ہر ناپسندیدہ بات کے خلاف مزاحمت انسانی فطرت کا مطالبہ ہے‘ کسی ذی عقل کو اس سے انکار نہیں۔ انسانوں کے مابین مزاحمت کے جواز یا عدم جواز پر کبھی اختلاف نہیں ہوا۔ اگر ہوا ہے تو اس بات پر کہ مزاحمت کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔ یہ اختلاف اتنا فطری ہے کہ کوئی معاشرہ اس سے خالی نہیں رہا۔
مشرکینِ مکہ جب بدر کا انتقام لینے کیلئے مدینہ پر چڑھ دوڑے تو اہلِ اسلام میں اختلاف اس معاملے میں نہیں ہوا کہ مزاحمت کی جائے یا نہ کی جائے۔ اختلاف یہ تھا کہ یہ مزاحمت مدینہ کے اندر رہ کر کی جائے یا شہر سے باہر نکل کر۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ اہلِ فلسطین کی حق تلفی اور ان پر روا رکھے جانے والے مظالم پر کون صاحبِ دل ہو گا جو آسودہ ہو گا؟ گروہی مفاد یا تعصب الگ بات ہے‘ ورنہ ہر آدمی اس پر افسردہ ہے۔ اسے اس باب میں بھی کوئی تردد نہیں کہ اس ظلم کے خلاف مزاحمت ہونی چاہیے۔ اگر اسے اختلاف ہو گا تو اس حکمتِ عملی پر ہو گا جو میرے یا آپ کے نزدیک تو درست ہو سکتی ہے مگر اس کے خیال میں نہیں۔
مزاحمت کیسے کی جائے؟ ہر آدمی بقدرِ ہمت اوست اس کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس ہمت کا تعلق اس کی ذہنی سطح کے ساتھ ہوتا ہے اور سماجی حالات کے ساتھ بھی۔ ایک عقل مند آدمی ہمیشہ یہ سوچے گا کہ اسے وہ حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے جس کے نتیجے میں اس کی مزاحمت کامیاب ہو۔ کامیابی یہ ہے کہ جس مقصد کیلئے مزاحمت کی جا رہی ہے وہ حاصل ہو۔ اگر یہ کسی ظلم کے خلاف ہے تو اس کی کامیابی یہی ہے کہ ظلم کا خاتمہ ہو۔
کبھی اقدام کے بجائے صبر ایک بہتر مزاحمتی حکمت عملی ہوتی ہے۔ صبر کا جو مفہوم ہمارے معاشروں میں رائج ہے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے یہ کسی غیر مزاحمتی رویے کا نام ہے۔ جیسے یہ ظلم سہنے کے مترادف اور اس پر خاموش رہنا ہے۔ یہ صبر کا ایک خود ساختہ تصور ہے۔ دینی پہلو سے دیکھیں تو یہ وہ حکمت عملی ہے جو انبیاء کا خاصہ ہے۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے مکی دور کے تیرہ برسوں میں جو حکمت عملی اپنائی وہ صبر ہی تھی۔ یہ انبیاء کی مشترکہ صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں یہ اعلان فرمایا ہے کہ وہ صابرین کے ساتھ ہے۔ صبر کیا ہے؟ یہ مخالفانہ فضا میں اپنے مؤقف پر ثابت قدم رہنا ہے۔ یہ اقدام کیلئے مناسب وقت کا انتظار کرنے اور خود کو مشکل حالات کیلئے تیار کرنے کا نام ہے۔ یہ اس مہلتِ عمل کا نام ہے جس میں کوئی فرد یا گروہ خود کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ مشکلات سے نکل کر آسودگی کی دنیا میں قدم رکھ سکے۔
مزاحمت کا تعلق فرد یا گروہ کے حالات سے ہے۔ کبھی وہ اس قابل ہوتا ہے کہ ناموافق حالات کے خاتمے کیلئے اقدام کرتا ہے۔ کبھی وہ سمجھتا ہے کہ وہ زبان سے اس کے خلاف اظہار کرتے ہوئے مزاحمت کر سکتا ہے اور اس پر اکتفا کرتا ہے۔ کبھی حالات اتنے ناسازگار ہوتے ہیں کہ وہ اقدام کر سکتا ہے نہ بول سکتا ہے۔ اس صورت میں وہ دل میں ناپسندیدہ حالات پر کڑھتا اور برا مناتا ہے۔ یہ سب مزاحمت کی مختلف صورتیں ہیں۔ اسی بات کو ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے اور فرد کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ حالات کی نسبت سے اپنے لیے لائحہ عمل تجویز کرے۔
ایک مسلمان جب مزاحمت کا فیصلہ کرتا ہے تو سب سے پہلے یہ دیکھتا ہے کہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے کیا کوئی ہدایت دے رکھی ہے یا رسالت مآبﷺ کے اسوہ میں کیا راہ نمائی موجود ہے؟ وہ جانتے بوجھتے مزاحمت کے نام پر کسی ایسے فعل کا ارتکاب نہیں کرے گا جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کے خلاف ہو۔ دنیا کی فتح و شکست سے زیادہ اس کیلئے یہ اہم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں وہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کا مرتکب نہ ہو۔ اس کے نزدیک کامیابی یہی ہے کہ وہ مشکل حالات میں بھی خدا کے احکام سے بے نیاز ہو اور نہ ان سے صرفِ نظر کرے۔
مسلم تاریخ میں سیدنا حسین ابن علیؓ مزاحمت کا سب سے طاقتور استعارہ ہیں۔ صحت اور عدم صحت کی بحث سے قطع نظر‘ تاریخ کے مقبولِ عام واقعات کے مطابق وہ صبر اور مظلومیت کا منفرد امتزاج ہیں۔ صبر کے ساتھ حالات کے جبر کا سامنا کیا۔ کوئی اقدام نہیں کیا۔ ان کے ہاتھ سے کسی بے گناہ کی جان گئی نہ مال و اسباب۔ انہوں نے اپنا مؤقف بیان کیا اور استقامت کے ساتھ اس پر کھڑے رہے۔ آخری حد تک جنگ سے گریز کیا۔ بیان کیے گئے تاریخی واقعات سے ان کا جو سراپا ابھرتا ہے وہ سرتاپا صبر اور مظلومیت کا پیکر ہے۔ واقعہ کربلا کی اس تعبیر نے مسلم تاریخ میں ایک ایسی مزاحمتی سیاسی تحریک اٹھا دی ہے کہ اس کو روکنا اکثریت کے بس میں نہیں ہے۔
برصغیر کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیے تو دارالعلوم دیوبند اور مسلم کالج علی گڑھ‘ دونوں مزاحمت کے استعارے ہیں۔ یہ مزاحمت مسلمانوں کی زبوں حالی کے خلاف تھی۔ اکابرینِ دیوبند کے نزدیک اس کے ذمہ دار انگریز تھے اس لیے وہ ان کی مزاحمت کا ہدف بنے۔ سرسید کے نزدیک اس زوال کی ذمہ داری علم سے دوری اور ترقی کے عصری منہج سے غفلت پر تھی۔ انہوں نے جہالت اور اس غفلت کے خلاف مزاحمتی تحریک اٹھائی۔ کون ہے جو اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ دونوں طرح کی مزاحمت کے اثرات ہوئے اور دونوں نے مسلم قوم کے احیا میں ایک کردار ادا کیا۔
اہلِ فلسطین ہوں یا اہلِ کشمیر‘ دونوں کی حق تلفی ہوئی ہے اور دونوں کو مزاحمت کا حق ہے۔ اس سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ اختلاف تو اس باب میں ہے کہ مزاحمت کا درست طریقہ کیا ہے۔ سیاسی جدوجہد یا عسکری معرکہ آرائی؟ یہ دونوں مقدمات عقل کی عدالت میں پیش ہوں گے۔ اگر انہیں مذہبی رنگ دیا جائے گا تو پھر یہ مذہب و اخلاق کی عدالت میں بھی پیش کیے جائیں گے۔ ان سے آنے والے فیصلے ہی ان کے غلط یا صحیح ہونے کا فیصلہ کریں گے۔
بعض حلقے بندوق اٹھانے کو مزاحمت کا واحد طریقہ قرار دیتے ہیں۔ اس کی مخالفت کرنے والے کے بارے میں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ مزاحمت کا مخالف اور سہل انگار ہے۔ وہ بزدل اور میدانِ کارزار سے بھاگ رہا ہے۔ انہیں یہ اندازہ نہیں کہ جو اپنے مؤقف پر استقامت کی پاداش میں گھر بار چھوڑ دیتا ہے‘ وہ کتنا بہادر اور صاحبِ عزیمت ہے۔ ہجرت اسلامی تاریخ میں ایک ایسی قربانی ہے کہ مہاجرین کو ایک الگ اور اعلیٰ طبقہ مانا گیا ہے اور ان کے مستقل فضائل بیان ہوئے ہیں۔ ان کیلئے وہ اجر ہے جو کسی غیرمہاجر کیلئے نہیں۔ اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے کہ جب کچھ لوگ آخرت میں دین پر عمل نہ کرنے پر ناسازگار حالات کا عذر پیش کریں گے تو اسے رَد کر دیا جائے گا اور یہ کہا جائے گا: کیا خدا کی زمین اتنی وسیع نہ تھی کہ تم وہاں سے ہجرت کر جاتے؟‘ اس سے صرف بے بس لوگ مستثنیٰ ہوں گے (دیکھیے النساء: 97 تا 98)۔ وہ لوگ زمین کا نمک ہیں جو حق بات کہنے کی پاداش میں گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیے جاتے ہیں اور وہ یہ قربانی دے کر بھی حق گوئی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔
ظلم‘ ناانصافی اور جہالت کے خلاف ہر مزاحمت کرنے والا قابلِ قدر ہے۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ مزاحمتی حکمتِ عملی کا مقدمہ عقل اور اخلاق و مذہب کی عدالت میں ثابت ہے یا نہیں؟