آج آپ کو کچھ تعلیمی خبریں دینی ہیں۔
اسلام آباد میں ایک سرکاری سکول ایسا ہے جس کا ہر کمرہ ٔجماعت‘ تعلیم کا عملی نمونہ ہے۔ جس کی دیواروں پہ خوبصورت نقش و نگار ہیں جو ایک تدریسی ہنر کا مظہر ہے۔ جس میں کھلونوں اور دوسرے غیر روایتی طریقوں سے بچوں کو تعلیم دی جا تی ہے۔ جہاں بچوں کو کھانا دیا جاتا ہے۔ جہاں پڑھنے والے بچوں کی اکثریت کا تعلق خطِ افلاس سے کہیں نیچے زندگی گزارنے والی مسیحی آبادی سے ہے۔
اسلام آبادکے تمام سرکاری پرائمری سکولوں میں یکم مئی سے بچوں کو مفت کھانا ملے گا اور یہ کھانا حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق ہو گا۔ ایک سکول میں تو چند ماہ پہلے سے یہ نظام وجود میں آ چکا۔ میں شاید اس پر یقین نہ کرتا‘ اگر میں نے یہ سکول بچشمِ سر نہ دیکھا ہو تا۔ اسلام آباد ہی کے جی نائن سیکٹر میں ایک سرکاری سکول اپنی سہولتوں کے اعتبار سے ایسا ہے کہ پانچ ستارہ ہوٹل کا مقابلہ کرتا ہے۔ اس سکول میں عام شہریوں کے بچے پڑھتے ہیں‘ وہ والدین جنہوں نے شاید ہی کبھی پانچ ستارہ ہوٹل‘ اندر سے دیکھا ہو۔ جی نائن سیکٹر کم آمدنی والے سرکاری ملازمین اور لوگوں کا علاقہ ہے۔
وفاقی سکولوں میں تدریس کے نئے طریقے بھی متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ فرسودہ طریقوں سے نجات حاصل کی جا رہی ہے جن سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو جلا ملتی ہے نہ نشاطِ فکر۔ مثال کے طور پر ریاضی کی تدریس کیلئے 'سنگا پور میتھ‘ کا ماڈل اپنایا گیا ہے۔ یہ ماڈل کیا ہے؟ یہ تین بنیادی تصورات پر مشتمل ہے: ٹھوس(concrete)‘ مصور(pictorial)‘ تجرید (abstract)۔ اس کے مطابق پہلے ٹھوس اشیا‘ جیسے کھلونوں سے گنتی سکھائی جاتی ہے۔ پھر تصاویر سے آگے بڑھا جاتا ہے اور آخری مرحلے میں مجرد سوالات حل کرائے جاتے ہیں۔ یہ پہلی سے چھٹی جماعت تک کیلئے ہے۔بچوں کو مضرِ صحت اشیا سے بچانے کیلئے‘ تعلیمی اداروں میں پلاسٹک کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اب 'جنک فوڈ‘ اندر نہیں لایا جا سکے گا۔ پرائمری تک تو کھانا ملے گا۔ باقی بچے گھر کا کھانا لا سکیں گے یا پھر پھل وغیرہ۔ ہمارے ہاں بازار میں پیکٹوں میں بند جو کچھ ملتا ہے‘ اس سے ہم سب باخبر ہیں۔ اگر سب ادارے ان کے داخلے کو اسی طرح بند کر دیں تو ایک بڑی تعداد کو اس سے محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔
پھر یہ کہ روایتی تعلیم روزگار کی ضمانت نہیں بن سکتی‘ اگر آپ کوئی ہنر نہیں جانتے۔ اس وقت زیادہ مانگ ہنر مند لوگوں کی ہے۔ وفاقی وزارتِ تعلیم نے سولہ کالجوں میں اضافی طور پر مصنوعی ذہانت‘ ڈیٹا سائنس اور کمپیوٹر گیمز سمیت کئی نئی مہارتوں کی تدریس کے لیے‘ ششماہی کورسز شروع کر دیے ہیں۔ ریاضی‘ کمپیوٹر سائنسز اور شماریات کے طلبہ و طالبات کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنی مہارت میں اضافہ کریں۔ اس کے لیے ان اداروں میں شام کو کلاسز ہوں گی۔ گویا شام کے اوقات میں یہ ادارے آئی ٹی انسٹیٹیوٹس ہوں گے۔ انہیںNUST اور COMSATSجیسی اچھی شہرت رکھنے والی جامعات کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے۔
یہ بات بھی آپ کیلئے باعثِ حیرت ہو گی کہ ان کاموں پر حکومت کا ایک پیسہ اضافی خرچ نہیں ہو رہا۔ اس کیلئے بین الاقوامی اداروں‘ نجی شعبے اور سول سوسائٹی کا تعاون حاصل کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر مفت کھانے کے اس پروگرام کو ایک ٹرسٹ کا تعاون میسر ہے۔ اسی طرح جی نائن میں جو سٹیٹ آف آرٹ سکول قائم کیا گیا ہے‘ وہ محکمہ کسٹم اور اس کے نیک دل افسران کے ایثار کا نتیجہ ہے۔وزارت کی اس ساری سعی وجہد کے پس منظر میں نئے وفاقی سیکرٹری تعلیم کی شخصیت ہے۔ انہوں نے اس سے پہلے گلگت بلتستان میں بحیثیت چیف سیکرٹری ایسے ہی حیرت انگیز کارنامے سر انجام دیے ہیں۔ میں اگر ان اقدامات سے براہِ راست واقف نہ ہوتا تو شاید ہی یقین کرتا کہ بیورو کریسی کے بارے میں ہماری عمومی رائے اچھی نہیں۔ کسی کے بارے میں اچھی خبر سنیں تو کانوں پر یقین نہیں آتا۔ وفاقی سیکرٹری تعلیم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کام کے روایتی طریقے اختیار نہیں کرتے۔ انہیں فائلوں سے نہیں‘ کام سے سروکار ہوتا ہے۔ وہ کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ ابھی بہت سے اساتذہ کو اعزازیہ دیا گیا جنہوں نے اپنی ذمہ داریاں دیانت اور محنت کے ساتھ ادا کیں۔یہ سب خیر کے کام ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ ان سے تعلیمی ماحول ہر طرح سے صحتمند ہو گا۔ ہم تعلیم کا ایک مقصد بہتر طور پر حاصل کر پائیں گے‘ جس کا تعلق سماج کو ہنرمند افراد کی فراہمی ہے۔ میری دلچسپی کا میدان مگر نئی نسل کی اخلاقی تعمیر ہے۔ جسم اور ذہن کے ساتھ اگر انسان کا اخلاقی وجود توانا نہ ہو تو وہ معاشرے میں فساد کا باعث بنتا ہے۔ کردار سازی اگر مقاصدِ تعلیم میں شامل نہیں ہے تو یہ تعلیمی عمل بے معنی ہے۔ ڈگری یافتہ اگر بات کرنے کا سلیقہ نہیں جانتے اور اختلاف کے آداب سے واقف نہیں تو پھر ایسی تعلیم کا کیا فائدہ؟
مجھے خوشی ہے کہ وفاقی سیکرٹری تعلیم نے اس بات سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا۔ اس کے لیے کردار سازی پر ایک جامع پروگرام کی تشکیل کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس کے خدوخال واضح ہو چکے اور اس کے لیے بھی نجی شعبے کا تعاون حاصل کیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر میں کئی برسوں سے ایک ادارہ قائم ہے جس نے کئی سو تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں۔ اس ادارے نے اب طلبہ و طالبات کی تعمیرِ سیرت کے لیے ایک ادارہ بنایا ہے۔ کردار سازی کے پروگرام میں‘ ادارے کے وژن اور تجربے سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔اس پروگرام کا مقصد طالب علموں میں اعلیٰ اخلاقی اوصاف پیدا کرنا ہے۔ یہ کام بھی وعظ و نصیحت سے کم اور عملی طریقوں سے زیادہ کیا جا رہا ہے۔ اس کیلئے جہاں تعلیمی ادارے‘ غیر محسوس طریقے سے اخلاقی تربیت کے مراکز بنیں گے وہاں اس بات کی شعوری کوشش کی جا رہی ہے کہ طلبہ و طالبات پر کوئی اضافی نصابی بوجھ نہ ڈالا جائے۔ 'قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی‘ اس کارِ خیر میں شریک ہے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی سیرت سے بہتر کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔ اتھارٹی اس مثال کوسامنے رکھتے ہوئے‘ وزارت کی معاونت کر رہی ہے۔ اس وقت اسلامیات کی جو تعلیم دی جا رہی ہے‘ اس پروگرام کے تحت اس بات کا اہتمام کیا جائے گا کہ یہ تعلیم نہ صرف دلچسپ انداز میں دی جائے‘ بلکہ اس کے لیے تدریس کے انداز بھی بدلے جائیں۔ مسلمان طالب علم نبی کریمﷺ کی شخصیت کو آئیڈیلائز کریں اور ان کے اخلاق سے نسبت پیدا کریں۔
ہمیں اب تمام امیدیں اس نسل سے وابستہ کرنی ہیں جن کی شخصیت تعمیر کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ 20برس سے زیادہ عمر کی نسل نے جو بننا تھا‘ بن چکی۔ اس کو ہم کچھ عملی مہارتیں سکھا سکتے ہیں تاکہ وہ مادی زندگی کے چیلنجوں کا بہتر طور پر سامنا کر سکے۔ اس کی اخلاقی شخصیت البتہ بن چکی۔ اسے صرف تذکیر کی جا سکتی ہے۔ تعمیرِ سیرت تواصلاً اس نسل کی ہونی ہے جو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والی ہے۔
وزارتِ تعلیم کو اس سے پہلے جن صاحب کی لیڈرشپ میسر رہی وہ بھی تعلیم اور سماج کے بارے میں ایک وژن رکھتے تھے اور سماجی تعمیر میں تعلیم کی اہمیت سے آگاہ تھے۔ انہوں نے بھی اس باب میں قابلِ قدر اقدامات کیے۔ اب یہ قیادت ایک فعال و متحرک شخصیت کے ہاتھ میں ہے۔ میں دعاگو ہوں کہ وفاقی سیکرٹری تعلیم اور وزارتِ تعلیم کی یہ ہمہ جہت کاوشیں نتیجہ خیز ہوں اور صوبے بھی اسی راہ پر چلیں کہ ملک کی بڑی آبادی کی تعلیم کا انحصار ان کی سنجیدگی پر ہے۔