کراچی میں محض چند ماہ کے دوران 73 شہریوں کو قتل کر دیا گیا۔ انسانی جانوں کے اس ضیاع پر اگر سماج مضطرب نہیں ہوتا تو یہ بے حسی کی انتہائی صورت ہو گی‘ جس سے پناہ مانگنی چاہیے۔
اس شہر کے حالات پر نظر ڈالیے تو ان میں کچھ نیا پن نہیں۔ لوگ حادثات کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ایک نئے حادثے پر اگر اُن میں اضطراب کی کوئی لہر پیدا ہوتی ہے تو محض وقتی۔ ایک دو گھروں میں چند روز کے لیے صفِ ماتم بچھتی ہے اور پھر زندگی آگے بڑھ جاتی ہے‘ کسی نئے حادثے کی تلاش میں۔ زندگی مدت سے اسی ڈگر پر چل رہی ہے۔
جان ومال کا تحفظ حکومت کی پہلی ذمہ داری ہے۔ کراچی کے حوالے سے صوبائی حکومت کی۔ مذہب ہو یا غیر مذہب‘ سرمایہ دارانہ نظام ہو یا اشتراکیت‘ سب متفق ہیں کہ شہریوں کے جان ومال کی حفاظت ریاست نے کرنی ہے۔ اس کے وجود اور اس کی اطاعت کا یہی جواز ہے۔ لوگ حکومت کے حصول کے لیے بے چین ہوتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ وہ کیسی ذمہ داری اپنے سر لے رہے ہیں۔ اگر وہ اسلام پر ایمان رکھتے ہیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ ایک یومِ حساب آنے والا ہے۔ عام آدمی اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہوگا اور حکمران ریاست میں ہونے والے ہر جرم کے لیے۔ وہ عدالت ایسی نہیں ہو گی جہاں شک کا فائدہ دے کر مجرم کو بری کر دیا جائے۔ وہاں تو معاملات یقین کی سطح پر ہوں گے اور انسانوں کے اعضا گواہی دیں گے۔
دوسری سطح پر یہ ذمہ داری ریاست کی ہے۔ ایک ایسی پالیسی کی تشکیل‘ جو جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنائے‘ ریاست کا کام ہے۔ ریاست میں پارلیمنٹ‘ عدلیہ اور انتظامیہ سمیت وہ سب ادارے شامل ہیں جو کسی آئینی استحقاق کے ساتھ یا اس کے بغیر ریاست کے تحفظ کا ذمہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ کیا آج ریاست کی ترجیحات میں عام شہری کے مفادات کی حفاظت شامل ہے؟
میرا احساس یہ ہے کہ ریاست کے تمام ذمہ داران ریاست کے جن وظائف کے قائل ہیں ان میں عام شہری کا تحفظ شامل نہیں۔ ان کے خیال میں ریاست ایک جغرافیہ ہے یا پھر ایک نظریہ۔ وہ جس عہد کو اکثر دہراتے ہیں وہ ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ ہے۔ یہ کم ہی سننے میں آیا ہے کہ عام شہری کی جان ومال کی حفاظت بھی ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پاکستان ایک سکیورٹی سٹیٹ کے ماڈل پر بنا ہے‘ فلاحی ریاست کے ماڈل پر نہیں۔ پہلے ماڈل میں عوام ریاست کی حفاظت کے لیے ہوتے ہیں اور دوسرے ماڈل میں ریاست عوام کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے۔
جب ریاست عوام کی خدمتگار ہوتی ہے تو پھر پالیسی سازی کی سطح پر مرکزی سوال عوام کے جان ومال کا تحفظ ہوتا ہے۔ پھر پارلیمنٹ میں بحث اس پر بات ہوتی ہے۔ عدالتوں میں خواص اور ریاست کے بجائے عوام کے مقدمات ترجیحی بنیادوں پر سنے جاتے ہیں۔ انتظامیہ ایسی حکمتِ عملی اپناتی ہے جس میں عوام کے مفادات کو اولیت دی جاتی ہے۔ پھر ریاست ہی نہیں‘ سماج بھی حساس ہوتا ہے۔ میڈیا میں عوام کے مسائل ترجیح بنتے ہیں‘ اہلِ سیاست کے بیانات نہیں۔
اگر عوام ترجیح ہوں تو پالیسی سازی کی سطح پر دو باتیں لازم ہیں۔ ایک یہ کہ شہروں کو ایک خاص حد سے بڑا نہ ہونے دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ اختیارات کو مقامی سطح تک منتقل کر دیا جائے۔ شہر جب ایک حد سے زیادہ بڑے ہو جائیں تو ان کا انتظام مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ مسئلہ صرف پاکستان کو درپیش نہیں ہے۔ نیویارک اور ممبئی جیسے شہر بھی اَن گنت مسائل میں جکڑے ہوئے ہیں۔ نیویارک میں مگر مقامی حکومت مضبوط ہے۔ وہاں کا میئر معاشی اور انتظامی خودمختاری رکھتا ہے۔ جہاں ایسا نہ ہو وہاں وہی کچھ ہوتا ہے جو کراچی میں ہو رہا ہے۔
شہروں کو چھوٹا رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ روزگار کے امکانات کو بڑے شہروں تک محدود نہ کیا جائے۔ انہیں پھیلا دیا جائے۔ نئے کارخانوں کے لیے نئے مقامات تلاش کئے جائیں۔ جب کہیں انڈسٹری لگتی ہے تو شہر خودبخود آباد ہو جاتے ہیں۔ ایک کاروبار اَن گنت نئے کاروباروں کے لیے بنیاد اور مواقع فراہم کرتا ہے۔ زندگی اپنی بقا کے لیے خود اسباب تلاش کر لیتی ہے۔ جو اس بات کی مکمل تفہیم چاہتا ہے اسے غلام عباس کا شہرۂ آفاق افسانہ 'آنندی‘ پڑھنا چاہیے۔
مقامی حکومتوں کا تصور بہت پرانا ہے اور کامیاب ہے۔ دنیا کے اکثر ترقی یافتہ ممالک نے عوام کی شرکت کے ساتھ ایسے قابلِ عمل ماڈل بنائے ہیں کہ کسی کو مرکزی حکومت تک رسائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ مسائل جن کا تعلق عوام کے جان ومال کے تحفظ سے ہے‘ انہیں مقامی سطح پر حل کر لیا جاتا ہے۔ مقامی حکومتوں کے تصور پر میرے دوست سلمان عابد نے اہم کام کر رکھا ہے۔ چند ماہ پہلے ہی ان کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں اس پر تفصیلی کلام کیا گیا ہے۔ صحت اور تعلیم کو اگر مقامی حکومتوں کے سپرد کر دیا جائے تو عوام کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ انتظامی یونٹ کے چھوٹا ہونے سے جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ دنیا میں ایسے ماڈل موجود ہیں جن میں پولیس کے اہلکاروں کے انتخاب میں عوام کی رائے کو شامل کیا جاتا ہے اور ان کی ملازمت کا انحصار کارکردگی پر ہوتا ہے۔ شہری ریاست کا تصور تو قدیم یونان میں بھی موجود تھا۔
آج کراچی کے معاملات صوبائی حکومت کے سپرد ہیں۔ اس شہر کی آبادی متقاضی ہے کہ اس کا انتظام مقامی ہو۔ آپ اسے صوبہ نہ کہیں مگر اسے ایک انتظامی یونٹ تو بنا سکتے ہیں۔ پاکستان چونکہ ایک سکیورٹی سٹیٹ ہے اس لیے ہر مسئلہ قومی سلامتی سے جڑ جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات سے بلند نہیں ہو سکتیں اور اپنی عصبیت کی حفاظت کرتی ہیں۔ کراچی کے مسئلے کو بھی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اسی تناظر میں دیکھ رہی ہیں۔
ہم بڑے ڈیم اس لیے نہیں بنا سکے کہ سیاسی جماعتیں حائل ہوتی ہیں۔ ہم مقامی حکومتیں نہیں بنا سکے اور اس کی ذمہ داری بھی سیاسی جماعتوں پر ہے۔ ریاستی بیانیے کی تشکیل سیاسی جماعتوں کا کام ہے مگر وہ فلاحی ریاست کا بیانیہ نہیں بنا سکیں۔ (ن) لیگ نے مثال کے طور پر اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ تین ماہ میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں گے۔ تین مہینے گزر چکے اور ابھی تک اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔
کراچی میں امن وامان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا جب تک عوام کے جان ومال کا تحفظ پہلی ترجیح نہیں بنے گا۔ اس کے لیے قومی بیانیے کی تشکیلِ نو لازم ہے۔ اگر قومی ایجنڈے کو اس بنیاد پر مرتب نہ کیا گیا تو آج جو کچھ کراچی میں ہو رہا ہے‘ کل لاہور اور اسلام آباد میں بھی ہوگا۔ اسلام آباد میں امن وامان کی صورتحال ماضی کے مقابلے میں کہیں بدتر ہو چکی۔ یہ شہر بھی شیطان کی آنت کی طرح پھیل رہا ہے۔ اس کے داخلے کے علاقوں پر جرائم پیشہ لوگوں کا قبضہ مستحکم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا ایک اور نقصان یہ ہے کہ زرعی زمین بھی تیزی کے ساتھ ختم ہو رہی ہے۔
آج لازم ہے کہ حکومت‘ سول سوسائٹی اور ریاست مل کر ان معاملات پر غور کریں۔ بڑے شہروں کا امن‘ نئے شہروں کا قیام‘ آبی وسائل سے بجلی کا حصول‘ زرعی زمینوں کا تحفظ اور مقامی حکومتوں کا قیام اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی وہ مسائل ہیں جو فوری توجہ چاہتے ہیں۔ کراچی میں شہریوں کا قتلِ عام ان مسائل کا ایک نتیجہ ہے۔