خود شناسی ایک مشکل کام ہے۔ خود شناسی کے بغیر خدا شناسی کا دروازہ نہیں کھل سکتا۔ مذہب اور الحاد کی ساری بحث بھی اسی سے جڑی ہوئی ہے۔ نرگسیت کا مرض بھی اسی سے جنم لیتا ہے۔ ایک نرگسیت کیا‘ میرا خیال تو یہ ہے کہ ہر نفسیاتی عارضہ اور ہر فکری مغالطہ خود کو نہ پہچاننے کا نتیجہ ہے۔
عوارض کا کوئی علاقہ نہیں ہوتا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی درست ہے کہ باشعور اقوام نے خود کو مدتوں پہلے ایسی بیماریوں سے محفوظ بنا لیا ہے جن سے پسماندہ معاشرے آج تک لڑ رہے ہیں۔ پولیو ترقی یافتہ دنیا کے لیے قصۂ پارینہ ہے مگر پولیو ٹیمیں آج بھی میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں کہ 'یہاں کوئی بچہ ہے جسے قطرے پلائے جائیں‘۔ اس جسمانی عارضے کے ساتھ یہ اب نفسیاتی مرض بھی بن چکا ہے کہ یہ ٹیمیں پولیس کی نگرانی میں گھر گھر جاتی ہیں مگر اس کے باوصف ان کو بھی اور پولیس والوں کو بھی شہید کر دیا جاتا ہے۔
پولیو جیسی جسمانی بیماریوں کے ساتھ ترقی یافتہ معاشروں نے بہت سے نفسیاتی عوارض سے بھی بڑی حد تک نجات پا لی ہے۔ جیسے توہم پرستی۔ خود پسندی بھی ایسا ہی ایک مرض ہے۔ ہمارے ہاں یہ وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ خود شناسی نہ ہو تو خود پسندی پیدا ہوتی ہے۔ ہر آدمی خود کو بہت اہم سمجھتا ہے۔ وہ اظہارِ ذات کے مواقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس کی ایک صورت کتاب نگاری بھی ہے۔ یہاں اکثر کتابیں اس لیے نہیں لکھی جاتیں کہ کسی تخلیقیت کا اظہار یا علم کے موجود ذخیرہ میں اضافہ مطلوب ہے۔ کتابیں دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکثر محض اظہارِ ذات کے لیے لکھی گئی ہیں۔ لوگ کتاب لکھنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے‘ پھر اس کی رونمائی کا اہتمام بھی کرتے ہیں جہاں مقررین یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ کتاب اگر نہ لکھی جاتی تو دنیا کتنے عالی شان خیالات سے محروم رہ جاتی۔
خود پسندی کا مرض ان افراد میں بھی پیدا ہو جاتا ہے جو فی الواقع عام لوگوں سے ممتاز ہوتے ہیں۔ ان کی آزمائش یہ ہوتی ہے کہ وہ خود شناسی اور خود پسندی میں فرق کریں۔ اس احساس کا پیدا ہونا کہ قدرت نے مجھے کسی صلاحیت سے نوازا ہے اور اس سے انسانیت کی کوئی خدمت کی جا سکتی ہے‘ ایک قابلِ قدر جذبہ ہے۔ اس جذبے کے تحت کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ کوئی ادارہ بنایا جا سکتا ہے۔ کوئی جماعت قائم کی جا سکتی ہے۔ خود شناس آدمی مگر اس سارے عمل کو خدا کی عطا اور جذبۂ خدمت کے تحت دیکھتا ہے۔ اس خود شناسی سے اس میں شکر اور ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے جو اسے خود پسندی سے محفوظ رکھتا ہے۔
جب وہ یہ جان لیتا ہے کہ قدرت نے اسے کسی صلاحیت میں ممتاز کیا ہے تو وہ اس عطیۂ خداوندی کے شکر کے طور پر اس صلاحیت سے کام لیتا ہے۔ شکر یہ ہے کہ وہ اس کا ناجائز استعمال نہیں کرتا اوراسے انسانی خدمت کے لیے صرف کرتا ہے۔ خود کو اس حد کا پابند بنانے کے لیے ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ریاضت تذکیر ہے۔ آدمی خود کو مسلسل یاد دلاتا رہتا ہے کہ اس کی صلاحیت پروردگار کی عطا ہے اور وہ اس کے بارے میں اللہ کے حضور میں جواب دہ ہے۔
انسان جب اس جذبۂ شکر سے عاری ہو جاتا ہے تو وہ ہرصلاحیت کو اپنی ذات کا معجزہ سمجھتا اور منعمِ حقیقی کے احسان کا عملاً منکر ہو جاتا ہے۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ دنیا میں اس جیسا کوئی نہیں اور وہ اپنے امتیاز کے لیے کسی کا محتاج نہیں۔ یہ ایک مریضانہ ذہنیت ہے جو خود شناسی اور خود پسندی کی سرحدوں میں موجود حدِ فاصل کو منہدم کر دیتی ہے۔ خدا پر ایمان ہی وہ جذبہ ہے جو اس حد کو قائم رکھ سکتا ہے۔ الحاد کے پاس کوئی ایسا اخلاقی نظام موجود نہیں جوکسی فرد کو خود پسندی سے بچا سکے۔ اگر کوئی آدمی اس بات کا منکر ہو جائے کہ اس کی صلاحیت کسی کی عطا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ کسی کا شکر گزار نہیں ہو گا۔ پھر وہ یہی سمجھے گا کہ اس کے پاس جو فن اور صلاحیت ہے‘ وہ اس کی محنت اور جدو جہد کا ثمر ہے۔ گویا اپنی شخصیت کا خالق وہ خود ہے۔ یہی احساس خود پسندی کی اساس ہے۔ اس لیے کسی غیرمذہبی آدمی میں حقیقی تواضع کا پیدا ہونا مشکل ہے۔
تاریخ یہ ہے کہ مذہب بھی جب اپنے اصل ماخذ سے جدا ہوتا ہے تو مذہبی کلٹ وجود میں آتے ہیں۔ یہاں بھی خود پسند پیدا ہوتے ہیں اور لوگ جھوٹے دعووں کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مذہب کا مقدمہ یہ ہے کہ دعویٰ صرف پیغمبر کو زیبا ہے۔ اپنے طور پر مگر لوگوں نے بہت سے منصب ایجاد کر لیے اور خود کو ان پر فائز کر دیا۔ ختمِ نبوت کا معاملہ چونکہ بہت واضح تھا اس لیے اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کے بعد ہر مدعی نبوت کی زندگی اس کے کذب کی گواہ بن گئی۔ دیگر مناصب کے دعوے داروں کا راستہ مگر روکا نہ جا سکا۔ جیسے مہدی‘ جیسے مجدد۔
مولانا مودودی ان اہلِ علم میں سے تھے جو خود شناسی اورخود پسندی کے فرق سے واقف تھے۔ اس لیے وہ نبی کے بعد کسی منصب کو دعویٰ درست نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی شخص کا کارنامہ ہے نہ کہ دعویٰ‘ جو طے کرے گا کہ وہ مجدد یا مہدی جیسے کسی منصب پر فائز ہے۔ ایسے آدمی کو دعوے سے نہیں‘ اپنے کام سے غرض ہو گی اور وہ اپنے حصے کا کام کرکے دنیا سے رخصت ہو جائے گا۔ اس کے اثرات بتائیں گے کہ وہ کیا تھا۔
ترقی یافتہ معاشروں میں ایسے لوگ کم پیدا ہوتے ہیں جو اس طرح کا کوئی دعویٰ کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ وہاں کا نظام ہے جو سب افراد کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کریں۔ اس کے لیے ادارے بنتے ہیں۔ یوں ایک ادارے میں کئی باصلاحیت افراد اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرتے ہیں اور ان کی اجتماعی مساعی سے علم اور تہذیب کا علم آگے بڑھتا ہے۔ اس سے فرد میں یہ سوچ پیدا نہیں ہوتی کہ وہ کوئی غیرمعمولی انفرادیت رکھتا ہے یا ناگزیر ہے۔ وہ اپنے ارد گرد بہت سے لوگوں کو دیکھتا ہے جو اس سے ملتے جلتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ وہاں بھی غیرمعمولی آدمی قانونِ قدرت کے تحت خود بخود نمایاں ہو جاتا ہے۔ سسٹم اس کی مدد کرتا ہے مگر یہ عمل اسے خود پسند نہیں بناتا۔ اگر ہم بھی ادارے بنا سکیں تو یہاں بھی خود شناسی پیدا ہو کہ نہ خود پسندی۔
خود پسندی کا عارضہ جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو نرگسیت بن جاتا ہے۔ ایسے آدمی کا اخلاقی اور علمی ارتقا رُک جاتا ہے۔ وہ خود کو ناگزیر سمجھتا اور یہ چاہتا ہے کہ لوگ بھی اسے ایسا ہی سمجھیں۔ اس سے کلٹ پیدا ہوتے ہیں جو شخصیات پر اندھے اعتماد کو جنم دیتے ہیں۔ کلٹ کے لیڈر اگر لوگوں کوکسی کھائی میں گرانے پر تیار ہو جائیں تو وہ ہنسی خوشی قبول کر لیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو چکوال کی نسیم اختر کی کہانی یاد ہو گی جس کے کہنے پرکئی افراد سمندر میں کود گئے تھے۔
ایسے خود پسند کرداروں سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں ادارے بنانے چاہئیں جو باصلاحیت افراد کو اظہارِ ذات کے مواقع فراہم کریں۔ اس سے ان کی صلاحیتیں انسانیت اور سماج کے کام آئیں گی اور وہ خود پسندی کے مرض سے محفوظ رہ سکیں گے۔ اس کے ساتھ انہیں مذہب کی تعلیم دیں جو انسان میں تواضع اور شکرکے جذبات پیدا کرتا ہے۔ یہی جذبات اسے جھوٹے دعوؤں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ سماج میں ایسے کردار اس کے باوجود پیدا ہوں گے مگر ان کے پیروکار بہت کم ہوں گے۔