علما کے ایک طبقے نے تحریکِ پاکستان کا ساتھ کیوں دیا؟ علما مسلم لیگ کی ضرورت تھے یا مسلم لیگ علما کی؟ قائداعظم کے بارے میں مولانا شبیر احمد عثمانی اور تحریکِ پاکستان کے حامی علما کے خیالات کیا تھے؟
برادرم وجاہت مسعود نے ان سوالات کو موضوع بنایا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ انہوں نے سارے جہاں سے معلومات جمع کر لیں مگر خود مولانا عثمانی یا علما سے ان سوالات کے جواب لینے کی زحمت نہیں اٹھائی۔ علما‘ بالخصوص مولانا عثمانی نے ان سوالات کو موضوع بنایا ہے۔ ان کے خطبات اور مضامین کتابی صورت میں شائع ہو چکے۔ اس باب میں ان سے جو استفسارات ہوئے‘ ان کے جواب بھی طبع شدہ موجود ہیں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی سے جمعیت علمائے ہند کے اکابر کا ایک وفد ملا تھا جس میں مولانا حسین احمد مدنی بھی شامل تھے۔ ان کے ساتھ ہونے والی سوا تین گھنٹے کی نشست کی روداد کو‘ مولانا محمد قاسم کے پوتے اور مولانا قاری طیب قاسمی‘ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کے بھائی مولانا محمد طاہر نے مرتب کر کے ''مکالمۃ الصدرین‘‘ کے عنوان سے چھاپ دیا۔ وجاہت بھائی نے ان کی طرف مراجعت کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اگر وہ ایسا کرتے تو شاید وہ نتائج برآمد نہ ہو سکتے جو انہوں نے اس سلسلۂ مضامین میں بیان کیے ہیں۔
مولانا شبیر احمد عثمانی کے خطبات‘ مضامین اور خطوط سے جو باتیں ہمیں معلوم ہوتی ہیں‘ وہ میں بیان کیے دیتا ہوں۔ یہ بات بطور مقدمہ واضح رہنی چاہیے کہ میں یہاں تحریکِ پاکستان یا اسلامی ریاست کے تصور پر اپنا مؤقف بیان نہیں کر رہا۔ میں تاریخ کے ایک طالبعلم کے طور پر صرف واقعات کو صحیح تناظر میں دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں ابتدائی سوال کو سب سے پہلے موضوع بنا رہا ہوں کہ دیگر سوالات دراصل اسی کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں۔تحریکِ پاکستان کی کامیابی کا تمام تر انحصار مسلم عوام کی تائید پر تھا۔ یہ تائید میسر نہیں آ سکتی تھی اگر اس تحریک کو اسلام کا عنوان نہ دیا جاتا۔ قائداعظم کی غیر معمولی شخصیت بلاشبہ ایک اثاثہ تھی اور ان کی قیادت کامیابی کے لیے نہایت اہم تھی۔ وہ مگر اسی وقت بروئے کار آ سکے جب عوام نے ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ عوام نے ساتھ اس وقت دیا جب انہیں باور کرایا گیا کہ پاکستان ان کی تہذیب اور مذہبی شناخت کی بقا کیلئے قائم ہو رہا ہے اور یہاں کا نظمِ اجتماعی اسلامی اصولوں کے مطابق چلایا جائے گا۔
یہ بات عوام کو اُسی وقت باور کرائی جا سکتی تھی جب علما اس کی تائید کرتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ معاشرہ اُن ہی کو اسلام کا نمائندہ سمجھتا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ زمینی حقیقت آج بھی اسی طرح قائم ہے۔ عوام روایتی علما ہی کو مذہب کا حقیقی نمائندہ قرار دیتے ہیں۔ وہ جدید سکالرز کے علم کا اعتراف کرتے ہیں مگر طلاق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ مفتی صاحبان ہی سے لیتے ہیں۔ قائداعظم سمیت مسلم لیگ کی ساری قیادت کو اس کا علم تھا۔ اسی وجہ سے لیگی قیادت کی طرف سے علما کو ہمنوا بنانے کی مسلسل کوشش ہوتی رہی۔
تاریخ اور سماج کا ایک عام طالبعلم اس کو سمجھتا ہے اور تاریخ کے مستند علما نے بھی اس کو مانا ہے۔ مثال کے طور پر خالد بن سعید نے 'پاکستان کا تشکیلی دور‘ (Pakistan: The Formative Phase) میں قائداعظم کے قائدانہ کردار کے اعتراف کے بعد لکھا: ''....but without intense Muslim consciousness and zeal for an Islamic State on the part of Muslim masses, Jinnah could not have created a Pakistan‘‘(صفحہ 8)۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر پس منظر میں اسلامی ریاست کے لیے عوام کی شدید خواہش اور تڑپ نہ ہوتی تو جناح پاکستان حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ خالد بن سعید کے مطابق قائداعظم اس بات سے پوری طرح آگاہ تھے کہ جب تک مسلم عوام کو پاکستان میں قرآن اور شریعت کے نفاذ کی یقین دہانی نہیں کرائی جائے گی‘ وہ ان کی حمایت نہیں کریں گے۔ خالد بن سعید کے بقول مسلمانوں کی اسی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے‘ قائد اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ لیگی راہنما مغربی لباس میں عوامی اجتماعات میں جائیں (صفحہ: 214 تا 215)۔ یہی بات کیتھ کلارڈ نے بھی 'پاکستان: ایک سیاسی مطالعہ‘ (Pakistan: A Political Study) میں لکھی ہے۔میں یہاں صوبہ سرحد کا بطور خاص ذکر کروں گا جہاں مسلم لیگ کو باچا خان اور ان کی جماعت کے چیلنج کا سامنا تھا۔ پیرجماعت علی شاہ نے قائد کو مشورہ دیا کہ پیر آف مانکی شریف کو ہمنوا بنایا جائے۔ پیر جماعت علی شاہ اُن اہم مشائخ میں سے تھے جن کی تائید نے تحریکِ پاکستان کو عوامی اعتماد فراہم کر نے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ ان کے جس مرید نے پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیا‘ وہ اس کا جنازہ نہیں پڑھائیں گے۔ ان کا اثر و رسوخ غیر معمولی تھا۔
قائداعظم نے سردار عبدالرب نشتر کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ پیر صاحب مانکی شریف تک ان کا پیغام پہنچائیں۔ وہ خود بھی کانگرس کے مخالف تھے۔ پیرصاحب نے علما اور مشائخ سے رابطہ کیا۔ ان کی کانفرنس بلائی اور پھر ایک ملک گیر جماعت 'جمعیۃ الاصفیا‘ قائم کی گئی۔ ان مذہبی نمائندوں نے قائداعظم سے اس بات کی ضمانت چاہی کہ جس موعود پاکستان کی بات کی جا رہی ہے‘ اس کا ریاستی تشخص اسلامی ہوگا۔ پیر صاحب نے قائداعظم سے رابطہ کیا اور انہوں نے 18 نومبر 1945ء کو پیر صاحب کو ایک خط بھیجا۔ اس میں انہوں نے لکھا کہ پاکستان کا آئین مسلم لیگ نہیں‘ پاکستان کے عوام بنائیں گے جو 75 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں۔ قائد نے مزید لکھا: ''اس باب میں کسی اندیشے میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کا قانون اسلامی تصورات کے مطابق نہیں بنے گا یا اسلامی اصولوں کے خلاف ہوگا‘‘۔ اس خط کو ہمارے سیکولر دوست مشکوک قرار دیتے ہیں۔ ''اباسین جنرل آف سوشل سائنسز‘‘ (جلد: 4‘ شمارہ: 2) میں چھپنے والے ایک تحقیقی مقالے میں‘ مقالہ نگار اسراج خان نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ خط پیر آف مانکی شریف کے بیٹے نبی الامین کے پاس محفوظ ہے اور اس کی نقل مصنف کے پاس بھی ہے۔
قائداعظم 24 مئی 1945ء کو مانکی شریف تشریف لے گئے۔ وہاں انہوں نے علما کے ایک جلسے سے خطاب کیا۔ جمعیۃ الاصفیا کی طرف سے مستقبل کے پردے میں چھپے پاکستان کے بارے میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہاں اسلامی شریعت کا نفاذ ہو۔ قائداعظم نے اپنے خطاب میں کہا: ''...اسلامی اصول ہی آئین ہیں جو تیرہ سو سال پہلے ہمیں رسالت مآبﷺ سے ملے ہیں۔ قرآنی اصول بھی (اب) ہمارا آئین ہو ں گے... قانون سازی کے باب میں مَیں یہ کہوں گا کہ جب آپ اپنے پارلیمانی نمائندوں کا انتخاب کریں گے تو وہ قرآن و سنت کے مطابق قوانین بنائیں گے...‘‘۔پیر آف مانکی شریف تاریخ ساز آل انڈیا سنی کانفرنس میں بھی شریک ہوئے۔ یہ کانفرنس 27 اپریل1946ء کو بنارس میں منعقد ہوئی۔ یہ بریلوی علما کا نمائندہ اجتماع تھا جس میں تحریکِ پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔ پیر آف مانکی شریف نے اس جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ''قائداعظم نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ اسلامی شریعت مملکت (پاکستان) کا قانون ہو گا۔ اگر انہوں نے مجھے اور مسلمانوں کو دھوکا دیا تو میں ان کی مخالفت کروں گا‘‘۔پیر آف مانکی شریف کے اس قصے سے میں نے یہ واضح کرنے کوشش کی ہے کہ علما ومشائخ نے کس بنیاد پر قائداعظم کا ساتھ دیا اور ان سے کیا وعدہ کیا گیا۔ بریلوی مکتبِ فکر کو تحریکِ پاکستان سے وابستہ کرنے کے لیے جو کردار پیر جماعت علی شاہ اور پیر آف مانکی شریف جیسے مشائخ نے ادا کیا‘ وہی کردار دیوبندی مکتبِ فکر کے حوالے سے مولانا شبیر احمد عثمانی کا ہے۔ تفصیل مضمون کے اگلے حصے میں‘ ان شاء اللہ۔