ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟
یہ ریاضی کا کوئی سوال نہیں۔ اس لیے اس کا کوئی متعین جواب بھی نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ہر پہلو سے ایک موضوعی سوال ہے۔ اس کے جواب کا انحصار مخاطب کی ذہنی سطح‘ سماجی حالات اور فکری پس منظر کے ساتھ ہے۔ ایک مذہبی آدمی دین سے دوری کو انسان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دے گا۔ غیرمذہبی آدمی کا جواب اس سے مختلف ہوگا اور یہ بھی لازم نہیں کہ تمام افراد کا جواب ایک ہو۔
اگر ہم اس سوال کے الفاظ کو بدل ڈالیں اور اس کی حدود کا تعین کر دیں تو پھر یہ ممکن ہے کہ بڑی حد تک اتفاقِ رائے وجود میں آ جائے‘ تاہم اجماع پھر بھی نہیں ہو گا۔ مثال کے طور پر یہ سوال کچھ اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے: 'دنیاوی اعتبار سے آج ہمارے چند بڑے مسائل کون کون سے ہیں؟‘ اس سوال میں ہم نے تین پابندیاں لگا دیں۔ 'دنیا‘ کی قید سے اس کی مکانی تحدید ہو گئی۔ 'آج‘ سے اس کا زمانہ متعین ہو گیا۔ 'چند‘ سے ہم نے 'ایک‘ کی پابندی ختم کرکے تعداد میں وسعت پیدا کر دی۔ اب اس بات کا امکان پیدا ہو گیا ہے کہ مذہبی و غیرمذہبی پس منظر رکھنے والے کسی ایک جواب پر متفق ہو جائیں۔ ذہنی سطح کا فرق بھی ایک جواب تک پہنچنے میں ممکن ہے کہ مانع نہ ہو۔ ایک مذہبی آدمی کا جواب ہو سکتا ہے: وسائل کا تفاوت‘ ہمارے چند بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ ایک غیر مذہبی آدمی کا جواب بھی یہی ہو سکتا ہے اور اس کے لیے لازم نہیں کہ وہ اپنا نظریۂ حیات تبدیل کرے۔ ایک آسودہ حال آدمی بھی اسی نتیجے تک پہنچ سکتا ہے اور ایک غریب آدمی بھی۔ میرا احساس ہے کہ اگر ہم چاہیں تو اپنے خیال اور بیان میں ممکن حد تک واضح رہ کر اپنے اختلافات کو کم کر سکتے اور متفقہ نتائج تک پہنچ سکتے ہیں۔
آج ہمارا سب سے بڑا اختلاف کیا ہے؟ اگر اس سوال کو اہلِ دانش تک محدود کر دیا جائے تو یہ مملکت کا نظری تشخص ہے۔ اگر ہم ایک سیکولر آدمی سے پوچھیں کہ وہ کیسا پاکستان چاہتا ہے تو اس کا جواب ہو گا: 'میں ایسا ملک چاہتا ہوں جہاں لوگوں کے جان و مال محفوظ ہوں۔ ان کو اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہو۔ حکمرانوں کا انتخاب عوام کی مرضی سے ہو اور قانون کی حکمرانی ہو‘۔ ایک مذہبی آدمی کا جواب بھی اس سے مختلف نہیں ہو سکتا۔ کیا کوئی مذہبی آدمی یہ چاہے گا کہ یہاں لوگوں کو جان و مال کا تحفظ نہ ملے؟ عوام کو مذہب پر عمل کی آزادی نہ ہو؟ یقینا نہیں۔ پھر اس نظری بحث کی کیا عملی افادیت باقی ہے؟
کچھ مطالبات ہیں جو انتہا پسند طبقات کی طرف سے سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہ طبقات اقلیت میں ہیں اور دونوں اطراف پائے جاتے ہیں۔ سیکولر انتہا پسند ان جنسی رویوں کا سرِ عام اظہار چاہتے ہیں جو سماجی روایات سے ہم آہنگ نہیں۔ اسی طرح مذہبی انتہا پسند بھی ہیں جو مذہب کی بنیاد پر سماجی و سیاسی تفاوت اور امتیازکے قائل ہیں۔ انتہا پسندی کو ایک نارمل معاشرہ قبول نہیں کرتا۔ سماج کی باگ اگر اکثریت کے ترجمان افراد کے ہاتھ میں رہے تو یہ انتہا پسند ہمیشہ اقلیت میں رہتے ہیں اور سماجی بُنت پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ حکمران‘ مذہبی ہوں یا سیکولر‘ وہ ایسے طبقات پر نظر رکھتے اور ان کی موجودگی کو اس وقت تک گوارا کرتے ہیں جب تک وہ سماج کے لیے خطرہ نہیں بنتے۔ مثال کے طور پر خوارج کے معاملے میں سیدنا علیؓ کا رویہ دیکھیے۔ انہوں نے اس طبقے کے خلاف اس وقت تک اقدام سے انکار کیا جب تک وہ پُرامن رہے اور انہوں نے سیاسی نظم کو عملاً چیلنج نہیں کیا۔
اسی طرح ایک آدمی‘ قطع نظر اس بات کے کہ وہ مذہبی ہے یا غیرمذہبی‘ اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ سماج کے عمومی تشخص پر اکثریتی مذہب کے تہذیبی اور ثقافتی اثرات ہوتے ہیں۔ اگر ایک ملک میں 97 فیصد مسلمان بستے ہیں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کے اجتماعی ماحول پر مسلم تہذیب کے اثرات دکھائی نہ دیں۔ بایں ہمہ اگر ایک ملک میں اکثریت مسیحیوں کی ہے تو اس میں کلیساؤں کی تعداد مساجد سے زیادہ ہو گی۔ دنیا کا کوئی قانون اس کو روک نہیں سکتا۔ اگر روکے گا تو یہ ظلم ہو گا اور ظلم انسانی فطرت کے لیے قابلِ قبول نہیں۔
میرا احساس ہے کہ ایک اجتماعی نظم کی تشکیل پر نظریاتی تفاوت اثر انداز نہیں ہوتا اگر نظریاتی گروہوں کی باگ دانش مند افراد کے ہاتھ میں ہو۔ یہ کسی طور ممکن نہیں کہ ایک سماج میں اختلاف کا دروازہ بند ہو جائے۔ سب مسلمان ہو جائیں یا سب مسیحی بن جائیں‘ اختلاف پھر بھی ہو گا۔ صرف اس کا دائرہ بدل جائے گا۔ آج پاکستانی شدید خلفشار کا شکار ہیں حالانکہ ان کی اکثریت مسلمان ہے۔ مسئلہ اختلاف میں نہیں‘ اختلاف کے دائرے کے تعین میں ہے۔ اگر ہم نے اس کو جان لیا تو اتفاقات کی وسیع دنیا ہمارے سامنے ہے جس کے ہوتے ہوئے ہمارے اختلافات عملاً بے معنی ہو جاتے ہیں۔
اجتماعیت‘ سیاسی ہو یا سماجی‘ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے قائم ہوتی ہے۔ سماج بھی اسی لیے وجود میں آیا اور ریاست بھی اسی مقصد کے لیے قائم ہوئی۔ جن لوگوں نے ان اداروں کو انسان کے فطری مطالبات کے تناظر میں سمجھا‘ وہ درست نتیجے تک پہنچے۔ جنہوں نے انہیں نظر انداز کیا‘ وہ غیرضروری نظری مباحث میں اُلجھے رہے۔ 'سود‘ اگر معاشی استحصال کا سبب ہے تو ایک سیکولر آدمی کیوں اس کی حمایت کرے گا؟ کون سا مذہبی آدمی ہو گا جو دوسرے پر اپنا مذہب مسلط کرنا جائز سمجھے گا؟
انسان بالعموم اختلاف کے دائرے کو درست طور پر متعین نہیں کر پاتے۔ وہ ایک ایسی بات پر لڑ رہے ہوتے ہیں جو ان کے مابین باعثِ نزاع نہیں ہوتی۔ اگر وہ مسائل کو صحیح طرح بیان کر سکیں تو ان کے مابین دکھائی دینے والا فاصلہ‘ فریبِ نظر ثابت ہو۔ بڑے لیڈر یہی کام کرتے ہیں۔ وہ مسئلے کو درست طور پر بیان کرتے اور اتفاق کا راستہ نکال لیتے ہیں۔ دنیاوی اعتبار سے جن ممالک نے ترقی کی‘ یہ وہی ہیں جن کی قیادت نے ایک سماج اور ریاست کو انسان کے فطری مطالبات کا جواب سمجھتے ہوئے ان کی صورت گری کی۔ یہ مطالبات وہ ہیں جن پر عالمِ انسانیت میں وسیع پیمانے پر اتفاق پایا جاتا ہے اور نظری اختلاف کے ساتھ لوگ ایسے سیاسی و سماجی نظام میں اطمینان کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
نظریاتی اور فکری مباحث کا جاری رہنا ایک سماج کی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ان کے دائرے کا تعین کر دیں۔ نظریاتی اختلاف کے ساتھ اگر ہم سماج اور ریاست کے جوہری وظیفے کے بارے میں متفق ہو جائیں تو اس اختلاف کے ہوتے ہوئے بھی ہم ایک مستحکم سماج اور ریاست بنا سکتے ہیں۔ میرا یہ احساس پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ 'نظریہ‘ اکثریت کے لیے ایک فکری قید خانہ ثابت ہوا ہے۔ اس نے ذہنوں کو اس طرح منجمد کر دیا ہے کہ لوگوں نے سماج اور ریاست کو اس کے فطری مطالبات کے بجائے اپنی اپنی نظریاتی آنکھ سے دیکھنا شروع کر دیا۔ ہم اسلامی ریاست اور سیکولر ریاست کی بحث میں الجھ کر اس سوال کو فراموش کر بیٹھے کہ ایک ریاست قائم کیوں ہوتی ہے؟ انسانوں نے اس کی ضرورت کیوں محسوس کی؟
اگر ہم سوال کو صحیح طرح متعین کر سکیں تو اس کے درست جواب تک زیادہ آسانی کے ساتھ پہنچ سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے اہلِ دانش کو اس جانب توجہ دینا ہو گی۔ لوگ اپنے نظریات پر قائم رہتے ہوئے بھی سماج کو یک جان بنا سکتے ہیں‘ اگر انہیں سوال اٹھانے کی تربیت مل جائے۔