دانشور کون ہوتا ہے؟
یہ سوال پوری سنجیدگی کے ساتھ اُس وقت میرے سامنے آیا جب میں ایک ٹی وی چینل سے وابستہ تھا اور ایک پروگرام کی میزبانی کرتا تھا۔ مہمان جب سیٹ پر تشریف فرما ہو جاتے تواکثر میرے کانوں میں پروڈیوسر کی آواز آتی: ''سر! فلاں مہمان کے ساتھ کیا لکھنا ہے؟‘‘۔ یہ سوال مہمان کی شناخت سے متعلق ہوتا۔ برسوں بیت گئے مگر آج بھی بہت سے لوگوں سے ملتے وقت مجھے احساس ہوتا ہے کہ کوئی میرے کان سے لگا‘ مجھ سے یہی سوال پوچھ رہا ہے۔
ہر سماج میں افراد کی مخصوص شناخت ہوتی ہے جس کے بارے میں کبھی ابہام نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر‘ صحافی‘ سیاستدان‘ عالم‘ پروفیسر۔ ہم سب ان شناختوں سے واقف ہیں۔ اس لیے ایسے خواتین و حضرات کو پہچاننے میں ہمیں کبھی دقت نہیں ہوتی۔ بعض لوگ مگر ایسے ہوتے ہیں جن کا ایسے معروف طبقات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ کسی وجہ سے سماج میں نمایاں ہو جاتے اور پھر ٹی وی پروگراموں میں بھی بلائے جاتے ہیں۔ لوگ جب بھی ایسے لوگوں کی سماجی جنس کا تعین کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اسی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے جس میں سے میں اور میرا پروڈیوسر گزرتے تھے۔ جب اس سوال کا جواب نہیں بن پاتا تھا تو میں کہہ دیتا: ''ان کے ساتھ 'دانشور‘ لکھ دو‘‘۔ یوں ہم اس پُرخطر وادی سے آسانی کے ساتھ گزر جاتے۔
پچھلے پندرہ‘ بیس برس میں دیکھتے دیکھتے ایسے لوگوں کا ایک طبقہ وجود میں آچکا ہے جنہیں ہم دانشور کہتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو قومی منظر نامے پر انہی کا قبضہ ہے۔ میڈیا نے ان کی قبولیتِ عام میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ میڈیا سے وابستہ افراد سے یہ خصوصی تعلقات رکھتے ہیں اور عید‘ بقر عید پر انہیں کبھی نہیں بھولتے۔ جواباً یہ لوگ بھی مہمانوں کا انتخاب کرتے وقت انہیں یاد رکھتے ہیں۔ اپنی شناخت بنانے میں ان کی ذاتی خدمات بھی کم نہیں۔ انہوں نے زوروں سے خود کو دانشور منوایا ہے۔ اپنے وزٹنگ کارڈ پر وہ اپنا یہی تعارف لکھتے ہیں اور پھر اسے قبولیتِ عامہ مل جاتی ہے۔ یہ ابنِ انشا کے استاد سے متاثر لگتے ہیں۔ وہ خود کو 'ننگِ اسلاف‘ کہتے اور لکھتے تھے۔ آہستہ آہستہ سب نے مان لیا اور انہیں اسی 'عرف‘ کے ساتھ بلانا شروع کردیا۔
'دانشور‘ اسمِ صفت ہے۔ یہ اس کے لیے مستعمل ہے جس میں دانش پائی جاتی ہو اور اس کااظہار بھی ہوتا ہو۔ اتفاقاً دانش کا ایک جملہ سرزد ہو جائے تو کوئی دانشور نہیں بن جاتا۔ جیسے 'چور‘ اس کو نہیں کہتے جس نے کبھی ایک آدھ دفعہ چوری کی ہو۔ یہ اسی کے لیے استعمال ہو گا جس نے اسے پیشہ بنا لیا ہو اور اکثر اس کا مرتکب ہوا ہو۔ یہی معاملہ دانشور کا بھی ہے۔ لازم ہے کہ اس کے منہ اور قلم سے اکثر دانش کے موتی جھڑتے ہوں اور لوگ ان سے اپنے دامن بھرتے ہوں۔ سند اور معلومات دانش کی افزودگی میں کردار ادا کرتے ہیں۔ دانشور مگر ان کا محتاج نہیں ہوتا۔
سماج اور ریاست نے اس پہلو سے کبھی دانش کو پرکھنے کی کوشش نہیں کی۔ اس نے اسی کو دانشور سمجھا جسے ابلاغ کے ذرائع یا قوت کے مراکز نے بطور دانشور متعارف کرایا۔ آج عالم یہ ہے کہ جامعات میں ان لوگوں کو بھی دانشور کے طور پر بلایا جاتا ہے جو طبی‘ سماجی یا مذہبی ٹوٹکے بیچتے ہیں۔ چرب زبانی ان کی واحد مہارت ہوتی ہے جس سے ان کو دانشور مان لیا جاتا ہے۔ ظلم یہ ہے کہ اس کا ارتکاب وہ لوگ کرتے ہیں جو دنیا بھر میں دانش کی علامت ہیں۔ یہ یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ اگر وہ ایسے لوگوں کو دانشور کے منصب پر بٹھائیں گے تو اس سے اندازہ کیجیے کہ ان کی اپنی دانش کا عالم کیا ہو گا۔
حکومت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ سرکاری ادارے کو حکم ملتا ہے کہ وزیراعظم سے دانشوروں کی ملاقات کا اہتمام کیا جائے۔ سرکاری افسر سر جوڑ کر بیٹھتے اور ان لوگوں کی فہرست تیار کرتے ہیں جن کے سر پر دانش کی تہمت دھری جا سکے۔ چونکہ اس شناخت کے ساتھ سماج میں کوئی طبقہ پایا نہیں جاتا‘ اس لیے انہیں مشکل پیش آتی ہے کہ وہ یہ فہرست کیسے بنائیں۔ اگر انہیں صنعت کاروں یا صحافیوں کی فہرست سازی کا کام سونپا جائے تو وہ اسے آدھ گھنٹے میں نمٹا دیں۔ اس لیے کہ یہ معلوم اصناف ہیں۔ دانشوروں کا معاملہ یہ نہیں۔ سرکاری افسروں نے اس کا ایک آسان حل تلاش کر لیا ہے۔ وہ ٹی وی چینلزکے سیاسی شوز کے میزبانوں کی فہرست نکالتے اور اوپر بھجوا دیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے بغیر کسی اعتراض کے قبول بھی کر لیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے اوپر بیٹھے ہوئے بھی نہیں جانتے ہیں کہ دانش کہاں سے ملتی ہے۔
ہمارے ملک میں ایک دور تھا کہ پروفیسروں‘ وکیلوں اور صحافیوں کو دانشور سمجھا جاتا تھا۔ یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا۔ دانشور‘ واقعہ یہ ہے کہ ان طبقات ہی میں پائے جاتے تھے۔ اس کا سبب مگر ان کی پیشہ ورانہ مہارت نہیں تھی۔ انہوں نے کوئی کام ایسا کیا ہوتا تھا جو سماج میں دانش کے فروغ کا باعث بنا۔ اسی وجہ سے لوگوں نے انہیں دانشور مان لیا۔ جیسے خالد اسحاق اور اے کے بروہی وکیل تھے مگر عام آدمی انہیں ایک دانشور کے طور پر جانتا تھا۔ الطاف گوہر اور شورش کاشمیری صحافی تھے مگر لوگ جانتے تھے کہ زبان و بیان اورادب و تاریخ پر ان کی کیسی نگاہ ہے۔ اس کی گواہ ان کی کتب ہیں۔ حمید احمد خان ایک پروفیسر تھے مگر دراصل اس سے بڑھ کر تھے۔
اس کے بعد ہم زوال آشنا ہوئے۔ زوال ہمہ گیر ہوتا ہے۔ اس نے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دانش ہم سے روٹھ گئی۔ جو شے باقی نہ رہے اس کی پہچان بھی باقی نہیں رہتی۔ اس زوال کا ایک نقصان یہ ہوا کہ اگر کہیں کوئی دانشور پیدا ہوا بھی تو کم نظریں تھیں جو اس تک پہنچ سکیں۔ وہ بے قدری کا شکار ہوا اور گم نامی کی چادر میں لپٹا دنیا سے رخصت ہو گیا۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ دانش کے منصب پر وہ لوگ بیٹھ گئے جن کا دانش سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔
اس زوال کا سب سے زیادہ نقصان ریاست کو ہوا۔ وہ اعلیٰ درجے کے ذہنوں کی مشاورت سے محروم ہو گئی۔ جن حکمرانوں نے دانش سے واسطہ رکھا ان کی کارکردگی دوسروں سے بہتر رہی۔ ایوب خان صاحب کو قدرت اللہ شہاب‘ الطاف گوہر اور ڈاکٹر فضل الرحمن کی مشاورت میسر رہی۔ جنرل ضیاء الحق صاحب کو اے کے بروہی‘ زیڈ اے سلہری‘ الطاف حسن قریشی‘ مجیب الرحمن شامی اور مولانا عبدالرحمن اشرفی کا مشورہ ملتا رہا۔ لوگ یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ غیرآئینی حکمرانوں کی مشاورت فی نفسہٖ ایک غیردانش مندانہ عمل ہے۔ میرے نزدیک یہ اعتراض بے معنی ہے۔ مشورہ ہر اس آدمی کو دیا جا سکتا ہے جو اس کا طلب گار ہو۔ مشورے میں برائی نہیں۔ برائی غیرآئینی اقدام کی تائید اور اس سے مفادات وابستہ کرنے میں ہے۔ میں یہاں خود کو اپنے موضوع تک محدود رکھتا ہوں کہ جن حکمرانوں نے خود کو دانشوروں سے قریب رکھا‘ انہیں اس کا فائدہ ہوا۔ اور اگر ان کا مشورہ نہیں مانا تو خسارے میں رہے۔ المیہ تو ان حکمرا نوں کا ہے جو دانش کی پہچان ہی سے عاری ہیں۔ ان کی محرومی‘ ان کی کارکردگی سے بیان ہو رہی ہے۔
ہمارے سماج کا المیہ بھی یہ ہے کہ ایک مدت سے دانش کی پہچان سے محروم ہے۔ اس سے لوگوں میں غلط اور صحیح کی پہچان پیدا ہو سکی نہ فرد شناسی۔ عقل کی بنیاد پر کسی بات کو سمجھنے کا کلچر پیدا ہو سکا نہ خدا ہی کی صحیح معرفت نصیب ہوئی۔ المیہ در المیہ یہ ہوا کہ جس نے فی الواقعہ دانش کی بات کی اسے وِلن بنا دیا گیا۔ اس دانش بیزاری کے نتائج ریاست بھگت رہی ہے اور سماج بھی۔