طلعت حسین نہیں رہے۔ ٹی وی سکرین سے ٹوٹتا ہوا رشتہ مزید کمزور ہو گیا۔
بلا مبالغہ کم و بیش دو عشروں سے ٹی وی کا کوئی ڈرامہ نہیں دیکھا۔ کبھی اتفاقاً چند منٹ کو دیکھنا پڑا تو خد اکا شکر ادا کیا جس نے مجھے طویل اذیت سے محفوظ رکھا۔ پانچ چھ برس سے تو کوئی سیاسی پروگرام بھی نہیں دیکھا۔ ادھر ادھر سے لوگ کلپس بھیج دیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سکرین کیا کہہ رہی ہے۔ ان سیاسی پروگراموں کو دیکھنے کی اذیت بھی کچھ کم نہیں۔ میں ان کرداروں کا ذکر تو نہیں کروں گا جنہوں نے ٹی وی سے دور کیا مگر آج مجھے وہ چہرے یاد آرہے ہیں جنہوں نے کبھی اس سکرین سے جوڑا تھا۔ طلعت حسین ان میں سرِ فہرست ہیں۔
ہر فن میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے کام کو پیمانہ تسلیم کرتے ہوئے فن کے قائم شدہ معیارات پر نظرِ ثانی کرنا پڑتی ہے۔ پھر دنیا ایک عہد کو ان سے معنون کر دیتی ہے۔ مولانا مودودی دین کے بڑے عالم تو تھے ہی‘ زبان و بیان میں بھی سند تھے۔ ایک مرتبہ ماہر القادری صاحب کو ایک لفظ کے بارے میں اعتراض ہوا کہ وہ مؤنث ہے‘ جسے مولانا نے مذکر لکھا ہے۔ جو لوگ ماہر مرحوم سے واقف ہیں انہیں معلوم ہے کہ وہ ایسے معاملات میں کتنے حساس تھے اور زبان کی غلطی کو کبھی معاف نہیں کرتے تھے۔ماہر صاحب نے اپنے مؤقف کے حق میں 'لغت‘ کا حوالہ دیا۔ مولانا نے جواب دیا کہ آئندہ اپنی لغت میں اسے مذکر لکھ دیں کہ میری زبان لغت سے نہیں بنتی‘ لغت میری زبان سے بنتی ہے۔ مولانا نے درست کہا۔ لغت بلا شبہ اہلِ زبان ہی کے تابع ہوتی ہے۔
طلعت حسین کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ اداکاری اور صدا کاری میں ان کا کام ایک معیار ہے۔ آواز ایسی کہ بولتے تو خاموشی طاری ہو جاتی۔ خدا نے انہیں ایک فنکار کا وجود بخشا۔ انہوں نے اس کا شکر یوں ادا کیا کہ مسلسل اس کی تہذیب کرتے رہے۔ اس کو نکھارتے اور سنوارتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے فن میں خود ایک معیار قرار پائے۔ اب انہیں اکیڈمیوں میں پڑھائے جانے والے علم سے نہیں پرکھا جائے گا‘ اکیڈمی میں ان کے فن کو بطور مثال پیش کیا جائے گا۔
اداکاری کیا ہے؟ یہ کسی دوسرے کے وجود کو اوڑھ لینا ہے۔ اس کا کمال یہ ہے کہ حقیقت اور مجاز کا فرق باقی نہ رہے۔ آپ ایک کردار میں اس طرح ڈھل جائیں کہ دیکھنے والا آپ کے حقیقی وجود کو تلاش نہ کر پائے۔ یہ کمال ادب اور فنون کو اعلیٰ درجے میں سمجھے اور جانے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ طلعت حسین نے برطانیہ سے اداکاری کو بطور فن سیکھا۔ ساتھ ہی کتاب اور علم کے ساتھ ایک گہرا رشتہ قائم کیا جسے کبھی ٹوٹنے نہیں دیا۔ ان کا مطالعہ مسلسل اور متنوع تھا۔ اس سے ان کے فن میں وہ انفرادیت پیدا ہو گئی کہ ہم ایک عہد کو ان کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔
اداکاری کی دنیا ہمارے تہذیبی آہنگ سے زیادہ ہم آہنگ نہیں ہے۔ تمثیل مسلم روایت کا حصہ نہیں ہے۔ اس لیے ایک مذہبی ذہن فنونِ لطیفہ کو قبول نہیں کرتا۔ شاعری اور موسیقی کو تصوف نے ابلاغ کا ذریعہ بنایا تو اسے قبولیت ملنے لگی۔ سدِ ذریعہ کا فقہی اصول ہماری تفہیمِ مذہب پر اس طرح غالب رہا کہ بہت سی جائز باتیں بھی ممنوع قرار پائیں۔ ان میں فنونِ لطیفہ بھی شامل ہیں۔ ان کے بارے میں عمومی رائے یہ بنی کہ یہ سب مُخربِ اخلاق ہیں۔ شاعری کو گوارا کیا گیا مگر برقع پہنا کر۔ موسیقی کا مسئلہ آج بھی فقہا اور صوفیا کے اختلافی مسائل میں شمار ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں اداکاری کے لیے کہاں جگہ ہو سکتی ہے؟ مسلم معاشروں میں مگر ان فنون سے کچھ ایسے لوگ وابستہ ہوئے جنہوں نے اپنے طرزِ عمل سے یہ بتایا کہ ان شعبوں سے وابستگی کے باوجود اخلاقی اقدار سے تعلق نبھایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے زبانِ حال سے یہ بتایا کہ حساس اور سنجیدہ لوگ اگر اس دنیا کا رُخ کریں تو اس دنیا کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ طلعت حسین بھی ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ ان کی آواز میں قرآنِ مجید کا ترجمہ اس کی ایک مثال ہے۔
طلعت حسین نے علم اور تہذیب‘ دونوں سے اپنا رشتہ قائم رکھا۔ شائستگی اور متانت ان کی شخصیت کا حصہ تھے۔ اس کا اظہار ان کے فن میں بھی ہوا۔ ایسا آدمی جہاں ہوتا ہے وہاں کے ماحول پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کا وجود ہی برائی کے لیے سدِ ذریعہ ہوتا ہے۔ اس کا پیغام ہوتا ہے کہ میری موجودگی میں غیرمہذب اور غیرشائستہ گفتگو نہیں کی جا سکتی۔ حرکت کا تو سوال ہی نہیں۔ بعض اوقات ہمیں دوسروں کے اخلاقی معیارات سے پوری طرح اتفاق نہیں ہوتا لیکن یہ بات کم اہم نہیں کہ جس کے جو تصورات ہیں‘ وہ ان کا احترام کرتا ہے۔ سلطان راہی کے بارے میں مشہور تھا کہ شوٹنگ کے دوران اگر نمازکا وقت ہو جائے تو وہ اذان کہتے اور نماز کی امامت بھی کراتے تھے۔ ممکن ہے بعض لوگ اسے مضحکہ خیز قرار دیں مگر میں اس کی تحسین کروں گا کہ نماز سے وابستگی فلم کی دنیا میں بھی بہت سے منکرات سے محفوظ رکھتی ہے۔
اداکاری کے بعض مطالبات ہیں جن سے ایک اداکار کو مفر نہیں ہوتا۔ جیسے اگر کسی نے گلی بازار کا کوئی کردار ادا کرنا ہے تو وہ شاعروں ادیبوں کی زبان نہیں بولے گا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے‘ تاہم طلعت حسین جیسا اداکار اگر ایسا کردار ادا کرے گا تو اس میں بھی ایک حد سے آگے نہیں جائے گا۔ وہ فن کی حقیقی دنیا کو ایسے کرداروں کے اثرات سے محفوظ رکھے گا۔ اس لیے ایسے لوگوں کا وجود ایسے شعبوں کے تزکیے کے لیے ضروری ہے۔ طلعت حسین جیسے لوگوں کی وجہ سے ٹی وی ڈرامہ سماج میں شائستگی اور تہذیب کے فروغ کا باعث بنا۔
ٹی وی ڈرامہ فلم سے مختلف ہے۔ اس کا اپنا مزاج ہے۔ اس مزاج کی تشکیل میں جن لوگوں نے تخلیقی سطح پر اپنا کردار ادا کیا‘ طلعت حسین ان میں سے تھے۔ ان جیسے فنکاروں نے ہمیں تفریح کے ایک شائستہ اسلوب سے آشنا کرایا۔ ان کے سبب سے ٹی وی ڈرامہ مہذب لوگوں کے کلچر کا حصہ بنا اور عوام نے اسے اپنا تہذیبی ترجمان جانا۔ ان کو اعلیٰ درجے کے لکھاریوں‘ ڈرامہ سازوں اور ساتھی اداکاروں کی صحبت میسر رہی اور سب کی محنت سے ٹی وی ہمارے گھر کا ایک فرد بن گیا۔ تب والدین کو یہ تشویش نہیں تھی کہ ٹی وی دیکھنے سے بچوں کا اخلاق بر باد ہو سکتا ہے۔
طلعت حسین نے ڈرامے کو ہماری تہذیبی اقدار سے ہم آہنگ بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس کے باوجود کہ ہماری روایت کے لیے یہ فن اجنبی تھا۔ ڈرامہ یونانی تہذیب کا حصہ تھا۔ انہوں نے اپنے فن سے یہ ثابت کیا کہ فنونِ لطیفہ میں فی نفسہٖ کچھ مضر نہیں۔ اگر اعلیٰ اخلاق اور کردار کے لوگ اس دنیا کا رُخ کریں تو فنون تہذیب کے خادم اور معاون ہیں۔ اس سے عام آدمی کے ذوق کی تربیت بھی ہوتی ہے۔ اگر عوامی ذوق پختہ ہو توپست ذوقی کے لیے جگہ نہیں رہتی۔
ٹی وی ڈرامہ بدقسمتی سے اپنی روایت کو برقرار نہ رکھ سکا۔ اس نے جدیدیت کے اثرات قبول کیے جو اخلاق کے روایتی پیمانوں سے ہم آہنگ نہیں تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ طلعت حسین کی جگہ اداکاروں کے بجائے نقالوں نے لے لی۔ یہ زوال صرف اداکاری میں نہیں آیا‘ اس نے دوسرے شعبوں کو بھی اپنی لپیٹ لے لیا۔ میں طلعت حسین سے کبھی نہیں ملا لیکن وہ ان لوگوں میں سے تھے جن سے ملنے کو دل چاہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ وہ تادیر یاد رکھے جائیں گے اور بہت اچھے لفظوں میں۔