فکری ارتقا اور کشادگی کے لیے کیا مذہب سے نجات لازم ہے؟
ہر دور میں چند خیالات فیشن کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ 'فیشن ایبل‘ دکھائی دینے کے لیے بعض خواتین و حضرات ان کی جگالی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مذہب کے عنوان سے کوئی بات ہو گی تو اس پر استہزا کا اظہار کریں گے۔ یہ تاثر دیں گے کہ کسی بات کے خلافِ عقل ہونے کی اس سے بڑھ کر دلیل کیا ہو سکتی ہے کہ وہ مذہبی ہو۔ مذہب کو سائنس کا مخالف ثابت کریں گے اور یہ بتائیں گے کہ جس دن ہم نے مذہب سے نجات حاصل کر لی‘ ہر دوسری گلی میں ایک آئن سٹائن بیٹھا ہو گا۔ یہ عمومی رویے کا بیان ہے‘ مذہب کے سنجیدہ ناقدین جس سے مستثنیٰ ہیں۔
رائج الوقت پیمانے سے پڑھے لکھے سمجھے جانے والے کچھ افراد بھی جب اسی بات کی تکرار کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کم پڑھے لکھے محض مرعوبیت میں اس مقدمے کو درست سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ گمان کرتے ہیں کہ جس کے علم پر ہاورڈ یا ایم آئی ٹی نے مہرِ تصدیق ثبت کر رکھی ہے وہ غلط کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ گمان بھی ایک عقیدے کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور عقیدے کی مخالفت کرتے کرتے وہ خود کسی کے معتقد بن جاتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو ان کی ڈگریاں مجھے بھی مرعوب کرتی ہیں۔ یہ ادارے بلاوجہ معروف نہیں۔ یہاں علم کو فروغ ملتا ہے اور فکرِ انسانی نے ارتقا کے بہت سے مراحل یہیں طے کیے ہیں۔
اسی مرعوبیت میں رہتے ہوئے جب ہم اپنے مشاہدے کا دائرہ وسیع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان اداروں نے جن کے علم پر اپنی مہر لگائی ہے وہ ایک دوسرے سے متضاد خیالات رکھتے ہیں۔ ان کا تصورِ حیات ایک دوسرے سے متصادم ہے۔ مثالیں بہت سی ہیں مگر میں ایک پر اکتفا کرتا ہوں۔ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی اور ڈاکٹر پرویز ہود بائی‘ دونوں ایم آئی ٹی کے سند یافتہ ہیں۔ ایک انتہائی مذہبی آدمی ہیں اور دوسرے انتہائی مذہب بیزار۔ اس مثال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایم آئی ٹی جیسے ادارے کے لیے کسی شخص کا مذہبی ہونا اس کے صاحبِ علم ہونے میں مانع نہیں ہے۔
گیلانی صاحب نے وہاں سے علمِ سیاسیات میں اعلیٰ ترین ڈگری لے رکھی ہے اور پرویز صاحب نے فزکس میں۔ علمِ سیاسیات کا شمار سماجی علوم میں ہوتا ہے اور فزکس کا طبعی علوم میں۔ مذہب اصلاً ایک سماجی عمل ہے۔ اس باب میں اس آدمی کی بات زیادہ وقیع ہو سکتی ہے جو سماجی علوم سے متعلق ہو۔ گویا سماجی معاملات میں گیلانی صاحب کی رائے زیادہ قابلِ بھروسا ہو گی۔ بایں ہمہ عمرانیات و سیاسیات میں اسی یونیورسٹی کے بہت سے سند یافتہ گیلانی صاحب سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ اس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ صاحبانِ علم کے تصورِ حیات (Worldview) میں فرق ہو سکتا ہے مگر مختلف آرا رکھنے والوں کو ذی علم ہی شمار کیا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ اگر کہیں ترجیح کی ضرورت پیش آئے تو اس کی بنیاد کسی فرد کے مذہبی یا غیر مذہبی ہونے پر نہیں اس کی دلیل پر رکھی جائے گی۔
جو لوگ مذہب کو عقل یا علم سے متصادم قرار دیتے ہیں ان میں سے اکثر کا معاملہ یہ ہے کہ وہ پہلے ایک خود ساختہ یا مذہب کے غیرمستند مآخذ کی بنیاد پر اپنا مقدمہ قائم کرتے اور پھر مذہب کو تنقید کا ہدف بناتے ہیں۔ اگر وہ مزید غور کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ مذہب کے نام پر پیش کیے گئے اکثر مقدمات ایسے ہیں‘ خود مذہبی مآخذ جن کی تصدیق نہیں کرتے۔ وہ اس بحث کو نظر انداز کرتے ہیں جو خود مذہبی دائرے میں ہو رہی ہوتی ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ فلسفہ و سماجیات کے بڑے علما نے مذہبی مقدمات پر سنجیدہ اور علمی سوالات اٹھائے ہیں جن کا جواب ابھی تک اہلِ مذہب پر قرض ہے۔ دورِ جدید تک آتے آتے بہت سے اہلِ علم نے یہ قرض اتار دیا ہے مگر بہت سے سوالات ہنوز جواب طلب ہیں۔کچھ قرض باقی ہے اور اسے اتارنے کی کوشش جاری ہے۔ مثال کے طور پر گولڈزیہر (Ignaz Goldziher) اور شاخت (Joseph Schacht) جیسے سکالرز نے حدیث کی تاریخی حیثیت اور اسناد پر جو سوالات اٹھائے ہیں‘ روایتی علم کے پیراڈائم میں رہتے ہوئے‘ جو ظاہر ہے کہ انسانوں ہی کا بنایا ہوا ہے‘ ان کے شافی جوابات نہیں مل سکے۔ آج مذہبی روایت کے اندر موجود بعض اہلِ علم نے اس پیراڈائم ہی کو بدل ڈالا ہے جس کے بعد ان کی تنقید بے معنی ہو جاتی ہے اور مذہب کے بنیادی مقدمات پوری طرح قائم رہتے ہیں۔
بعض روایات کو ہدف بنا کر مذہب کے بنیادی مقدمات کو مشتبہ بنانے کی جو کوشش کی جاتی ہے‘ اس کا محرک اکثر وہ لوگ ہیں جو ان مباحث سے واقف نہیں۔ وہ بہت سے ایسے سوالات کو دہرا رہے ہوتے ہیں جن کے جواب بہت پہلے دیے جا چکے اور علم کی دنیا میں ان کو چیلنج نہیں کیا جا سکا۔ پھر یہ کہ مذہب پر غور وفکر مسلمانوں کی ایک زندہ روایت ہے جو جاری ہے۔ اسی وجہ سے یہ مقدمہ اب علمی طور پر قابلِ قبول نہیں کہ مذہب دورِ حاضر میں اپنا جواز کھو چکا یا اس کا کوئی مستقبل نہیں۔ جیسے الحاد موجود ہے‘ ویسے ہی مذہب بھی موجود ہے اور پوری علمی شان کے ساتھ۔ آج بھی انسانوں پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے افکار جوہری طور پر مذہبی ہیں۔
ایک مذہبی آدمی ہوتے ہوئے مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ اس وقت مذہبی مقدمات کو چیلنج کرنے کا کام زیادہ منظم انداز میں ہو رہا ہے اور جواباً کوئی مربوط کام نہیں ہو رہا ہے۔ بعض لوگ اپنی انفرادی حیثیت میں عصری علمی پیراڈائم کو سامنے رکھتے ہوئے مذہب کا مقدمہ پیش کر رہے ہیں مگر جو لوگ اس وقت سماج میں مذہب کے سکہ بند نمائندے شمار ہوتے ہیں وہ یا تو خاموش ہیں یا پھر بے اثر۔ اسی سے یہ خام خیالی جڑ پکڑتی ہے کہ مذہب الحاد کے مقابلے میں شکست کھا رہا ہے۔ اہلِ مذہب کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ان میں کوئی بڑا آدمی پیدا ہو جائے جو انسان ساختہ روایتی پیراڈائم سے ہٹ کر ان اعتراضات کا جواب دے تو وہ اس کے خلاف کھڑے ہو جاتے اور اسے مذہب کا نمائندہ ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔بیسویں صدی میں جس شخصیت نے رائج الوقت غیر مذہبی افکار کے مقابلے میں مذہبی مقدمہ سب سے مؤثر انداز میں پیش کیا وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی تھے۔ ان پر سب سے شدید تنقید اہلِ مذہب کی طرف سے ہوئی جنہوں نے انہیں مذہب کا وکیل ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ تاریخ کے جبر نے انہیں سید مودودی کی عظمت کے اعتراف پر مجبور کر دیا۔ دلچسپ بات مگر یہ ہے کہ جو آج سید مودودی کی جگہ پر کھڑا ہوتا ہے‘ اس پر تنقید کے پتھر برسانے والوں میں فکرِ مودودی کے پیروکار کسی سے پیچھے نہیں ہوتے۔
ضرورت ہے کہ اہلِ مذہب میں سے سنجیدہ لوگ منظم ہو کر ان سوالات کو مخاطب بنائیں جو مذہب کے بارے میں اٹھائے جا رہے ہیں۔ وہ ان لوگوں سے مکالمہ کریں جو مذہبی مقدمات کو چیلنج کرتے ہیں۔ مذہب کے ناقدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی باگ ان لوگوں کے ہاتھ میں دیں جو مذہب مخالف بیانیہ علمی سطح پر بیان کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ ایسے مکالمے سے سماج کی علمی سطح بلند ہو گی۔ لوگوں میں فکری مباحث کو اعلیٰ درجے میں سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو گی۔ یہ فی نفسہٖ سماج کی خدمت ہے۔
اس باب میں تو اختلاف ہے کہ انسان بندر کی ارتقائی صورت ہے یا نہیں‘ اس سے مگر کسی کو اختلاف نہیں کہ اب وہ انسان بن چکا ہے۔ آج مکالمہ انسانوں کے مابین ہے‘ بندروں کے مابین نہیں۔ ڈارون نے یہ مانتے ہوئے اپنی کتاب لکھی ورنہ بندروں کو کتاب پڑھتے انہوں نے بھی نہیں دیکھا تھا۔