فلسطین کے دہکتے الاؤ کی تپش مالٹا نے تو محسوس کر لی مگر اہلِ عرب کے یخ بستہ اعصاب میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوئی۔ ان کی سخت جانی کی داد دینا پڑتی ہے کہ وہ اپنے دامن سے اُلجھتی اس آگ سے بے خبر ہیں۔ کیا اُن کا گمان ہے کہ یہ ایران اسرائیل کی جنگ ہے‘ وہ جس سے لاتعلق رہ سکتے ہیں؟ کیا وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ ان کا دامن اس آتشِ بے کنار سے محفوظ رہ سکے گا؟
عرب عوام مضطرب ہیں۔ خاموشی ہے تو اقتدار کے ایوانوں میں۔ عوامی اضطراب مجھے خدشہ ہے کہ اس بار کسی 'عرب خزاں‘ کو جنم دے سکتا ہے۔ اسرائیلی مظالم پر ساری دنیا سراپا احتجاج ہے۔ اہلِ عرب کی عزتِ نفس کیلئے یہ ایک تازیانے سے کم نہیں۔ جس طرح کل تیونس میں ایک چھوٹے سے واقعے نے 'عرب بہار‘ کی تحریک کو جنم دیا تھا‘ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس بار بھی کوئی واقعہ دیا سلائی بن جائے اور عرب کے خزاں رسیدہ پتوں میں ایک الاؤ دہکا دے۔ یہ ممکن ہے کہ 'عرب خزاں‘ بھی 'عرب بہار‘ کی طرح کسی خوشخبری پر منتج نہ ہو۔ اس کا امکان لیکن رد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ آگ بہت کچھ بھسم کر ڈالے جس میں اقتدار کے بعض ایوان بھی شامل ہوں۔ طیب اردوان بلدیا تی الیکشن کیوں ہارے؟ اس کا ایک سبب مسئلہ فلسطین سے ان کی بے اعتنائی بھی قرار دی جاتی ہے۔ ترکیہ میں چونکہ جمہوریت ہے‘ اس لیے عوام کے جذبات کا اظہار ووٹ سے ہو جاتا ہے۔ دیگر عرب ممالک میں مگر عوام اندر ہی اندر سلگتے رہتے ہیں۔
عرب حکمران طبقے کی سوچ میں ایک ارتقا ہے۔ خلافت سے عرب نیشنل ازم اور اب قومی ریاست۔ ان کے عروج کی ابتدا ہوئی تو یہ بنی اسماعیل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق ان کو اقتدار عطا فرمایا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دیا۔ اس کے ساتھ انہیں اُمتِ وسط کے منصب پر فائز کیا گیا۔ وہ اللہ کے آخری رسول محمدﷺ اور عالمِ انسانیت کے مابین ایک واسطہ ہیں۔ انہیں عالمِ انسانیت کیلئے حق کی شہادت دینی ہے جس طرح نبی نے ان پر حق کی شہادت دی۔ (البقرہ:143)۔
اپنی تاریخ کے ابتدائی دور میں انہوں نے اپنے عہد کا لحاظ رکھا۔ خدا نے بھی اپنا عہد نبھایا اور ان کو دنیا ہی کا نہیں‘ دین کا بھی مرکز بنائے رکھا۔ پھر ان میں قوم پرستی آنے لگی اور علامہ اقبال کے الفاظ میں وہ دھیرے دھیرے 'عرب امپیریل ازم‘ کا نمونہ بن گئے۔ داخلی طور پر وہ بنو ہاشم‘ بنو امیہ اور بنو عباس کی عصبیتوں میں سمٹنے لگے۔ پھر عثمانیوں کے مقابلے میں عرب عصبیت ایک بڑی سیاسی قوت بنی‘ اگرچہ خلافت ان سے چھِن گئی۔ اہلِ فارس سے سیادت کی جنگ بھی جاری تھی۔
بیسویں صدی میں جب سلطنتوں کا دور ختم ہوا اور قومی ریاستیں نمودار ہوئیں تو عرب عصبیت نے پھر سر اٹھایا اوراس شناخت کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں کئی ریاستیں وجود میں آئیں۔ ابتدا میں محمد بن عبدالوہاب کی تحریک کے اثرات نے سعودی عرب کے اقتدار کو مذہب سے جوڑے رکھا مگر آہستہ آہستہ اس کی گرفت ماند پڑنے لگی۔ کچھ عرصہ دنیا بھر میں محمد بن عبدالوہاب کے فکر پر مبنی تحریکوں کی سرپرستی کی گئی اور ریاستی سطح پر بھی ایک فقہی ادارہ قائم رہا۔ اس سے ریاست کے سیاسی مفادات بھی وابستہ تھے جن کا تعلق مشرقِ وسطیٰ سے تھا۔ محمد بن سلمان کی آمد نے مذہب اور علاقائی سیاست کے باب میں ریاست کا نقطۂ نظر یکسر تبدیل کردیا۔
اس سے پہلے اسلام کی اشاعت اور اہلِ فلسطین کی تائید ان کی حکمتِ عملی کے اہم ستون تھے۔ دنیا بھر کی غیر وہابی اسلامی تحریکوں کی بھی نصرت کی جاتی تھی۔ ان میں مصر کی الاخوان المسلمون بھی شامل تھی۔ اخوان پر مصر کی زمین تنگ ہوئی‘ سعودی عرب ان کی پناہ گاہ بنی۔ سید قطب کے بھائی محمد قطب نے زندگی کا آخری حصہ وہیں گزارا۔ جب اسلام کی جہادی تعبیر مقبول ہوئی اور بادشاہت کا نظام براہِ راست اس کی زد میں آتا دکھائی دیا تو 'سیاسی اسلام‘ سعودی مملکت کیلئے قابلِ قبول نہیں رہا۔ اخوان کیلئے سعودی عرب کے دروازے بند ہوئے۔ سید قطب اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیٰ کی کتب پر پابندی عائد کر دی گئی۔ یہی مولانا مودودی تھے جن کے اس علمی کام کی اعتراف میں‘ جو ان کتابوں میں بند ہے‘ انہیں خدمتِ دین کے سب سے بڑے شاہ فیصل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
شواہد یہ ہیں کہ نئی قیادت کو اب اس سے کوئی سروکار نہیں کہ بنی اسماعیل کی دینی ذمہ داری کیا ہے۔ مسئلہ فلسطین کی دینی اہمیت کیا ہے؟ ان کی صرف ایک ترجیح ہے اور وہ مادی ترقی ہے۔ اس کیلئے وہ غیرمعمولی اقدامات کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس ترقی کیلئے خطے میں امن ضروری ہے اور یہ امن متقاضی ہے اسرائیل کو ایک حقیقت مان لیا جائے۔ اس جانب پیش رفت جاری ہے۔ اس سفر کی منزل مگرکیا ہے؟اس کا ایک جواب تو الہامی ادب میں موجود ہے۔ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ سیدنا ابراہیمؑ کی بعثت کے ساتھ نبوت و امامت کو ان کے خاندان میں خاص کر دیا گیا۔ یہ امامت کچھ شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔ اس سے انحراف کی سزا اس منصب سے معزولی ہے۔ بنی اسرائیل کو پہلے یہ منصب دیا گیا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد کو پورا نہیں کیا اور شہادت علَی الناس کی ذمہ داری ادا نہیں کی تو ان کو اس منصب سے معزول کرتے ہوئے تاقیامت ان پر ذلت مسلط کر دی گئی۔ اس کے بعد یہ منصب بنی اسماعیل کو دے دیا گیا۔ ان کے ساتھ بھی اللہ کا وعدے انہی شرائط کے ساتھ ہے جو بنی اسرائیل کیلئے تھیں۔
دوسرا جواب معاصر سیاست کے تناظر میں تلاش کرنا چاہیے۔ عرب دنیا کا مطمح نظر مادی بن چکا۔ عرب امارات پہلے ہی اس راہ پر چل رہا تھا۔ ابوظہبی میں مندر قائم ہو چکا۔ قطر کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ایران نے البتہ ان کیلئے ایک مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ یہ اب عربوں کو سوچنے پر مجبور کرے گا۔ ایک تو یہ کہ ایران نے عرب شیعہ اقلیت کو متحرک کر دیا ہے۔ یہ تحرک بے نتیجہ تو نہیں رہے گا۔ عراق‘ لبنان‘ یمن‘ بحرین‘ ہر طرف عربوں کو اس چیلنج کا سامنا ہے۔ یہ سامنا تصادم سے بچے بغیر نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ کہ مذہبی تشخص کو قربان کرکے بھی اس صورتحال سے نہیں نمٹا جا سکتا۔ سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ ہیں۔ دوسری جانبعراق اور ایران میں ہونے والے مذہبی اجتماعات کہا جاتا ہے کہ حج سے بڑے ہوتے ہیں۔ محض نیوم (Neom) جیسے شہر اور ورچوئل سٹی آباد کرنے سے تو اس چیلنج کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ دبئی کے بڑے ہوٹل اور تجارتی مراکز بھی اس چیلنج کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔
عرب دنیا کی سیاست غیرمذہبی نہیں ہو سکتی۔ مکہ اور بیت المقدس دو مقامات ایسے ہیں جنہیں عالم کے پروردگار نے مراکزِ توحید قرار دے کر اپنے لیے خاص کر دیا ہے۔ گویا یہ وہ سرزمین ہے جہاں پیش آنے والے واقعات سے خدا براہِ راست متعلق ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی صورت گری کو صرف انسانی تدبیر کے حوالے نہیں کیا گیا۔ پھر یہودیوں کی ایک بڑی تعداد کیلئے بھی اسرائیل کا وجود ایک مذہبی تشخص رکھتا ہے۔
عرب حکمران طبقے کو اس لیے فلسطین اور عرب سیاست کو دینی نقطۂ نظر سے سمجھنا ہو گا۔ اگر انہوں نے اسے صرف مادی نظر سے دیکھا تو مجھے خدشہ ہے کہ خدا کے اس فیصلے کا پھر ظہور ہو سکتا ہے جو بنی اسرائیل کیلئے اس سے پہلے ظاہر ہو چکا۔ یہ کب ہو گا۔ کل ہو گا یا سال کے بعد‘ خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔