مسئلہ فلسطین کی پیدائش‘ اس کے نتیجے میں لاکھوں انسانوں کے قتل اور دربدری کی حقیقی ذمہ داری اُن عالمی قوتوں پر ہے جو اس دورِ جدید کی خالق ہیں جس کا نقطہ آغاز 'جمعیتِ اقوام‘ (League of Nations) کا قیام ہے۔ اسے بعد میں اقوامِ متحدہ کا نام دیا گیا۔برطانیہ نے یہ پودا کاشت کیا اور امریکہ پچھتر برس سے اس کی آبیاری کر رہا ہے۔ چند دن پہلے امریکی کانگرس نے اسرائیل کو 26 ارب ڈالر دے کر زبانِ حال سے ایک بار پھر اقرار کیا ہے کہ وہ نہ صرف اس ظلم کا سرپرست ہے بلکہ مستقبل میں بھی اسے جاری رکھنے کا عزم رکھتا ہے۔ قدیم ادوار میں کچھ عرصے کیلئے ایک جنگ ہوتی۔ بستیاں تاراج ہوتیں۔ انسانی لاشوں کے ڈھیر لگتے۔ کچھ وقت کیلئے گِدھوں کی خوراک کا اہتمام ہوتا اور تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہو جاتی۔ دورِ حاضر کے فاتحین کا ظلم ہے کہ تھمنے کو نہیں آرہا۔
ان قوتوں نے جانتے بوجھتے ظلم کیا اور اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کو پاؤں تلے روندا۔ وہ اس پر شرمندہ بھی نہیں۔ یہ جذباتی نہیں‘ تاریخ کا ثابت شدہ مقدمہ ہے۔ برادرِ عزیز آصف محمود کی کتاب ''فلسطین: بین الاقوامی قانون کے تناظر میں‘‘ اس موضوع پر ایک برہانِ قاطع کے طور پر سامنے آئی ہے۔ عالمی قوانین اور سیاسی واقعات کی بنیاد پر انہوں نے یہ مقدمہ اس طرح پیش کیا ہے کہ اس باب میں دوسری رائے کی گنجائش‘ کم ازکم عقل کی دنیا میں باقی نہیں رہی۔ اس بارے میں جو سوالات پیدا ہو سکتے تھے‘ انہوں نے کم و بیش سب کا جواب فراہم کر دیا ہے۔ لکھتے وقت مصنف نے عقل کی انگلی کے ساتھ اپنے دل کو بھی تھامے رکھا اور کوشش کی کہ قاری کے جذبات کو نہیں‘ دماغ کو مخاطب بنائیں۔ جذبات ایک ذاتی معاملہ ہے۔ ممکن ہے ایک واقعہ آپ کو آبدیدہ کردے اور وہی واقعہ میری سماعتوں کو تو مخاطب بنائے‘ دل کو نہ چھو سکے۔
فلسطین کا مسئلہ ہے کیا؟ مذہب‘ تہذیب اور جذبات کو ایک طرف رکھتے ہوئے‘ آصف صاحب نے صرف بین الاقوامی قانون اور واقعات کی روشنی میں اس کو بیان کیا ہے۔ میں آصف صاحب کی کتاب کے ایک حصے کا خلاصہ نکات کی صورت میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
1۔پہلی عالمی جنگ سے پہلے فلسطین خلافتِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔ اس جنگ میں عرب‘ ترکوں کے خلاف اور برطانیہ کے ساتھ تھے۔ شریفِ مکہ حسین بن علی اور برطانیہ کے لیفٹیننٹ کرنل ہنری مک موہن کے مابین ایک معاہدہ ہوا اور دونوں کے مابین یہ طے ہوا کہ فتح کی صورت میں عرب علاقے عربوں کے حوالے کر دیے جائیں گے ‘جن میں فلسطین بھی شامل تھا۔ عثمانیوں کو شکست ہوئی اور یہ علاقہ برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا۔
2۔اسی دوران‘ جن نئے عالمی اصولوں پر ان قوتوں نے اتفاق کیا تھا‘ ان میں یہ شامل تھا کہ اب جنگ کے ذریعے کوئی ملک کسی علاقے کو فتح کرکے اپنا حصہ نہیں بنائے گا۔ یہ انٹرنیشنل لاء کی ابتدائی صورت تھی۔
3۔برطانیہ نے حسبِ وعدہ یہ علاقہ عربوں کے حوالے نہیں کیا۔ معاملہ 'لیگ آف نیشنز‘ کے پاس گیا تو اس نے اسے 'مقدس امانت‘ کے طور پر برطانیہ کے حوالے کر دیا۔ اسے انتداب (Mandate) کہا گیا۔ لیگ آف نیشنز کے چارٹر کے آرٹیکل 22 میں 'انتداب‘ کی شرح کر دی گئی۔ اس کے مطابق جو علاقے سلطنتِ عثمانیہ میں شامل تھے مگر اس قابل نہیں کہ اپنی خود مختار حیثیت باقی رکھ سکیں‘ انہیں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں اور خود مختار ریاست کے طور اپنے معاملات سنبھالیں۔
4۔برطانیہ ایک طرف فلسطین کا قبضہ مقدس امانت کے طور پر لے رہا تھا اور دوسری طرف برطانوی کابینہ کی طرف سے 'اعلانِ بالفور‘ جاری کیا جا چکا تھا۔ اس میں فلسطین میں یہودیوں کا قومی وطن (Jewish National Home) بنانے کا عزم کیا گیا۔ یہ اعلامیہ کسی بین الاقوامی فورم کے سامنے نہیں رکھا گیا۔ یہ برطانوی وزیر خارجہ بالفور کا خط تھا جو اس نے ایک صہیونی بینکار کو لکھا۔ یہ خط ہی دستاویز شمار ہوتا ہے۔ عثمانی افواج کو 11 دسمبر 1917ء کو شکست ہوئی اور نومبر میں اعلانِ بالفور آ چکا تھا جب خلافتِ عثمانیہ موجود تھی۔ گویا ابتدا ہی سے اس 'مقدس امانت‘ کے بارے میں برطانوی منصوبہ یہی تھا۔5۔جمعیتِ اقوام کی کونسل نے اپنے چارٹر کے آرٹیکل 22 سے صریحاً انحراف کرتے ہوئے اعلانِ بالفور کے تحت برطانیہ کو فلسطین میں یہودی وطن بنانے کا کام سونپ دیا۔ برطانیہ نے ایک صہیونی ہربرٹ سیموئل کو فلسطین کا پہلا کمشنر مقرر کیا۔ وہ اتنا طاقتور تھا کہ یہاں مسلمانوں کے مفتیٔ اعظم کا انتخاب بھی اس کی توثیق سے ہوتا تھا۔ یہ ایک مقدس امانت میں خیانت کا دانستہ منصوبہ تھا۔ جب فلسطین میں عثمانیوں کی شکست ہوئی تو یہاں یہودیوں کی تعداد دو فیصد تھی۔ اس دوران غیرقانونی طور پر یہودیوں کو دنیا بھر سے یہاں منتقل کرنے کا کام شروع ہوا اور 1922ء میں یہ تعداد 11 فیصد ہو گئی۔ 1945ء میں یہ تعداد 30 فیصد تک پہنچ گئی۔ یہ اسرائیل کے قیام سے پہلے ہوا۔
6۔مینڈیٹ کی دستاویز کی تیاری میں جمعیتِ اقوام نے یہودیوں سے چھ مرتبہ مشاورت کی۔ عربوں سے ایک بار بھی مشورہ نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ فلسطین کی تقسیم اور یہودیوں کی آباد کاری پر بھی نہیں۔ اس عرصے میں یہودیوں کو سرکاری زمین الاٹ کی گئی۔ ان کی Haganah جیسی دہشت گرد تنظیمیں قائم ہوئیں اور ان کی سرپرستی کی گئی۔ یہودیوں کو ہتھیار رکھنے کی اجازت تھی مگر مسلمانوں پر پابندی تھی۔
7۔معاملات جمعیتِ اقوام سے اقوامِ متحدہ کے پاس آئے تو برطانیہ نے انتداب کے خاتمے کے لیے کہا اور مطالبہ کیا کہ اس مسئلے کو چارٹر کے آرٹیکل 10 کے تحت دیکھا جائے۔ اس کے مطابق جنرل اسمبلی صرف سفارشات کر سکتی ہے۔ برطانیہ پیل کمیشن(Peel Commission) کے تحت یہاں تقسیمِ فلسطین اور یہودی ریاست کے قیام کی سفارش کر چکا تھا۔ اس پر اقوامِ متحدہ کی سپیشل کمیٹی بنائی گئی‘ عربوں نے جس کا بائیکاٹ کیا۔ عربوں کا مطالبہ تھا کہ اہلِ فلسطین کو وہ حقوق دیے جائیں جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں طے کیے گئے ہیں۔ یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا۔ کمیٹی نے فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کا فارمولا پیش کر دیا جو چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی تھی۔
8۔سپیشل کمیٹی کے بعد ایک ایڈہاک کمیٹی بنی جس نے دو مزید سب کمیٹیاں بنائیں۔ کمیٹی نمبر دو نے 11 نومبر 1947ء کوجنرل اسمبلی میں اپنی سفارشات پیش کیں۔ اس کمیٹی نے لکھا کہ اعلانِ بالفور ایک ناجائز اور غیرقانونی دستاویز ہے۔ اور یہ کہ فلسطین پر فلسطینیوں کا حق فائق ہے۔ اس کمیٹی نے سفارش کی کہ فلسطین کا مسئلہ ایجنڈے سے خارج کر دیا جائے کیونکہ اقوامِ متحدہ کو یہ حق نہیں کہ وہ فلسطینیوں پر کوئی حل ان کے مرضی کے خلاف نافذ کرے۔ اس سب کمیٹی کی سفارشات کو ایڈہاک کمیٹی کے سربراہ نے رَدکر دیا۔
یہ کہانی یہاں تمام نہیں ہوتی مگر کالم تمام ہو گیا۔ واقعات کی ناقابلِ تردید شہادت ہے کہ اسرائیل کا قیام اس عالمی بندوبست کے اصولوں کے خلاف تھا جو ان عالمی قوتوں نے بنایا تھا۔ انہوں نے ایک منصوبے کے تحت ان اصولوں کو پامال کیا اور ایک مستقل فتنے کی بنیاد رکھی۔ اس قیام کے بعد کیا ہوا‘ اس کی تفصیلات اس سے بھی زیادہ ہوشربا ہیں جو آصف صاحب نے اپنی کتاب میں مکمل حوالوں کے ساتھ بیان کر دی ہیں۔ اسرائیل نے اپنی سرحدوں کو ناجائز طور پر آگے بڑھایا مگر کسی نے اس کے ہاتھ روکے نہ پاؤں۔ مصنف کا یہ بھی کہنا ہے کہ حقِ خود ارادیت کیلئے ہتھیار اٹھانے کا حق انٹرنیشنل لاء کے تحت قوموں کو حاصل ہے۔ موجودہ عالمی قانون کے مطابق حماس کی جد وجہد ناجائز نہیں۔یہ کتاب مزاحمت کی حکمتِ عملی یا مذہب کی تعلیمات کو زیرِ بحث نہیں لاتی۔ عالمی قوانین اور سیاست کے پس منظر میں مسئلہ فلسطین کی تفہیم کیلئے اس کا مطالعہ ناگزیر ہے۔