انڈونیشیا کی ایک وڈیو ان دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔
سڑک کنارے‘ فٹ پاتھ پر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بڑی تعداد میں بیٹھے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں قرآن مجید ہے اور وہ تلاوت میں مصروف ہیں۔ یہ مغربی جاوا کے ایک جونیئر ہائی سکول کے طلبہ و طالبات ہیں۔ رمضان میں‘ یہ ان کا معمول ہے۔ نظریاتی اعتبار سے انڈونیشیا ایک سیکولر ملک ہے۔ ملک کی دونوں بڑی مذہبی جماعتیں مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ رکھنے کی قائل ہیں۔ ملک میں کہیں نفاذِ اسلام کا غلغلہ نہیں۔ کوئی اسلامی انقلاب کے نعرے بلند نہیں کرتا۔ اس کے باوصف‘ نوجوانوں میں اسلام کے ساتھ یہ محبت کیسے پیدا ہوئی؟ قرآن مجید کے ساتھ یہ لگاؤ کہاں سے آیا؟
اس کالم میں کئی بار یہ ذکر ہوا کہ انڈونیشیا کی سب سے بڑی مذہبی جماعت نہضتہ العلما ہے۔ ملک کی کل آبادی کا 85 فیصد حصہ مسلمان ہے‘ جس میں سے ساٹھ فیصد نہضتہ العلما سے وابستہ ہیں۔ یہ جماعت سیاست میں متحرک نہیں ہے۔ اس سے وابستہ ایک عالم عبدالرحمان واحد‘ ذاتی وجاہت کے باعث ایک بار ملک کے صدر منتخب ہو چکے۔ سیاست سے اس گریز کے باوجود‘ سماج میں مذہبی شعور کی فراوانی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
انڈونیشیا کی مذہبی جماعتوں اور علما نے یہ راز جان لیا ہے کہ مذہب کا اصل مخاطب فرد ہے اور انفرادی شخصیت کی تشکیل‘ فطری طور پر سماج کا فریضہ ہے۔ اس لیے اگر ہمیں فرد کو مذہبی سانچے میں ڈھالنا ہے تو پھر ہمیں فرد اور سماج پر توجہ دینا ہو گی۔ ریاست فطری ادارہ نہیں۔ یہ تاریخی ارتقا کے نتیجے میں قائم ہوا ہے۔ اگر اجتماعی سطح پر اسلامیت مطلوب ہے تو پھر فرد اور سماج کو مخاطب بنانا ہو گا۔ اس سوچ کے تحت ان مذہبی جماعتوں نے سماجی ادارے بنائے۔ ان اداروں میں تعلیمی ادارے سب سے اہم ہیں۔ اس کے ساتھ سماجی ادارے بھی ہیں جو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان اداروں نے فرد کی اسلامی تشکیل کے لیے جدوجہد کی۔ نوجوانوں میں 'مسلم شعور‘ پیدا کیا۔ کسی خارجی دباؤ کے ذریعے ان پر اسلام نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اسلام سے محبت اور تعلق کا بیج ان کے من میں بو دیا۔ وائرل ہونے والی وڈیو میں آپ جو منظر دیکھ رہے ہیں‘ یہ اس کا ایک نتیجہ ہے۔
انڈونیشیا میں ریاست کو فرد کے مذہبی تشخص سے دلچسپی نہیں۔ وہاں شراب خانے بھی ہیں اور کلب بھی۔ رمضان میں ریستوران بھی کھلے رہتے ہیں۔ نوجوانوں کو وہ سب مواقع میسر ہیں جو ان کے اخلاق کو برباد کر سکتے ہیں۔ اس کے باوصف رمضان میں یہ عالم ہے کہ محض اپنی خواہش اور اپنی مرضی سے وہ قرآن مجید کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ مساجد آباد ہیں اور پورا ملک ان دنوں اسلامی کلچر میں ڈھلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ترکیہ میں بھی یہی ہے۔ میں نے استنبول میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر فجر کی نماز ادا کی ہے۔ فجر میں نماز کا اتنا بڑا اجتماع‘ جس میں اکثریت نوجوانوں کی تھی‘ حیران کن تھا۔ یہ رمضان نہیں‘ عام دنوں کا معاملہ ہے۔
کیا پاکستان میں کبھی ایسا منظر آپ نے دیکھا؟ نفاذِ اسلام کا جتنا غلغلہ یہاں ہے‘ شاید ہی کہیں ہو۔ اسلامی انقلاب کے لیے جتنی جماعتیں یہاں سرگرم ہیں‘ شاید ہی کسی مسلم ملک میں ہوں۔ اسلام پر مبنی جتنے قوانین یہاں ہیں شاید ہی کہیں پائے جاتے ہوں۔ اسلام کی بیان کردہ سزائیں جتنی یہاں نافذ ہیں کہیں نہیں ہیں۔ اس کے باوجود ہم یہ منظر پیدا نہیں کر سکے۔ کسی شہر میں قرآن مجید کے ساتھ ایسی وابستگی نظر نہیں آتی۔ گلی بازار میں ہم یہ منظر کہیں نہیں دیکھتے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
ہم نے سماج پر توجہ نہیں دی۔ ہم نے فرد کو اسلامی اخلاقیات کا نمائندہ بنانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ہم نے یہ خیال کیا کہ لوگوں کو مسلمان بنانا ریاست کا کام ہے۔ لہٰذا ساری تگ و دو ریاست کو مسلمان بنانے پر صرف کرنی چاہیے۔ ہم پاکستان بنتے ہی نفاذِ اسلام کا مطالبہ لے کر کھڑے ہو گئے۔ قراردادِ مقاصدکے ذریعے ریاست کو کلمہ پڑھایا۔ 1973ء کا اسلامی آئین بھی بنایا گیا‘ لیکن ہم بطور معاشرہ مسلمان نہیں بن سکے۔ لوگ سماج کی مذہب بیزاری کا ماتم کرتے ہیں اور ریاست کو اس کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں۔ اس کے بعد ان کا مطالبہ یہی ہوتا ہے کہ مزید اسلام نافذ کیا جائے۔ ریاست جواب میں آئے دن اسلامی قانون بناتی اور اسلام کے نام پر ادارے قائم کرتی ہے۔ اس مشقت کے باوجود اسلام ہمارے کلچر کا حصہ نہیں بن سکا۔ قرآن مجید سے ایسا تعلق ہماری روایت نہیں بن سکا۔
ہم نے 77 برس ریاست کو مسلمان بنانے کی کوشش کر کے دیکھ لیا۔ ڈھیروں قانون سازی کے باو صف‘ آج بھی اسلام سے دوری کا ماتم کیا جاتا ہے۔ کیا آج سے ہم ریاست کے بجائے‘ سماج کو اپنی توجہ کا مرکز بنا سکتے ہیں؟ شخصیت کی تعمیر ریاست نہیں‘ سماج کرتا ہے۔ اس کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔ پھر مسجد‘ مکتب اور محلہ اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ جدید دور میں میڈیا کو بھی اس میں شامل کر لینا چاہیے۔ اگر گھر کا ماحول اسلامی نہیں ہو گا‘ مدرسہ اور سکول میں مذہبی کردار سازی نہیں ہو گی تو پھر فردمیں بھی اسلامی کردار پیدا نہیں ہو گا۔ جب ہم ریاست کو مسلمان بنانا چاہتے ہیں تو اس کے پسِ منظر میں یہ نفسیات کار فرما ہوتی ہے کہ ہم نے دوسروں پر اسلام نافذ کرنا ہے۔ ہم آئے دن مذہبی انتہا پسندی کے جو واقعات دیکھتے ہیں‘ وہ دوسروں کو مذہبی بنانے کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ دوسری طرف سماج اور فرد کو مسلمان بنانے سے جو نفسیات وجود میں آتی ہے اس میں فرد خود کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔ اس کی دلچسپی‘ دوسروں کو مسلمان بنانے سے زیادہ اپنے آپ کو مسلمان بنانے سے ہوتی ہے۔
ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اس فکر میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم نے خدا کے حضور میں پیش ہونا اور انفرادی سطح پر اپنے عمل کا حساب دینا ہے؟ دوسری طرف ہم میں کتنے ہیں جو اس سوچ میں غلطاں رہتے ہیں کہ پاکستان میں اسلام کب نافذ ہو گا اور ہمارا حکمران طبقہ کب مسلمان بنے گا؟ اگر کوئی سروے ہو تو میرا خیال ہے دو اور آٹھ کا تناسب ہو۔ ہمارے ہاں تبلیغی جماعت جیسی جماعتیں موجود ہیں۔ میرے دل میں ان کی قدر ہے۔ مسئلہ حکمت عملی اور تصورِ مذہب کا ہے۔ اگر ہم اس کو درست کر لیں تو ان جماعتوں کی افادیت مسلمہ ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی فرد‘ سماج اور ریاست‘ سب کو مسلمان بنانے کے داعی تھے۔ ان کے ہاں مسئلہ ترجیحات کا پیدا ہو گیا‘ جس کا تعلق حکمت عملی سے تھا۔ ریاست کو مسلمان بنانے کا خیال اتنا غالب ہوا کہ فرد اور سماج پس منظر میں چلے گئے۔
ریاست کو مسلمان بنانے کا حقیقی مقصد بھی فرد ہی کو وہ ماحول فراہم کرنا ہے جو اس کو مسلمان بنائے۔ ہم ریاست کو مسلمان بنانے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ کیا ہم اپنی اس حکمت عملی پر نظر ثانی کر سکتے ہیں؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم نہضۃ العلما اور محمدیہ جیسی جماعتوں کی حکمت عملی اور تصورِ دین کا مطالعہ کریں اور ان سے سیکھیں کہ مسلمان نوجوانوں میں یہ کلچر کیسے پیدا ہوا‘ جس کا مظہر وائرل ہونے والی وڈیو ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے آپ وہ وڈیو ضرور دیکھیں‘ اگر پہلے نہیں دیکھی۔ اگر دیکھی ہے تو دوبارہ دیکھیں۔ پھر اس کے بعد خود سے پوچھیں کہ پاکستان میں ہمیں یہ منظر کیوں دکھائی نہیں دیتا؟