الہامی ادب کا ایک مظہر اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کے فرمودات کا ریکارڈ ہے جو زیادہ تر کتبِ حدیث کی صورت میں مدون ہے۔ دین کے باب میں نبی کریمﷺ نے کبھی کسی استفسار کا جواب دیا۔ کبھی کسی جاری عمل پر اپنی رائے صادر فرمائی۔ کبھی کسی فعل کی تحسین کی اور کبھی کسی پر اظہارِ ناراضی فرمایا۔ دین کا ابلاغ اور اس کی تبیین و تشریح آپﷺ کا منصب تھا۔ احادیث کے یہ مجموعے اس کا ریکارڈ ہیں۔ اس لیے یہ ریکارڈ بھی اپنے اندر وہ پاکیزگی لیے ہوئے ہے جو الہامی ادب کا امتیاز ہے۔
اُمت میں اس پر کبھی بحث نہیں ہوئی کہ نبیﷺ نے اگر دین کے حوالے سے کچھ فرمایا ہے تو وہ الہامی ہدایت ہے یا نہیں۔ بلاشبہ وہ الہامی ہدایت ہے۔ بحث اگر ہوئی ہے تو کسی قول کی نبیﷺ کی طرف نسبت پر ہوئی ہے۔ اقوال کا جمع کرنا ایک انسانی کام تھا۔ اس کے ساتھ رسول اللہﷺ کی طرف کسی قول کے انتساب کی اپنی حساسیت ہے۔ اس لیے امت نے اس کے لیے غیرمعمولی احتیاط کا مظاہرہ کیا کہ آپﷺ کی طرف کسی غیرمصدقہ بات کی نسبت نہ ہو۔ محدثین نے اپنے اطمینان کے مطابق ان اقوال اور احادیث کو‘ صحتِ روایت کے اعتبار سے درجات میں تقسیم کیا۔ کسی کو صحیح کہا۔ کسی کو حسن اور کسی کو ضعیف۔ اس کے علاوہ بھی ان کی بہت اقسام ہیں۔
عام آدمی یہ اہلیت نہیں رکھتا کہ ان احادیث کی صحت پر کوئی حکم لگائے یا بہت سی احادیث ایسی ہیں جو قانونی و فقہی پہلو لیے ہوئے ہیں جن سے فقہا اور علما ہی استفادہ کرتے ہیں۔ عام لوگوں کی سہولت کے لیے اہلِ علم نے احادیث کے ایسے مجموعے مرتب کر دیے ہیں جن میں وہ روایات بیان ہوئی ہیں جن کا تعلق اخلاقیات‘ معاملات اور ان روز مرہ مسائل سے ہے جن کے بارے میں عام مسلمان نبیﷺ کی ہدایت کو جاننا چاہتا ہے۔ یہ ایک مفید کام ہے اور عام لوگوں کو اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
ہمارے علمی ذخیرے میں ایک اچھا انتخاب 'مشکوٰۃ المصابیح‘ ہے۔ ' مشکوٰۃ‘ کا اُردو ترجمہ موجود ہے۔ اسی طرح مولانا منظور نعمانی نے 'معارف الحدیث‘ کے نام سے ایک مجموعہ مرتب کیا ہے جو اردو میں ہے۔ اسی نوعیت کا ایک مجموعہ 'ریاض الصالحین‘ ہے۔ اس میں بھی اٹھارہ سو سے زیادہ احادیث ہیں۔ یہ اصلاً عربی میں ہے؛ تاہم اس کے اُردو تراجم دستیاب ہیں۔ مولانا وحید الدین خان نے بھی 'حدیثِ رسول‘ کے عنوان سے ایک عمدہ انتخاب کیا ہے۔ مختلف علما نے درسِ حدیث کے نام سے جو کام کیا ہے‘ اسے بھی مرتب کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی مواد میسر ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب کے ہفت روزہ دروسِ حدیث سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔
احادیث کے ساتھ سیرت کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ کتبِ سیرت الہامی ادب نہیں مگر اس میں الہامی ادب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ دین کو صحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے سیرت کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ اُردو میں سیرت پر بہت اچھی کتابیں لکھی گئیں۔ ان میں بھی موضوعاتی ترجیحات ہیں۔ جیسے درایت کے پہلو سے لکھی گئی سیرت۔ سوانح سے متعلق کتابیں۔ سیرت نگاری ایک فن ہے جس میں اسالیب کا بھی تنوع ہے۔ اس لیے عام آدمی کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ کیا پڑھے۔ میں اپنے تجربے کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ نوجوانوں کو محمد عنایت اللہ سبحانی صاحب کی 'محمد عربیﷺ‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ میں نے اسے پہلی مرتبہ چالیس برس پہلے پڑھا ہو گا۔ میں آج تک اس کیفیت کو محسوس کر سکتا ہوں جو لڑکپن میں‘ یہ کتاب پڑھنے پر طاری ہوئی۔ پھر ماہر القادری مرحوم کی 'دُرِ یتیم‘ ہے۔ یہ بھی بہت پُراثر کتاب ہے۔
علمی اور جدید اُسلوب میں مولانا شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی کی 'سیرت النبیﷺ‘ کی انفرادیت ابھی تک برقرار ہے۔ اس کی پہلی دو جلدیں پڑھ لی جائیں تو سیرت کے واقعات کا احاطہ ہو جاتا ہے۔ اردو میں اس کے بعد بھی بہت سے کتب لکھی گئی لیکن زیادہ تر تکرار ہیں۔ مجھے کوئی ایسی کتاب نہیں ملی جسے سیرت لٹریچر میں‘ سوانحی اعتبار سے اضافہ قرار دیا جائے۔ اس باب میں البتہ دو کتب کا ذکر ضروری ہے۔ ایک علامہ خالد مسعود مرحوم کی 'حیاتِ رسولِ اُمیﷺ‘ ہے۔ اس میں سیرت کو ایک نئے زاویے سے دیکھا گیا ہے اور قرآنِ مجید کو مآخذ مان کر تاریخی واقعات کے رد و قبولیت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دوسری کتاب ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی کی 'مکی اسوۂ نبوی‘ ہے جو ان کے خطبات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر صاحب جدید سیرت نگار میں سب سے اہم نام ہیں۔ سیرت نگاری میں مکی دور کو مدنی دور کی نسبت کم اہمیت دی گئی ہے۔ انہوں نے اس کمی کو بڑی حد تک دور کیا ہے۔
سیرت کو کیسے پڑھا ا ور سمجھا جائے؟ مطالعہ سیرت کے حوالے سے یہ ایک سوال ہے۔ مولانا وحید الدین خان نے اس موضوع پر ایک سے زیادہ کتب لکھی ہیں جو اہم ہیں۔ جیسے 'سیرتِ رسولﷺ‘، 'پیغمبرِ انقلاب‘، 'مطالعۂ سیرت‘۔ سیرت سے متعلق مباحث پر مولانا سید ابو الااعلیٰ مودودی کی 'سیرتِ سرورِ عالمﷺ‘ بھی اہم عمدہ کتاب ہے۔ یہ ان کے مضامین کا مجموعہ ہے‘ سیرت کی کوئی مربوط کتاب نہیں۔
ایک عام آدمی جو مذہب کو سنجیدگی کے ساتھ سیکھنا چاہتا ہے‘ اسے پہلے مرحلے میں ان تین ذرائع کی طرف رجوع کرنا چاہیے: قرآنِ مجید‘ قدیم الہامی کتب اور اقوالِ رسولﷺ۔ تمام الہامی ادب کے لیے فرقان کی حیثیت قرآنِ مجید کو حاصل ہے۔ قدیم کتب کے بارے میں جانتے ہیں کہ ان کا کوئی نسخہ آج ہمارے پاس موجود نہیں جس کے بارے میں صحت کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ پیغمبر کے ساتھ اس کی نسبت ثابت ہے۔ ان کی تدوین و ترتیب انسانی کاوش کا حاصل ہے۔ اسی طرح احادیث کے مجموعے بھی انسانوں نے مرتب کیے ہیں۔ ان کے بارے میں اہلِ علم کا مؤقف یہی ہے کہ ان سے ہمیں علمِ ظن حاصل ہوتا ہے۔ جو کلام سراسر الہامی ہے‘ وہ قرآنِ مجید ہے۔ اس لیے دیگر لٹریچر کی صحت کو پرکھنے کے لیے قرآنِ مجید ہی پیمانہ ہے۔ اس لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت مطالعۂ قرآن کو دیا جائے۔
اس ضمن میں دوسری بات یہ عرض کرنی ہے کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے‘ وہ ایک عام آدمی کی ضرورت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے لکھا ہے۔ اس لیے یہ کالم کوئی علمی مقالہ نہیں جو الہامی ادب کے وسیع تر پس منظر میں لکھا گیا ہو۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح رہے کہ میں نے اگر کچھ کتابوں کے مطالعے کی سفارش کی ہے تو اس کی بنیاد میری پسند اور ذوق ہے۔ ہر شخص کی پسند اس کے رجحانات‘ علم اور مطالعے کی زیرِ اثر ہوتی ہے۔ میں نے اگر فہمِ قرآن کے لیے کسی کتاب یا تفسیر کو ترجیح دی ہے تو میں اس کا سبب بتا سکتا ہوں۔ یا سیرت کے حوالے سے کسی کتاب کے مطالعے کی سفارش کی ہے تو اس کی وجہ بیان کر سکتا ہوں۔ یہ لازم نہیں کہ اس سے اتفاق کیا جائے۔ پہلے مرحلے میں میری بات کو وہی سنجیدگی سے لے گا جسے میری رائے پر بھروسہ ہو گا۔ اگلا مرحلہ یہ ہے کہ وہ خود مطالعہ کرکے جانچے کہ اسے جو مشورہ دیا گیا ہے‘ وہ درست ہے یا غلط۔
پھر یہ کہ ان کالموں میں مَیں نے اپنی پسند کی سب کتابیں شامل نہیں کیں کیونکہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔ میں جس آدمی کے لیے لکھ رہا ہوں‘ وہ دینی مطالعے کے لیے شاید اتنا کچھ ہی پڑھ سکے۔ علم ایک بے کنار سمندر ہے۔ ہمیں ہر جگہ سے کوئی نہ کوئی اچھی بات مل جاتی ہے۔ مطالعہ جتنا وسیع ہو گا‘ علم میں اسی نسبت سے اضافہ ہو گا۔