شاعر تو اس کا کریڈٹ لبوں کی شیرینی کو دیتا تھا کہ سننے والا گالیاں کھا کر بھی بدمزہ نہیں ہوتا۔ ہمیں ان کی ضرورت ہے جو شیریں سخن ہوں۔ بولیں تو باتوں سے خوش بو آئے۔
ارادہ ہے رمضان کے دنوں میں کچھ ایسی کتابوں کا ذکر کیا جائے جن کے مطالعہ سے‘ مذہب کا جوہر دریافت کیا جا سکتا ہے۔ یار زندہ صحبت باقی۔