اجتہاد کیا صرف علما کا کام ہے؟ عام آدمی کیا اجتہادمیں شریک نہیں ہو سکتا؟
اس سوال کا جواب چودہویں صدی کے ایک جلیل القدر عالم امام ابو اسحاق شاطبی مالکی نے دیا ہے۔ شاطبی ان دنوں‘ دو اسباب سے ہمارے ہاں زیرِ بحث ہیں۔ ایک سبب تو 'اجتہاد بالمقاصد‘ پر منعقد ہونے والی وہ سہ روزہ بین الاقوامی کانفرنس ہے‘ مئی کے آخری ایام میں‘ جس کا اہتمام علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ فکرِ اسلامی‘ تاریخ و ثقافت‘ نے کیا۔ ان تین دنوں میں جس شخصیت کا سب سے زیادہ تذکرہ ہوا‘ وہ یہی شاطبی تھے۔ شاطبی کو یاد کرنے کا دوسرا سبب‘ ادارہ فکرِ جدید لاہور کی طرف سے اُن کی معروف کتاب 'الموافقات‘ کے نئے اردو ترجمے کی اشاعت ہے۔
شاطبی کو جدید فقہی ڈسکورس کا حصہ بنانے میں ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ اہلِ علم تو یقینا ان سے آگاہ تھے مگر معدودے چند۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر فضل الرحمن مرحوم کی تصانیف میں ان کا ذکر ہے جو 1960ء کی دہائی میں شائع ہوئیں۔ اسی طرح مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے جب پاکستان میں قانونِ اسلامی کے نفاذ کا مقدمہ پیش کیا تو 'الموافقات‘ کے اُردو ترجمے کی ضرورت کو نمایاں کیا تاکہ قانون کے مقامی ماہرین‘ اصولِ فقہ کے مباحث کو علمی سطح پر سمجھ سکیں۔ تاہم شاطبی کا وسیع تر تعارف اس وقت ہوا جب 1977ء میں‘ اُن کے 'فلسفہ قانونِ اسلامی‘ پر ڈاکٹرخالد مسعود کی کتاب شائع ہوئی۔ 1985ء میں اس کی نئی اشاعت سامنے آئی جو نظرِ ثانی کے بعد‘ اس موضوع پر ایک نئی تصنیف ہے۔
بیسویں صدی کے اختتام پرجو کام ڈاکٹر خالد مسعود نے کیا‘ اس کے آغاز میں یہی خدمت محمد عبدہ ٔنے مصر میں سر انجام دی جب انہوں نے سکالرز اور اپنے طلبہ کو 'الموافقات‘ کے مطالعے کی طرف متوجہ کیا۔ مستشرقین نے بھی اس کو اہم جانا۔ اُردو میں اس کا ایک ترجمہ اس سے پہلے ہو چکا ہے۔ ترجمہ ایسا کام ہے کہ اس میں خوب سے خوب تر کی جستجو باقی رہتی ہے۔ اس جستجو نے برادرم صاحبزادہ محمد امانت رسول کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ ایک نئے ترجمے کا ا ہتمام کریں۔ ڈاکٹر طارق محمود ہاشمی صاحب نے یہ خدمت سرانجام دی اور یوں اس کی پہلی جلد کا ترجمہ بارِ دگر سامنے آیا۔
میں ترجمے کی صحت پر کچھ کہنے کی اہلیت نہیں رکھتا لیکن یہ جانتا ہوں کہ اس کتاب میں اصولِ فقہ کے ساتھ‘ تفہیمِ دین کے باب میں بعض بہت اہم سوالات کو موضوع بنایا گیا جو علمی حلقوں میں آج بھی زیرِ بحث رہتے ہیں۔ ڈاکٹر عمار خان ناصر صاحب نے اس ترجمے کے مقدمے میں بعض ایسے سوالات کو بیان کیا ہے۔ جیسے:
عقل اور نقل کا باہمی رشتہ کیا ہے اور نقل کے تابع رہتے ہوئے‘ شریعت کی مراد اور مقصد کے فہم میں عقل کا استعمال کیوں اہم ہے؟
انسانی تمدن اوراس کی عادات و رسوم کے ساتھ شریعت کے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟
شریعت کی توضیح میں کتاب وسنت کا باہمی تعلق کیا ہے؟
شریعت میں قطعی اور ظنی کی درجہ بندی کیسے کی جا سکتی ہے؟ شریعت کی تعبیر میں عرب کے امیین (بنی اسماعیل) کے عہد وعادات کی رعایت کیوں ضروری ہے؟
اجتہاد کی شرائط اور اصول وضوابط کیا ہیں؟
آخری سوال کا تعلق 'مقاصدِ شریعت‘ کے ساتھ ہے جو اس کتاب میں شاطبی کا اہم موضوع ہے اور فکرِ اسلامی کے باب میں ان کا سب سے گراں قدر اضافہ ہے۔ مقاصدِ شریعت کی بحث‘ شاطبی سے پہلے بھی مسلمانوں کے علمی ڈسکورس کا حصہ تھی۔ امام غزالی کے استاد امام جوینی نے اس کو موضوع بنایا اور پھر غزالی نے ان مقاصد کو بیان کیا اور ان کی تعداد کو پانچ تک محدود رکھا۔ اس میں دین‘ جان‘ عقل‘ نسل اور مال کے تحفظ کو مقاصدِ شریعت قرار دیا گیا ہے۔ بعد میں ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ جیسے اہلِ علم نے اس بحث کو آگے بڑھایا۔ قرآن و سنت میں چونکہ ان کی تعداد مقرر نہیں‘ اس لیے ان میں اضافہ کیا جاتا رہا۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اپنی کتاب 'مقاصدِ شریعت‘ میں انسانی شرف اور بنیادی آزادیوں کی حفاظت کے ساتھ ازالۂ غربت‘ امن و امان اور بین الاقوامی سطح پر باہمی تعامل کو بھی مقاصدِ شریعت کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی کانفرنس کا موضوع بھی یہی تھا۔ ڈین شعبہ علومِ اسلامی پروفیسر ڈاکٹر محی الدین ہاشمی نے حسنِ انتخاب کے ساتھ ملک بھر کے اہلِ علم کو اپنی تحقیقات پیش کرنے کے لیے ایک فورم فراہم کیا۔ ڈاکٹرمحمد ریاض محمود جیسی متحرک شخصیت علمی و انتظامی حوالے سے اس کانفرنس کی روحِ رواں تھی۔ اس کانفرنس کا حاصل وہ مجلسِ مذاکرہ تھی جس میں متنوع پس منظر کے اہلِ علم کو جمع کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی صاحب نے اس بحث کو سمیٹتے ہوئے مقاصدِ شریعت کے مباحث میں وسعت پیدا کی۔ پاکستان میں مقاصدِ شریعت کے موضوع کو جن علمی شخصیات نے مقبول بنایا ہے‘ ان میں ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب نمایاں تر ہیں۔ گویا جو کام شاطبی نے اپنے عہد میں کیا‘ ڈاکٹر ہاشمی صاحب نے وہی کام اس عہد کے لیے کیا۔ اس مذاکرے میں اجتہاد کی اہلیت پر بھی بات ہوئی اور یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا یہ کام صرف علما نے سر انجام دینا ہے؟
شاطبی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ مقصدِ شریعت کے باب میں دو باتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ حکمِ شرعی کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کا اطلاق کن حالات میں ہو گا۔ یہ دونوں باتیں اجتہاد کا موضوع ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ''جس نے سمجھ لیا کہ احکام وضع کرنے سے شریعت کا مقصد کیا ہے اور اس کی سمجھ ایسی ہے کہ اسے مقاصدِ شریعت کا علم رکھنے والا سمجھا جائے‘ خواہ اس نے یہ علم کسی عجمی زبان میں ترجمہ کے ذریعے ہی کیوں نہ حاصل کیا ہو‘ تو اس کے درمیان اور اُس کے درمیان جس نے (مقاصدِ شریعت کا) عربی زبان کے ذریعے علم حاصل کیا ہو‘ کوئی فرق نہیں‘‘۔ شاطبی نے مزید لکھا: ''اجتہاد کی ایک قسم علما کے لیے مخصوص ہے اور ایک ان سارے لوگوں کے لیے جو مکلف ہیں‘‘۔اس بحث کو اس زاویے سے سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ عام افراد‘ جن پر شریعت کے احکام کو نافذ ہونا ہے‘ ان کے احوال سے آگاہی ضروری ہے اور ان کا لحاظ رکھے بغیر مقاصدِ شریعت پورے نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا انہیں اجتہاد کے اس عمل میں شریک کیا جانا چاہیے کہ وہی اپنے احوال بتا سکتے ہیں اور انہیں ذاتی حیثیت میں عمل کا فیصلہ کرنا ہے۔ خواتین کے مخصوص حالات کی تفہیم ممکن نہیں‘ جب تک کہ ان سے براہِ راست معلوم نہ کیا جائے۔ دیگر علوم کے ماہرین کا اجتہاد میں شریک ہونا بھی ضروری ہے جیسے ڈاکٹر‘ سماجیات کے علما۔
شاطبی نے 'الموافقات‘ میں حنفی اور مالکی اصولِ فقہ میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ چونکہ عالمانہ مباحث ہیں‘ اس لیے ان کی تفہیم آسان نہیں۔ اس کا اندازہ کتاب کے ترجمے سے بھی ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کی تفہیم کے لیے متعدد حواشی لکھے گئے۔ یہ کتاب اتنی اہم ہے کہ مقاصدِ شریعت اور اصولِ فقہ کا طالب علم اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ صاحبزادہ امانت رسول جس دلجمعی اور خود ذوقی کے ساتھ اعلیٰ دینی ادب کو اردو زبان میں منتقل کر رہے ہیں‘ یہ ترجمہ اس کی ایک مثال ہے۔ ڈاکٹر محی الدین ہاشمی صاحب نے اس سے پہلے روایت اور جدت پر ایسی ہی ایک کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ اہلِ علم کی یہ کاوشیں متقاضی ہیں کہ دوسری جامعات اور تحقیقی اداروں میں بھی ان کی تقلید کی جائے تا کہ اعلیٰ تعلیم کے یہ ادارے صحیح معنوں میں تخلیقِ علم کا فریضہ سر انجام دیں۔