پاکستان کو آج کسی نئے سیاسی لیڈر کی نہیں ایک سیاسی جماعت کی ضرورت ہے۔ یہ سیاسی جماعت کوئی فرد بنا سکتا ہے اور کوئی گروہ بھی۔ بالفاظِ دیگر وہ انفرادی فکر کا نتیجہ ہو سکتی ہے اور اجتماعی دانش کا بھی۔
سیاسی جماعت کب اور کیوں بنتی ہے؟ بالعموم اس کے پانچ اسباب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ کسی معاشرے میں ایک گروہ کو قابلِ ذکر عصبیت حاصل ہے اور وہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ سیاسی حقوق سے محروم ہے۔ اپنے حقوق کے حصول کیلئے وہ اجتماعی اور منظم جدو جہد کا فیصلہ کرتا ہے اور اس عصبیت کے حاملین اس مقصد کے لیے ایک سیاسی جماعت بنا لیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال 1906ء میں قائم ہونے والی آل انڈیا مسلم لیگ ہے جو ہندوستان کی مسلم قوم کے حقوق کے تحفظ کے لیے وجود میں آئی۔ دوسرا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ اجتماعی سطح پر ایک سیاسی بحران ہے۔ اقتدار کسی غیرملکی‘ غاصب یا غیرجمہوری قوت کے پاس ہے اور ملک کا سیاسی نظام مروجہ جمہوری اصولوں یا کسی عمرانی معاہدے کے تحت نہیں چلایا جا رہا۔ عوام کو یہ حق دلوانے اور سیاسی بندو بست کو کسی معاہدے کا پابند بنانے کے لیے اس ملک کے چنیدہ لوگ مل کر ایک سیاسی جماعت بنا لیتے ہیں۔ اس کی مثال 1885ء میں متحدہ ہندوستان میں جنم لینے والی کانگرس ہے۔
تیسرا سبب کوئی سیاسی نظریہ ہو سکتا ہے۔ ایک سیاسی نظریے کا حامل کوئی فرد یا گروہ یہ فکر رکھتا ہے کہ ریاست کا نظام جب تک اُس کے نظریے کا تابع نہ ہو‘ ان اہداف کا حصول ممکن نہیں جن کے لیے ریاست وجود میں آتی ہے۔ وہ اپنے نظریاتی ہم نواؤں کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے سیاسی جماعت بناتا ہے۔ اس کی مثال جماعت اسلامی ہے یا کمیونسٹ پارٹی۔ چوتھا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ سیاسی عمل میں شریک کسی فرد کو سیاسی حالات کی کوئی بے ساختہ کروٹ مقبول بنا دیتی ہے اور وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اگر وہ اپنی اس مقبولیت کو سیاسی جماعت کی صورت میں منظم کر لے تو کلی اقتدار کا پھل اس کی جھولی میں گر سکتا ہے۔ اس کی مثال پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔
پانچواں سبب یہ ہے کہ کسی جمہوری یا اخلاقی استحقاق کے بغیرمسندِ اقتدار پر قابض کوئی فرد یا گروہ حالات کے جبر کے تحت یہ ضرورت محسوس کرتا ہے کہ اپنے اقتدار کو کوئی اخلاقی یا جمہوری جواز فراہم کرے۔ اس کے لیے وہ عوام میں مقبول ایک چہرہ تلاش کرتا ہے۔ اس چہرے کو وہ سرخی و غازہ کی مدد سے عوام کے لیے خوش نما بنا دیتا اور ایک سیاسی جماعت بنا کر بظاہر اقتدار اس کے حوالے کر دیتا ہے۔ اقتدار کا مرکز اپنی جگہ قائم رہتا ہے مگر عوام اس دھوکے کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اقتدار اُن کے منتخب نمائندے کے ہاتھ میں ہے۔ یوں قابض گروہ یا فرد کے اقتدار کو استحکام نصیب ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک سے زیادہ مثالیں ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ میں اگر نام نہ لوں تو بھی ان کی شناخت مشکل نہیں۔
سیاسی جماعتیں ارتقا سے گزرتی ہیں۔ یہ لازم نہیں کہ وہ جس مقصد کے لیے قائم ہوئی ہوں یا ابتدا میں اُن کا جو تشخص ہو وہ بعد کے ادوار میں بھی اسی کی حامل رہیں۔ مسلم لیگ کے کئی دھڑوں اور تحریک انصاف کے قیام کا مقصد کچھ اور تھا مگر حالات نے ان کے سیاسی کردار اور تشخص کو بدل ڈالا۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ حالات کے جبر سے آنے والی تبدیلی بھی ان میں سے کسی کو وہ سیاسی جماعت نہ بنا سکی جس کی پاکستان کو ضرورت تھی۔ وہ اپنے داخلی نظام میں جمہوری روایات کی پاسداری کر سکیں اور نہ حقیقی جمہوریت ہی کے لیے یکسو ہو سکیں۔ پاکستان کو ایک ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت رہی ہے جو ملک کو حقیقی طور پر ایک جمہوری ریاست بنا نے کے لیے سنجیدہ ہو اور ایک ایسا سیاسی کلچر دے سکے جو جمہوری روایات اور اخلاقی اقدار کا محافظ ہو۔ جو اپنے کارکنوں کو سیاسی طور پر باشعور بنائے۔ سیاسی شعور کا مطلب یہ ہے کہ جماعت کے کارکنوں کی وابستگی جمہوری اور اخلاقی سیاسی اقدار کے ساتھ ہو نہ کہ کسی فرد یا خاندان کے ساتھ۔ اس جماعت کا داخلی نظام جمہوری ہو اور اس میں کسی انحراف کو گوارا نہ کیا جائے۔ اس طرح کی جتنی جماعتیں ہوں گی‘ سیاست اتنی ہی شفاف اور ریاست اتنی ہی مستحکم ہو گی۔
پاکستان میں آج قومی سطح پر کوئی ایک ایسی سیاسی جماعت موجود نہیں۔ افراد اور خاندانوں نے اس سیاسی عصبیت کو‘ جو بوجوہ ان کے لیے پیدا ہو گئی‘ انفرادی اور خاندانی اقتدار کے لیے استعمال کیا۔ اس قوت کو بروئے کارلا کر نہ تو ایسی جماعت بنائی جو جمہوری روایات کا نمونہ ہو اور نہ ہی قومی سیاست میں اس کردار کا مظاہرہ کیا جو جمہوری اقدار کے ساتھ ان کی مستقل وابستگی کو ثابت کرتا ہو۔ انفرادی سطح پر کچھ لوگوں نے بعض مراحل پر بلند ہمتی کا ثبوت دیا مگر اس میں تسلسل کو باقی نہ رکھا جا سکا۔ اس کا جواز موجود ہے کہ اقتدار کی سیاست مثالی نہیں ہوتی اور موجود امکانات کی پابند ہوتی ہے۔ دیوار سے سر ٹکرانے کو سیاست نہیں کہتے‘ تاہم چند اصولوں کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی وابستگی غیرمشروط ہو تی ہے جسے باقی رہنا چاہیے۔ یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب کسی سیاسی لیڈر کے پیچھے ایک مضبوط جماعت ہو۔ راہ نما عوامی حساسیت کی وجہ سے اصولوں پرکھڑا رہتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا انحراف اسے عوام کی نظروں سے گرا دے گا اور وہ منصبِ قیادت پر فائز نہیں رہ سکے گا۔
پاکستان میں آج کانگرس کی طرز پر ایک سیاسی جماعت کی ضرورت ہے۔ ایسی جماعت جو داخلی سطح پر جمہوری کلچر کی پابند ہو اور پوری قوم کی نمائندگی کرے۔ جس کے پاس تحصیل اور ضلع کی سطح پر ایسی تنظیم موجود ہو‘ جو آئین‘ پارٹی‘ منشور اور سیاسی اقدار کی بنیاد پر عوام میں متحرک ہو۔ جس میں لیڈروں کے احتساب کا نظام ہو۔ وہ پارٹی ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور عوام کے اقتدار کے لیے جدوجہد کرے اور ایسا داخلی نظم تشکیل دے جو اخلاقی طور پر بہتر قیادت کو سامنے لا سکے۔ اس میں کارکنوں کی سیاسی تربیت کا اہتمام ہو جو اِن میں سیاسی شعور پیدا کرے تاکہ وہ کسی کلٹ یا خاندان کی ذہنی غلامی کا شکار نہ بنیں۔ کسی فرد یا خاندان کے ساتھ نسبت میں فی نفسہٰ کوئی برائی نہیں‘ اگراس کی بنیاد اخلا قی اور جمہوری اقدار کے ساتھ وابستگی پر ہو۔ پھر یہ کہ اس جماعت کے کارکن ان مقاصد کے لیے یکسو ہوں جن کے حصول کے لیے سیاست کی جاتی ہے۔ وہ غیرضروری مذہبی اور نظریاتی مباحث میں الجھنے سے گریزکریں۔ ہر معاشرے میں الگ سے فورمز ہوتے ہیں جو عوام کی فکری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ان کے کام سے استفادہ کرتی ہیں مگر خود کو ایسی بحثوں سے الگ رکھتی ہیں۔
اس جماعت کو ممکن ہے ابتدا میں سیاسی عصبیت میسر نہ آئے۔ اسے برسوں جدوجہد کرنا پڑے۔ اس کے باوصف اسے خود کوحبِ عاجلہ سے محفوظ رکھنا ہو گا۔ جنہوں نے عجلت میں اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کی انہوں نے خود کو اور پھر ملک اور جماعتوں کو برباد کر ڈالا۔ اس لیے آج قوم کو کسی نئے سیاسی لیڈر کی نہیں‘ ایک سیاسی جماعت کی ضرورت ہے۔ ایسی جماعت جو سیاسی لیڈر پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ سیاسی قیادت پیدا کرنے کا فطری طریقہ یہی ہے۔ تاریخ میں اس سے انحراف بھی ہوا ہے لیکن بالعموم اس کے نتائج مثبت نہیں رہے۔ ہمیں اُس سیاسی کلچر کی ضرورت ہے جو حقیقی سیاسی قیادت پیدا کرے۔ یہ کلچر مضبوط اور اصولی مؤقف کی بنیاد پر قائم سیاسی جماعتیں ہی دے سکتی ہیں۔ ہم نے لیڈر سے سیاسی جماعت برآمد کی۔ اب سیاسی جماعت سے لیڈر برآمد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔