حافظ نعیم الرحمن صاحب کیا جماعت اسلامی کے طیب اردوان ثابت ہو سکتے ہیں؟
جماعت اسلامی جیسی منظم اور نظریاتی تشخص رکھنے والی جماعت میں ذمہ داروں کے تبدیل ہونے سے بالعموم کوئی بڑی تبدیلی نہیں آنی چاہیے۔ تاہم افراد کی افتادِ طبع جماعتی مزاج پر اثر انداز ہوتی ہے اور نئی قیادت کے آنے سے اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ اجتماعی کلچر تبدیل ہو۔ نظریے یا تنظیمی ڈھانچے میں تو کوئی تبدیلی نہ آئے مگر ترجیحات کا ازسرِ نو تعین ہو۔ قیادت کی تبدیلی کے ساتھ تشخص کی تبدیلی کا امکان جماعت اسلامی میں دوسری جماعتوں کی نسبت زیادہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جماعت محض سیاسی جماعت نہیں‘ اساسی طور پر ایک تحریک ہے۔ وہ تحریک جو ہمہ جہت سماجی تبدیلی کی مدعی ہے۔ سیاست کے ساتھ سماجی و فکری اصلاح بھی اس کے پیشِ نظر ہے۔ یوں جس افتادِ طبع کا حامل امیر بنے گا‘ وہ رجحان جماعت پر غالب آ جائے گا۔
قاضی حسین احمد مرحوم کی جماعت اسلامی وہ نہیں تھی جس کی امارت میاں طفیل محمد صاحب کے ہاتھ میں تھی۔ میاں صاحب کی جماعت اور تھی اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی جماعت اور۔ ان حضرات کے دور میں جماعت کا دستور بدلا نہ تنظیمی ساخت۔ اگر کچھ بدلا تو وہ امیر تھا۔ اس ایک تبدیلی سے جماعت اسلامی کی تاریخ مختلف ادوار میں منقسم ہو گئی۔ اس لیے حافظ نعیم الرحمن صاحب کے آنے کے بعد جماعت یقینا وہ نہیں رہے گی جو سراج الحق صاحب کے دور میں تھی۔
یہ انتخاب بتا رہا ہے کہ جماعت اسلامی کے اراکین کیا سوچ رہے ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کو ایک تحریک کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں یا سیاسی جماعت کے روپ میں؟ وہ اپنی قیادت میں کیا اوصاف دیکھنا چاہتے ہیں؟ جماعت اسلامی پاکستان کے لیے رول ماڈل اب کراچی کی جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی کراچی بحرِ جماعت میں ایک جزیرے کی طرح ہمیشہ الگ دکھائی دیتی رہی ہے۔ کراچی میں جماعت کا یہ تشخص حافظ نعیم الرحمن صاحب کے آنے سے نہیں بنا۔ پروفیسر عبدالغفور احمد ہوں یا سید منور حسن۔ نعمت اللہ خان ہوں یا پروفیسر خورشید احمد۔ یہ ہمیشہ الگ دکھائی دیے۔ پھر جماعت اسلامی کراچی کی سیاسی کارکردگی بھی زیادہ متاثر کن رہی۔ اس شہر سے جماعت نے قومی اسمبلی کی ایک سے زیادہ نشستیں جیتیں اور دو مرتبہ اس شہر کے مکینوں نے میئر کے لیے جماعت اسلامی کا انتخاب کیا۔ تیسری مرتبہ بھی یہ منصب جماعت کو چھو کر گزر گیا۔ یا یوں کہیے کہ اس کا رُخ بزور دوسری طرف موڑ دیا گیا۔
جماعت اسلامی کراچی کی یہ کارکردگی ملک بھر کی جماعت اسلامی کے لیے باعثِ کشش رہی۔ پروفیسر عبد الغفور احمد کو جماعت کے حلقے میں ہمیشہ احترام کی نظر سے دیکھا گیا۔ جماعت سے ان کی وابستگی کا زیادہ دور وہ ہے جب مولانا مودودی حیات تھے اور امیر بھی۔ ان کی موجودگی میں کوئی امکان نہیں تھا کہ جماعت اسلامی کے اراکین کی نظرِ انتخاب کسی دوسری طرف اٹھتی۔ مولانا کے بعد میاں طفیل محمد کا انتخاب بھی قابلِ فہم ہے کہ وہ مولانا کے معتمدِ خاص تھے۔ سید منور حسن کراچی سے تعلق رکھنے والے پہلے امیر تھے لیکن وہ اپنا نقش جما نہ سکے۔ اس میں شبہ نہیں کہ تقویٰ اور حسنِ کردار کے معاملے میں وہ قرونِ اولیٰ کی یادگار تھے۔ ان کا ذاتی کردار ایسا تھا کہ اس پر رشک ہی کیا جا سکتا ہے۔ ان کی طبیعت پر مگر جذبات کچھ اس طرح غالب تھے کہ ان کی قیادت جماعت کو کسی بڑے حادثے سے دوچار کر سکتی تھی۔
پاکستان کی تاریخ کے کسی طالب علم سے یہ بات چھپی نہیں کہ جماعت اسلامی تدریجاً ہمہ جہت تبدیلی کی ایک تحریک سے سیاسی جماعت میں ڈھل چکی۔ قاضی حسین احمد مرحوم کے دورِ امارت میں یہ سفر مکمل ہو گیا تھا۔ قاضی صاحب کو خرم مراد مرحوم کی فکری رفاقت میسر رہی جس نے اس تبدیلی کو فکری خدو خال فراہم کیے۔ اس کی مثال جماعت اسلامی کی تاریخ میں موجود تھی جب 1950ء کی دہائی میں جماعت حکمتِ عملی کے حوالے سے ایک تبدیلی سے گزری۔ اس حکمتِ عملی کا صغریٰ کبریٰ مولانا مودودی جیسے ذہن نے مرتب کیا اور ان کے جادو بیان قلم نے اسے لکھا۔ اس کے سامنے مولانا امین احسن اصلاحی جیسے مولانا مودودی کے 'مردِ ثانی‘ کی بات بھی کسی نے نہیں سنی۔ خرم مراد صاحب کا معاملہ البتہ مختلف رہا۔ ان کے استدلال کو جماعت اسلامی کے ذہن نے قبول نہیں کیا۔ پاکستان اسلامک فرنٹ کے تجربے نے قاضی صاحب کے ساتھ جماعت کو بھی ایک ایسے المیے سے دوچار کر دیا کہ اس کے اثرات سے وہ آج تک نکل نہیں سکی۔ اس کے بعد جماعت کا سیاسی کردار مسلسل سکڑتا چلا گیا۔ متحدہ مجلسِ عمل کے اتحاد نے قدرے سہارا دیا مگر عارضی۔
مایوسی کی اس فضا میں جماعت اسلامی کراچی ملک بھر میں جماعت اسلامی کے وابستگان کے لیے امید کی ایک کرن بن کر نمودار ہوئی۔ اس کی مؤثر سیاسی کارکردگی کے سبب جماعت قومی سطح پر زیرِ بحث آنے لگی۔ اس کا سہرا حافظ نعیم الرحمن صاحب کے سر تھا۔ ان کے انتخاب نے اس رائے پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی کہ جماعت اسلامی کو اگر سیاست میں زندہ رہنا ہے تو اسے اپنی قیادت حافظ صاحب کو سونپنا ہو گی۔ جماعت کے پاس اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔
حافظ صاحب کے آنے سے پہلی تبدیلی یہ آئے گی کہ یہ سرتا پا سیاسی جماعت ہو گی۔ معاصر سیاست میں اگر اس کی کوئی مثال ہو سکتی ہے تو وہ ترکیہ کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ہے جس کو طیب اردوان نے ایک نیا تشخص دیا جو نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی سے مختلف تھا۔ اسی نوعیت کی تبدیلی‘ امکان ہے کہ اب جماعت اسلامی میں بھی آئے گی۔ حافظ صاحب جماعت کے طیب اردوان بن سکتے ہیں۔ اگر حافظ صاحب نے جماعت کو غیرضروری مذہبیت سے محفوظ رکھتے ہوئے خود کو عوامی مسائل تک محدود رکھا‘ جس طرح انہوں نے کراچی میں کیا‘ تو اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ملک بھر کے عوام کو اپنی طرف متوجہ کر لیں۔
ملکی سیاست میں آج ایک خلا ہے۔ نواز شریف صاحب کے غیرفعال اور مولانا فضل الرحمن صاحب کے غیرمؤثر ہونے کے بعد آبادی کا ایک بڑا حصہ جو روایتی اور مذہبی مزاج رکھتا ہے اور جو بوجوہ عمران خان صاحب کے قریب نہیں آ سکتا‘ خود کو بے سائبان سمجھنے لگا ہے۔ اس کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جس کا کردار قابلِ بھروسا ہو اور جو اس کے مسائل کا ادراک رکھتی ہو۔ حافظ نعیم الرحمن صاحب نے جس طرح کراچی کے عوام کی ترجمانی کی ہے‘ اگر وہ پاکستان کے عوام کی نمائندگی بھی کر پائے تو اس طبقے کی نظریں جماعت اسلامی کی طرف اٹھ سکتی ہیں۔ اگر انہوں نے ماضی کی طرح بعض رومانوی تصورات کو گلے لگائے رکھا تو پھر شاید عوام بھی ماضی کی طرح اس سے لاتعلق رہیں۔
مجھے بس ایک بات کا خدشہ ہے۔ حافظ نعیم الرحمن صاحب کے مزاج میں عمران خان صاحب کی طرح ہیجان ہے۔ جس طرح خان صاحب نے پی ٹی آئی میں ایک ہیجانی مزاج پیدا کیا اور انہیں مسلسل احتجاج کے راستے پر چلایا‘ مجھے ڈر ہے کہ اپنی افتادِ طبع کے باعث حافظ صاحب بھی جماعت کو اس راستے پر نہ لے چلیں۔ یہ اسلوبِ سیاست وقتی طور پر تو فائدہ دیتا ہے لیکن قوموں میں ایک غیرتعمیری مزاج پیدا کرتا ہے۔ اس طرز کی سیاست سیاسی کلچر کو برباد کر دیتی ہے۔ اگر حافظ صاحب اس پر قابو پا سکیں تو ان کی امارت جماعت اسلامی کے لیے نیک شگون ہو سکتی ہے۔ اس توازن کے لیے انہیں کسی خرم مراد کی ضرورت ہوگی۔