پاکستان کے دو بڑے مسائل کون سے ہیں؟
مسائل میں لت پت کسی قوم کے اہلِ دانش سے یہ سوال کیا جائے تو اکثریت کے لیے شایدکوئی جواب نہ بن پائے۔ دریا کو کوزے میں بند کرنا آسان نہیں ہوتا۔ جب تمام جسم گھائل ہو تو دو ایسے زخموں کی نشاندہی مشکل ہوتی ہے جہاں مرہم رکھا جائے تو سارا بدن صحت مند ہو جائے۔ بعض معالج مگر ایسے ہوتے ہیں جو مرض کی جڑ تک پہنچتے اور وہ مقام دریافت کر لیتے ہیں جہاں اصلاً جراحی کی ضرورت ہے۔
شیخ الہند مولانا محمود حسن مالٹا کی اسیری سے نکلے تو جیل کی تنہائیوں میں انہیں اُمت کو درپیش دو بڑے مسائل کا ادراک ہوا: قرآن مجید سے دوری اور تفرقہ بازی۔ اُس وقت برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کو جن حالات کا سامنا تھا اور اسے جس وحدت و فکر کی ضرورت تھی‘ اسے سامنے رکھیے تو کہا جا سکتا ہے کہ شیخ الہند نے جسدِ ملت کے ان مقامات پر انگلی رکھ دی جہاں اصلاً جراحی کی ضرورت تھی۔
پاکستان کو بطور سماج اور ریاست جن مسائل کا سامنا ہے‘ وہ کیا ہیں؟ استاذِ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی نے برسوں پہلے دو بڑے مسائل پر انگلی رکھی تھی: سول ملٹری تعلقات اور مذہب و ریاست کا باہمی تعلق۔ میں نے جب بھی ملک اور معاشرے کو درپیش کسی مسئلے پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی جڑ یہی دو مسائل ہیں۔ یہ اصل ہیں اور باقی فروعی۔ جس دن ہم نے ان سے نجات پا لی قومی وجود صحت مند ہونا شروع ہو جائے گا۔
ہمارا المیہ دو چند ہے۔ حل تو ایک طرف‘ آج ان موضوعات پر کھل کر بات نہیں ہو سکتی۔ یہ ہمارے اصل مسائل کیسے بنے؟ دیگر مسائل ان کی شاخیں کیوں ہیں؟ ان کا حل کیا ہے؟ یہ سب سوالات اس ملک میں قومی سطح پر آزادی کے ساتھ موضوع نہیں بن سکتے۔ اگر تشخیص ہی پر اتفاق نہ ہو تو پھر علاج کیسا؟ پیرا سیٹامول کھانے سے عارضی افاقہ ممکن ہے‘ مرض سے نجات نہیں۔ یہ مسائل اگر 1950ء کی دہائی میں موضوع بنتے اور ہم ان کا علاج دریافت کر لیتے تو سقوطِ ڈھاکہ سے بچ جاتے۔ اگر 1970ء میں ان پر بات کی اجازت ہوتی تو آج ملک کے حالات مختلف ہوتے۔
دنیا میں وہیں امن ہے‘ سکون ہے‘ ارتقا ہے‘ ترقی ہے اور استحکام ہے جہاں قوموں نے ان دو بنیادی مسائل کو حل کر لیا ہے۔ مثال کے طور پر یورپ نے ان مسائل کے دو حل تلاش کیے: جمہوریت اور سیکولر ازم۔ جب قوم ان پر متفق ہو گئی تو اس کے بعد یورپ کی ترقی کا راستہ روکا نہیں جا سکا۔ یہی معاملہ امریکہ کا بھی ہے۔ وہاں لوگ اختلاف کرتے ہیں۔ ہر موضوع پر ایک سے زیادہ آرا پائی جاتی ہیں۔ یہ اختلاف مگر سماجی اضطراب پیدا نہیں کرتا۔ یہ دو کنارے ایسے ہیں جو اس اضطراب کو تھام لیتے ہیں اور اسے سونامی نہیں بننے دیتے۔
یورپ اور امریکہ نے جس حل پر اتفاق کیا ہے‘ لازم نہیں کہ ہمیں بھی اس سے اتفاق ہو۔ یہ ضروری نہیں کہ ہمارے امراض کا حل بھی یہی دوا ہو۔ ہماری سماجی تشکیل اور تاریخی تجربہ یورپ سے مختلف ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے پاس مذہب کے نام پر جو کچھ موجود ہے‘ وہ الہامی سرچشمے سے اس طرح جڑا ہوا ہے کہ اس میں اگر کوئی ملاوٹ ہو جائے تو اسے آسانی سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ اسے شفاف حالت میں دنیا کو دکھایا جا سکتا ہے۔ سرچشمے سے براہِ راست استفادہ ممکن ہے۔ یورپ کو یہ سہولت میسر نہیں تھی۔ زمانے کے گرد و غبار نے اس سرچشمے کو اس طرح ڈھانپ لیا تھا کہ وہ عام آدمی کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔ اس نے مجبوراً اہلِ مذہب کو اس سرچشمے کا متبادل مان لیا۔ متبادل مگر اصل مذہب کی جگہ نہ لے سکا بلکہ اس کے نام پر بٹا لگانے کا باعث بنا۔ یورپ کو بھلا اسی میں نظر آیا کہ جب اصل میسر نہیں تو نقل سے بھی نجات حاصل کر لی جائے۔
ہم اصل سرچشمے سے فیض یاب ہو کر دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ مذہب صرف سماجی و سیاسی استحکام ہی نہیں دیتا‘ انسان کے داخلی اضطراب کو بھی سکون سے بدل دیتا ہے۔ اس کے اخلاقی وجود کا تزکیہ کرتے ہوئے یہ صرف اس دنیا ہی میں سلامتی کا ضامن نہیں‘ پسِ مرگ آسودگی کا پیغام بھی ہے۔ یہ مقدمہ مگر اسی وقت سمجھایا جا سکتا ہے جب مذہب اور ریاست کا تعلق زیرِ بحث آئے۔ مذہب ہر طرح کے جھاڑ جھنکار سے صاف کرکے اس طرح لوگوں کے سامنے رکھا جائے جیسا کہ اپنے درسِ اوّل میں تھا۔ یہ وہ مذہب ہے جس نے دنیا کو صدیقؓ و فاروقؓ جیسے حکمران دیے۔ جس نے ایسی تہذیب دی جس میں انسان کے اخلاقی وجود کو ہر طرح کی آلائشوں سے محفوظ رکھتے ہوئے اس کے مادی‘ جمالیاتی اور معاشی مطالبات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔
آج سماج میں مذہب پر آزادانہ گفتگو کی اجازت نہیں۔ ہر مختلف آواز کو تفرد قرار دے کر نہ صرف رد کر دیا جاتا ہے بلکہ آواز لگانے والے کی جان سے خطرات لپٹ جاتے ہیں۔ اس سے ایک طرف مذہبی انتہا پسندی پیدا ہو رہی ہے اور دوسری طرف مذہب بیزاری۔ دونوں رویے غیرفطری ہیں۔ ان میں جو رویہ بھی غالب آئے گا اس کا ناگزیر نتیجہ اس خیر سے محرومی ہے جو مذہب سے وابستہ ہے۔
یہی معاملہ سول ملٹری تعلقات کا ہے۔ اس پر بھی کھل کر بات نہیں ہو سکتی۔ اس کے دو نتائج نکل رہے ہیں۔ ایک یہ کہ اہلِ سیاست کی جمہوریت سے وابستگی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ وہ اس نتیجے تک پہنچ چکے کہ جمہوری اقدار سے غیرمشروط وابستگی کا مطلب خود پر اقتدار کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کرنا ہے۔ وہ جان چکے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں‘ کوئی اور ہے۔ اس لیے اسی کے ساتھ وابستہ ہونا چاہیے۔ اس سے جمہوریت کے بارے میں ایک مایوسی پھیلی ہے اور سماج کا باصلاحیت طبقہ خود کو سیاست سے الگ کر رہا ہے۔ اس کا ناگزیر نتیجہ یہ ہے کہ سیاست کی باگ اخلاقی اور ذہنی طور پر پست لوگوں کے ہاتھ میں جا رہی ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ اقتدار کے مراکز پر قابض غیرجمہوری اداروں سے قوم کا قلبی تعلق کمزور ہو رہا ہے۔ اس کی بدترین صورت یہ ہے کہ یہ تعلق نفرت میں بدل جائے۔ کوئی ریاست ان نتائج کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
ممکن ہے کسی کے نزدیک یہ مقدمہ درست نہ ہو۔ اس کے لیے مگر لازم ہے کہ اسے رد کیا جائے۔ رد کے لیے بھی ضروری ہے کہ سماج میں اس پر آزادانہ گفتگو ہو۔ جو ان دو مسائل کو امہات المسائل سمجھتے ہیں‘ وہ عوام کے سامنے اپنے دلائل رکھیں اور جن کی رائے اس سے مختلف ہے وہ بھی اپنی بات کریں۔ ایک کھلی فضا میں مکالمہ ہو۔ ایسا مکالمہ جو عوام کو کسی ایک رائے پر یکسو کر دے‘ جس طرح یورپ نے اپنے فکری پس منظر کے مطابق یکسوئی حاصل کی۔ غیر واضح اور مبہم حالات تادیر نہیں چل سکتے۔ جب سماج میں پابندیاں ہوں اور آزادیٔ رائے کے فطری راستے بند ہو جائیں تو پھر اظہار کے غیرفطری طریقے وجود میں آجاتے ہیں۔ پھر جھوٹ پھیلتا ہے اور اس کا راستہ روکا نہیں جا سکتا۔
سوشل میڈیا اس کی واضح مثال ہے۔ جب سچائی تک رسائی کے دوسرے ذرائع باقی نہیں رہے تو لوگوں نے سوشل میڈیا پر رطب و یابس پھیلانے کو کاروبار بنا لیا۔ رائے سازی کا فورم ان ہاتھوں میں چلا گیا جو اس کے اہل نہیں تھے۔ جھوٹ کی اشاعت کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ اظہارِ رائے کے فطری ذرائع کھولے جائیں۔ عوام کو معلوم ہو کہ خبر کا ذریعہ کیا ہے اور رائے ساز اخلاقی اور ذہنی طور پر کس سطح کا آدمی ہے۔ اس سے افواہوں اور قیاس آرائیوں کا دروازہ بند ہو گا اور صحت مندانہ مباحث کا دروازہ کھلے گا۔