قرآنِ مجید اللہ کی آخری کتاب ہے‘ پہلی نہیں۔ قرآن سے پہلے نازل ہونے والی الہامی کتب کے بارے میں اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے کہ تمام کتب اور صحائف مُنزل من اللہ ہیں اور ان پر ایمان لانا اسی طرح لازم ہے جس طرح قرآنِ مجید پر ایمان لانا۔
مسلمانوں اور محققین کا مسلک البتہ یہ ہے کہ آسمانی کتب و صحائف کے نام سے اس وقت جو الہامی ادب موجود ہے‘ پیغمبروں کی طرف اس کی مکمل نسبت مشتبہ ہے اور اس میں تحریف کی گئی ہے۔ اس تحریف کا لیکن یہ مفہوم نہیں کہ سب کچھ بدل دیا گیا ہے۔ ان کتب کا زیادہ حصہ محفوظ ہے۔ ان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ الہامی کلام ہے۔ یہ اسی توحید کو بیان کرتی ہیں جو انبیائے کرام کی اصل دعوت ہے۔ انبیا کی فی الجملہ وہی تصویر پیش کرتی ہیں جو ان کے شایانِ شان ہے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے لکھا: ''بائبل کی جتنی کتابیں ہیں‘ جس کا 'عہد نامہ قدیم‘ تو یہودی بھی مانتے ہیں اور' عہد نامہ جدید‘ عیسائی بھی مانتے ہیں‘ ان میں جو چار انجیلیں ہیں اگرچہ وہ بہت بعد میں لکھی گئی ہیں لیکن ان میں بھی کوئی ایک صریح جملہ ایسا نہیں ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کے خلاف کسی بات پر دلالت کرتا ہو۔ سب جگہ یہی اقرار کرایا گیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ایک ہے‘‘۔ (آسان تفسیرِ قرآن۔ جلد سوم‘ صفحہ151)
اس کا تعین کیسے کیا جائے کہ کیا الہامی ہے اور کیا محرف؟ اس کے لیے قرآنِ مجید ایک فرقان کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ نبیﷺ کے ساتھ اس کی نسبت تواتر سے ثابت ہے جو کسی متن کی تاریخی حیثیت متعین کرنے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ پھر یہ کہ محققین نے اس نسبت کو قبول کیا ہے‘ قطع نظر اس بات کے کہ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں یا نہیں۔
اس وقت ان قدیم الہامی کتب و صحائف کے تراجم پائے جاتے ہیں۔ کوئی کتاب صاحبِ کتاب کی زبان میں موجود نہیں۔ یہ تراجم بھی مگر بہت مہارت کے ساتھ کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر انگریزی میں 1611ء میں شائع ہونے والے بائبل کے 'کنگ جیمز ورژن‘ کو اعلیٰ ادب کاایک نمونہ مانا گیا ہے۔ اردو میں 'پاکستان بائبل سوسائٹی‘ کا ترجمہ مستعمل ہے۔ یہ ترجمہ بھی بہت شاندار ہے۔ چند برس پہلے عہد نامہ جدید کا ایک نیا ترجمہ سامنے آیا ہے۔ یہ پروٹسٹنٹ فرقے نے شائع کیا ہے۔
اس ترجمے کی خاص بات یہ ہے کہ اسے جدید دور کے علاوہ مسلم سماج کے ذوق اور دینی پس منظر کوسامنے رکھتے ہوئے مرتب کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر مسیحی حضرت مسیحؑ کے دوسرے نام 'عیسیٰ ؑ‘ کو قبول نہیں کرتے جو قرآنِ مجید میں آیا ہے۔ وہ 'عیسائی‘ کہلوانا پسند نہیں کرتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں 'مسیحی‘ کہا جائے۔ قرآنِ مجید چونکہ دونوں نام استعمال کرتا ہے‘ اس لیے مسلمانوں کے لیے اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ بائبل کے تراجم میں کہیں 'عیسیٰ‘ کا نام استعما ل نہیں ہوا۔ ا ن میں بہت سے انبیا کے بھی وہ نام نہیں ہیں جو قرآن مجید یا مسلم روایت میں بیان کیے جاتے ہیں۔ اس نئے ترجمے میں اس فرق کو ختم کر دیا گیا ہے۔ حضرت مسیحؑ کے لیے 'عیسیٰ‘ اور 'یوحنا‘ کے لیے 'یحییٰ‘ کا نام لکھا گیا ہے۔ اسی طرح پرودگارِ عالم کے لیے 'اللہ‘ لکھا گیا ہے جسے مسلمانوں کے ساتھ خاص سمجھا جاتا ہے۔ ایک جگہ 'السلام علیکم‘ بھی استعمال ہوا ہے۔ جب ایک مسلمان اس کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔
نبیﷺ اس دعوے کے ساتھ تشریف نہیں لائے کہ وہ کسی نئے دین کے علمبردار ہیں۔ آپﷺ نے بتایا کہ آپ اسی دین کے داعی ہیں جو آدم‘ نوح اور ابراہیم علیہم السلام سمیت تمام انبیاء کا دین تھا۔ آپﷺ نے اس دین کی تجدید فرمائی اور اسے تحریفات سے پاک کیا۔ اسی طرح اس میں اضافہ بھی فرمایا۔ آپﷺ کی ذاتِ والا صفات اب اس الٰہی دین کا واحد مستند مآخذ ہے۔ اس دین کو تاریخی تسلسل میں سمجھنے کے لیے قدیم الہامی ادب کا مطالعہ بہت مفید ہے۔ اس کے اندر وہ پاکیزگی اور اسلام کا جوہر ہے جو خبر دیتا ہے کہ انسانیت کبھی خدا کی ہدایت سے محروم نہیں رہی۔
یہ کتب بتاتی ہیں کہ انبیائے کرام انسانیت کے کیسے گل ہائے سر سبد تھے۔ تاریخ میں فلاسفہ‘ مصلحین‘ مفکرین اور سکالرز کے حالات اور افکار بیان ہوئے ہیں۔ انسان کے تہذیبی ارتقا میں ان کا حصہ ہے جس کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ انبیاء کا معاملہ مگر بالکل جدا ہے۔ پاکیزہ فکر و عمل کا ایسا متزاج‘ یہ واقعہ ہے کہ چشمِ فلک نے کہیں اور نہیں دیکھا۔ انسایت کی فلاح و بہبود کے لیے ایسا اخلاص کہ اس کی فلاح کے لیے گھلے جا رہے ہیں۔ انبیائے کرام کی شخصیات کی پاکیزگی‘ مذہب کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اسی لیے قرآنِ مجید نے نبیﷺ کی حیاتِ مبارکہ قبل از اعلانِ نبوت کو آپﷺ کی رسالت کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔
قدیم کتب و صحائف میں بہت کچھ شامل ہے۔ عام آدمی کو میں دو کتابیں بطورِ خاص پڑھنے کا مشورہ دوں گا۔ ان سے الہامی ادب کی روح سمجھ میں آئے گی۔ ایک 'عہد نامہ جدید‘ اور دوسری 'زبور‘ جسے ' عہد نامہ قدیم‘ میں شامل کیا گیا ہے۔ عہد نامہ جدید میں چار انجیلیں شامل ہیں جن کی نسبت سیدنا مسیحؑ کے چار شاگردوں کی طرف ہے۔ یہ بتاتی ہیں کہ بنی اسرائیل کو بحیثیت مجموعی وہ کون سے اخلاقی رذائل لاحق ہو گئے تھے جو منصبِ امامت سے ان کی معزولی کا سبب بنے۔ سیدنا مسیحؑ کی بعثت دو مقاصد کے لیے ہوئی: ایک بنی اسرائیل پر اتمامِ حجت اور دوسرا سیدنا محمدﷺ کی بعثت کی پیش گوئی۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے بتایا کہ ایک قوم کا مذہبی طبقہ جب دین کی روح سے دور ہوتا اور ظواہر کا خوگر بن جاتا ہے تو نہ صرف اس طبقے کا بلکہ پورے سماج کا اخلاقی وجود تحلیل ہو جاتا ہے۔ سیدنا مسیحؑ نے جس طرح تمثیلات کے ساتھ یہ مقدمہ پیش کیا ہے‘ وہ فصاحت و بلاغت کا شاہکار ہے۔ اس میں 'پہاڑی کا وعظ‘ جیسے خطبات ہیں جس میں الہامی کلام کی شان کا ظہور ہے۔
'زبور‘سیدنا داؤد علیہ السلام کی مزامیر اور دعائیں ہیں۔ خدا کا پیغمبر کس عاجزی اور حسنِ طلب کے ساتھ اپنے پروردگار کے حضور میں مناجات کرتا اور اس کے لطف و کرم کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے‘ زبور اس کا شاہکار ہے۔ اس کا مطالعہ انسان پر سحر طاری کر دیتا ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ اس کالم میں اس کا کچھ انتخاب شامل کروں گا۔ سچ پوچھئے تو میرے لیے یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ پورا کلام ہی انتخاب ہے۔ اس سے سیدنا داؤدؑ کی جو شخصیت ابھرتی ہے وہ ایک جلیل القدر پیغمبر کے شایانِ شان ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ یہود و نصاریٰ نے عہد نامہ قدیم میں وہ بے ہودہ روایت کیسے شامل کر لی جو سیدنا داؤدؑ کی اس شخصیت سے قطعی طور پر متصادم ہے جسے زبور پیش کرتی ہے۔ اسی کے زیرِ اثر یہ واقعہ مسلم علمی روایت میں بھی نقل ہوا ہے مگر محققین نے اسے رَد کر دیا ہے۔
الہامی ادب کا مطالعہ اس مذہبی روایت کو سمجھنے میں معاونت کرتا ہے جس کی تکمیل سیدنا محمدﷺ پر ہوئی۔ اس سے ختمِ نبوت کی اہمیت بھی پوری طرح نمایاں ہوتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ پر ایمان لانا اگر کسی کے لیے سب سے آسان تھا تو وہ اہلِ کتاب تھے۔ توحید اور انبیاء کے ساتھ اسی نسبت کی وجہ سے اہلِ کتاب اور مشرکینِ عرب میں فرق کیا گیا۔ ان کے ساتھ ایک سطح کے معاشرتی تعلق کو قائم رکھا گیا اور ان کی پاک دامن خواتین سے نکاح کی اجازت دی گئی۔