"KNC" (space) message & send to 7575

اس تصادم میں عوام کا نمائندہ کون ہے؟

کیا یہ ہاتھیوں کی لڑائی ہے‘ عوام جس میں محض خس وخاشاک ہیں؟
ریاست کے کچھ معلوم اور کچھ نامعلوم ستون ہیں۔ ہم پر علمِ سیاسیات کے اصولوں کا اطلاق کم ہی ہوتا ہے کہ ہم اپنی ترکیب میں خاص ہیں۔ یہ اصول‘ جنہیں ریاست کے ستونوں میں شامل ہی نہیں کرتے‘ ہماری ریاست میں وہ سب سے طاقتور ستون ہیں۔ ریاست کا تمام تر ڈھانچہ ایسے ہی ایک ستون پر کھڑا ہے۔
دنیا کے تمام سیاسی نظاموں میں عوام کی نمائندگی پارلیمنٹ کرتی ہے۔ یہ سیاسی جماعتیں ہیں جو عوام کے نمائندوں کو پارلیمان میں بھیجتی ہیں۔ جمہوریت کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں اصل حکمرانی عوام کی ہوتی ہے۔ اس لیے پارلیمنٹ کو سب سے طاقتور شمار کیا جا تا ہے۔ ہم اپنے نظام کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتے۔ ریاست کے تمام اہم فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ آج کل ایوان میں صرف تقریریں ہوتی ہیں۔ تاہم جہاں فی الواقع جمہوریت ہے‘ وہاں بھی ایک اعتراض موجود ہے۔
دنیا میں عوام کوکبھی براہِ راست اقتدار نہیں ملتا۔ اقتدار اعیانی طبقات (Elites) ہی میں گردش کرتا ہے۔ اس کی بعض وجوہات تو فطری ہیں اور بعض خود ساختہ۔ جیسے دنیا کے رائج سیاسی نظام تقسیمِ کار کے اصول پر کھڑے ہیں۔ اس میں عدلیہ یا انتظامیہ اقتدار کے مضبوط ستون ہیں۔ یہ کچھ مقاصدکے ساتھ قائم ہوتے ہیں اور ان کی حکمرانی تسلیم کی جاتی ہے۔ یہ حق انہیں جس آئین کے تحت ملتا ہے‘ وہ عوام کے نمائندوں ہی کا بنایا ہوا ہوتا ہے۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عوام اپنی مرضی سے‘ اقتدار کے ایک حصے سے دستبردار ہوتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی قیادت مگر کس کے پاس ہوتی ہے؟ سیاسی جماعتیں جس جمہوریت کی ضرورت ہیں‘ وہ سرمایہ دارانہ نظام کی دی ہوئی ہے۔ اس میں اقتدار اصلاً سرمایے ہی کے پاس رہتا ہے۔ سرمایہ دار سیاسی جماعتوں کو سرمایہ فراہم کر کے ان کی پالیسوں پر اثر انداز ہوتا ہے یا پھر براہِ راست ان کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ یوں اقتدار اعیانی طبقے ہی تک محدود رہتا ہے۔ عوام کے پاس محض اتنا اختیار ہوتا ہے کہ وہ اس اعیانی طبقے میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں۔ اس لیے یہ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں بھی اقتدار کبھی براہِ راست عوام کو نہیں ملتا۔
اس اعتراض کے وزن کو قبول کرتے ہوئے‘ جمہوریت میں اصلاحات کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ جمہوری معاشروں میں ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جن میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو سرمایے کی گرفت سے آزاد کرایا جا ئے۔ سیاسی جماعتوں کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ انتخابی عمل کو سرمایے کے اثرات سے پاک کرنا مگر ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا۔ آج ایک انتخابی حلقے میں کامیابی کے لیے کروڑوں روپوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اسمبلی میں وہی پہنچے گا جو یہ سرمایہ خرچ کر سکتا ہے۔
بعض اوقات لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ فلاں جماعت یا اس کا لیڈر اتنا مقبول ہے کہ وہ کھمبے کو ٹکٹ دے تو وہ بھی جیت جائے۔ یہ بات سچ نہیں! ایک سیاسی لیڈر یا سیاسی جماعت کو عوام کے دل و دماغ میں اتارنے کے لیے کہ ایک منظم ابلاغی مہم کی ضرورت ہوتی ہے جو سرمایے کے بغیر نہیں چل سکتی۔ جب عام آدمی لوگوں کو ٹارزن اور مسیحا دکھائی دینے لگتا ہے تو یہ سرمایے ہی کا کمال ہوتا ہے۔
اس اعتراض کے باوجود‘ امرِ واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت میں بعض دیگر عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے سیاسی جماعتیں اس کی پابند ہو تی ہیں کہ وہ عوام کی فلاح وبہبود کو اپنے پروگرام میں شامل کریں۔ جو ٹیکس لیں‘ وہ عوام کی ترقی پہ خرچ کریں۔ اس سے سماج میں استحکام آتا ہے جو خود سرمایے کے مفاد میں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی کامیابی کا سبب ہی یہ ہے کہ وہ سماجی حقیقتوں سے نظر نہیں چراتا۔ ان کو مخاطب بناتا ہے۔
پاکستان میں ابھی یہ مراحل طے نہیں ہو سکے۔ یہاں عوام آج بھی اقتدار کی کشمکش میں فریق نہیں ہیں۔ اقتدار آج بھی اعیانی طبقات میں گردش کرتا ہے۔ ان طبقات میں سرمایہ دار شامل ہے اور ریاستی ادارے بھی۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت عوامی تائید کو اقتدار میں اپنا حصہ لینے کیلئے استعمال کرتی ہے۔ عوام کا خون فقط زیبِ داستان کیلئے ہوتا ہے۔ اس گرمی میں جب عوام کو سڑکوں پہ نکلنے کیلئے پکارا جاتا ہے تو اس میں ان لوگوں کے بچے شامل نہیں ہوتے۔ اس گرم موسم میں ان کیلئے لندن کا سرد موسم ہی سازگار ہے۔
جاری تصادم کو کچھ دنوں میں ختم ہو جانا ہے۔ یہ تصادم عوام کے مائل کی وجہ سے برپا نہیں ہوا۔ یہ اختیارات کا تصادم ہے۔ ریاست کے معلوم اور نامعلوم ستونوں کے مابین جب کوئی قابلِ عمل مفاہمت ہو جائے گی تو یہ بحران اچانک ختم ہو جا ئے گا۔ عوام کے مسائل اپنی جگہ باقی رہیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح جمہوری عمل اپنی افادیت ثابت کر سکے گا؟
اس افادیت کے لیے عوام کے شعور کو بہتر بنانا ضروری ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ عوام کی اکثریت اس صریح جھوٹ کی بنیاد پر رائے قائم کرتی ہے جو سوشل میڈیا کے فورمز سے پھیلایا جا تا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک صاحب مسلسل جھوٹ بول رہے ہوتے اور پھر بھی ان کی رائے پر اعتبار کیا جاتا ہے۔ اس کو پرکھنے کا آسان طریقہ موجود ہے کہ ایک سال پہلے کے وی لاگز کو دیکھ لیا جائے کہ ا ُس وقت جو خبریں پھیلائی گئیں‘ وقت نے ان کی صداقت کے بارے میں کیا فیصلہ دیا ہے؟ اگر ایک آدمی کا ریکارڈ یہ ہے کہ اس کی باتیں اکثر سچ ثابت ہوئی ہیں تو اسے ایک قابلِ بھروسا ذریعۂ معلومات مان لینا چاہیے۔ اگر نوے فیصد خبریں غلط تھیں تو پھر سیاسی شعور کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے ذریعۂ معلومات کو ردّ کر دیا جائے۔
اس سیاسی شعور کا ایک امتحان یہ ہے کہ موجودہ تصادم کو درست تناظر میں سمجھا جائے۔ عوام اس سے لاتعلق رہ کر اعیانی طبقات کو یہ پیغام دیں کہ انہیں اختیارات کی اس جنگ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ آج عوام کو درپیش مسائل پارلیمان میں زیرِ بحث ہیں نہ عدالتوں میں اور نہ میڈیا میں۔ ہر فورم پہ اختیارات کا تنازع زیرِ بحث ہے۔ بجلی کے بل بڑھ رہے ہیں اور ساتھ لوڈشیڈنگ بھی۔ آئی پی پیز سے اس قوم کو کب نجات ملے گی؟ حکومت کا یہ ارادہ کیوں ہے کہ عوام کی اپنی پیدا کردہ سولر انرجی کی قیمت ان سے لی جائے؟ عوام کو ان سوالات کو کوئی جواب نہیں مل رہا۔ صرف پنجاب میں یہ دکھائی دیتا ہے کہ عوام کے مسائل حکومت کی ترجیح ہیں۔ آٹے کی قیمت‘ اشیائے صرف کے نرخ‘ صحت‘ تعلیم‘ ان مسائل کے حل کے لیے اقدمات کیے جا رہے ہیں۔ کوئی مجوزہ حل سے اتفاق کرے یا اختلاف‘ اس بارے میں اتفاق کئے بغیر چارہ نہیں کہ حکومت کا ایجنڈا عوامی مسائل کا حل ہے۔ یہ تاثر مرکز سے کیوں نہیں مل رہا؟
حکومتوں کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہوتا ہے: کارکردگی۔ جمہوریت یہی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم جن بحرانوں میں مبتلا ہیں‘ ان کا عوام کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ اعیانی طبقات میں جاری کشمکش عوام کے لیے نہیں ہے۔ جس دن عوام نے اس بات کو سمجھ لیا اور اس سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کر دیا‘ اس کے بعد یہ امید کی جا سکتی ہے کہ جمہوریت کے شجر پر برگ و بار آئیں۔ بصورت دیگر عوام کوقومی مفاد‘ اسلام اور مرشد جیسی اصطلاحوں کا اسیر بنا کر انہیں یہ تاثر دیا جاتا رہے گا کہ یہ جنگ ملک اور عوام کے لیے ہے۔ وہ ہاتھیوں کی لڑائی میں خس وخاشاک کی طرح کچلے جاتے رہیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں