مولانا شبیر احمد عثمانی فرزندِ دیوبند تھے۔ دین کی تفہیم و تعبیر کے باب میں ان کا منہج بھی وہی تھا جو اکابر علمائے دیوبند کا ہے‘ تاہم متحدہ قومیت کے معاملے میں وہ جمعیت علمائے ہند سے متفق نہیں تھے۔
مسلکِ دیوبند کی اس نمائندہ سیاسی جماعت کا مؤقف وہی تھا جو مولانا حسین احمد مدنی کا تھا اور وہ کانگرس کے ساتھ تھے۔ جمعیت نے بھی 1936-37ء میں مسلم لیگ کا ساتھ دیا مگر بعد میں ان کے مؤقف میں تبدیلی آئی۔ مولانا عثمانی‘ مولانا اشرف علی تھانوی کے ہمنوا تھے اور مسلم لیگ کے ساتھ تھے۔ وہ جمعیت علمائے اسلام کے بانیوں میں سے تھے۔ مولانا عثمانی کا نقطہ نظر یہ تھا کہ مذہب قومیت کی اساس ہے۔ دنیا میں دو ہی قومیں ہیں: ایک وہ جو مسلمان ہیں اور دوسرے کفار۔ بظاہر یہ وہی مؤقف معلوم ہوتا ہے جو علامہ اقبال کا تھا‘ تاہم دونوں میں ایک لطیف فرق ہے۔ اقبال اسے مقامی سطح پر ہندو مسلم تناظر میں دیکھ رہے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ توحید یعنی وحدتِ الہ اور وحدتِ آدم کی اساسات پر عالمگیر انسانی اتحاد وجود میں آ سکتا ہے۔
مولانا عثمانی کا مؤقف تھا کہ قومی شناخت کا معاملہ اتنا اہم ہے کہ اس پر خاموش نہیں رہا جا سکتا۔ اس کے لیے وہ اپنے ہی گروہ کی ناراضی مول لینے پر آمادہ ہو گئے۔ ستمبر 1939ء میں‘ جب وہ دارالعلوم دیوبند کے صدر تھے‘ انہوں نے اپنے مؤقف کو مدیر 'عصرِ جدید‘ کے نام ایک خط میں ان الفاظ میں بیان کیا: ''قومیتِ متحدہ کا نظریہ جو کانگرس کے دستورِ اساسی کا اساسی پتھر ہے... میرے نزدیک شرعی نقطہ نظر سے کبھی قابلِ تسلیم نہیں ہو سکتا۔ میں کوئی سیاسی آدمی نہیں ہوں نہ سیاسیات میں کوئی خاص اشتغال رکھتا ہوں۔ تاہم اپنی قوم کے سود و بہبود کا سوچنا‘ اس کا ایک جزو ہونے کی حیثیت سے میرے لیے بھی ناگزیر ہے۔ جو کچھ میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے لیے سب سے پہلے ایک اسلامی وحدت و مرکزیت پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے بدون کسی نام نہاد قومیتِ متحدہ کے تیز دھارے میں گھاس کے تنکوں کی طرح اپنے آپ کو ڈال دینا‘ خودکشی کے مترادف ہے۔ مسلمان دوسری قوموں سے صلح کر سکتے ہیں۔ ان سے عہد و پیمان کر سکتے ہیں۔ بہت سے امور میں تعاون و اشتراک کر سکتے ہیں‘ لیکن وہ اس مستقل ہستی کو دوسروں میں مدغم نہیں کر سکتے۔ میں اپنے لیے فرقہ پرست کا خطاب پسند کرتا ہوں مگر اپنی قوم کا غدار یا قوم فروش کہلانا کبھی قبول نہیں کر سکتا‘‘۔
مولانا عثمانی نے یہ مقدمہ بہت جرأت کے ساتھ لڑا۔ وہ اپنے محبوب قائدین کی ناراضی مول لینے پر آمادہ ہو گئے مگر متحدہ قومیت کا تصور اختیار نہیں کیا۔ مولانا حسین احمد مدنی‘ جمعیت علمائے ہند کے دو بڑے علما کے ساتھ ان سے ملے اور یہ چاہا کہ وہ اپنی رائے تبدیل کریں۔ اس موقع پر جو گفتگو ہوئی‘ اس کو ''مکالمۃ الصدرین‘‘ کے عنوان سے مرتب کرکے شائع کیا جا چکا ہے۔ یہ خدمت مولانا قاسم نانوتوی کے پوتے اور قاری طیب صاحب کے بھائی مولانا محمد طاہر نے سر انجام دی۔ اس کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اپنے مؤقف پر کس طرح شرحِ صدر تھا۔
مسلم لیگ کو وہ مسلمانوں کی مثالی جماعت نہیں سمجھتے تھے‘ لیکن اس کے بارے میں حسنِ ظن رکھتے تھے۔ مولانا نے اس موضوع پر ایک سے زائد بار اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔ مثال کے طور پردسمبر 1945ء میں میرٹھ میں مسلم لیگ کے انتخابی جلسے میں انہوں نے صدارتی خطبہ دیا۔ اس خطبے میں مولانا نے چند گروہوں‘ جسے مرتدوں‘ دہریوں‘ بے دینوں وغیرہ کا ذکر کیا۔ پھر کہا: ''مسلم لیگ کا دروازہ چونکہ ہر مدعی اسلام کے لیے کھلا ہوا ہے‘ اور اس میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہو گئے ہیں جو فی الحقیقت مذکورہ بالا گروہوں میں سے بعض کے ساتھ وابستہ ہیں‘ اس لیے بہت سے دین دار مسلمان کشادہ دلی کے ساتھ اس میں شمولیت سے پرہیز کرتے ہیں... راقم الحروف خود ایک مدت دراز تک‘ اس شش و پنج میں رہا اور یہی وجہ ہے کہ خاصی تاخیر سے میں نے مسلم لیگ کی حمایت میں قدم اٹھایا۔ میں نے اپنی قدرت کی حد تک اس مسئلے کی نوعیت پر قرآن و سنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں غور کیا۔ اللہ سے دعائیں کیں اور استخارے کیے۔ بالآخر ایک چیز میرے اطمینان اور شرحِ صدر کا باعث بنی اور وہ امام محمد بن حسن شیبانی کی ایک تصریح ہے‘‘۔
مولانا عثمانی نے اس کے بعد خوارج کے نظریات بتائے جو جمہور مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ اس کے باوجود امام محمد بن حسن شیبانی کا فتویٰ ہے کہ اگر خوارج مشرکین سے نبرد آزما ہوں تو ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے‘ وہ کہتے ہیں: ''اتفاق سے آج ہندوستان میں مسلم لیگ کا مقابلہ بھی کفار و مشرکین سے ہے اور مسلم لیگ میں شامل ہو نے والے کلمہ گو مدعی اسلام ہیں جو مسلمانوں کے قومی استقلال‘ سیاسی اقتدار‘ نفسِ کلمہ‘ اسلام کے اعلا اور ملتِ اسلامیہ کو من حیث المجموع مضبوط‘ طاقتور اور سربلند کرنے کے لیے‘ ایک آئینی جنگ ان کفار اور مشرکین کے مقابلے پر کر رہے ہیں۔ پھر مسلم لیگ میں شامل ہونے والے بے شمار آدمیوں میں ان چند باطل پرستوں کی تعداد اہلِ حق کی نسبت عشرِ عشیر بھی نہیں‘‘۔
یہ مولانا کا مسلمان عوام سے خطاب تھا جنہیں وہ دینی نقطہ نظر سے مسلم لیگ میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ اسی تقریر میں مسلم لیگ کی قیادت کو بھی مخاطب بناتے ہیں۔ مولانا عثمانی مسلم لیگ کے قائدین کو تذکیر کرتے ہیں کہ انہوں نے عوام سے جو وعدے کر رکھے ہیں‘ ان کی پاسداری کریں۔ وہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے عوامی بیانات کا حوالہ دیتے ہیں جن میں انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ مسلم لیگ جو ملک حاصل کرنے جا رہی ہے‘ اس میں اسلامی قوانین نافذ ہوں گے۔ مثال کے طور پر عیدالفطر (نومبر 1939ء) کے موقع پر قائداعظم کا بیان۔ اسی طرح وہ پشاور میں انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل لیاقت علی خان کے خطاب کا ذکر کرتے ہیں جو انہوں نے لیگی مجلسِ عاملہ کے اراکین سے کیا۔ لیاقت علی خان نے کہا: ''پاکستانی علاقوں میں تمام نظام و انصرامِ حکومت قرآن پاک کے احکام و اصولوں کے بموجب ہو گا‘‘۔
مولانا عثمانی مسلم لیگ کی قیادت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ خود بھی قرآنی احکام پر عمل کریں اور عوام کو بھی اطمینان دلاتے رہے کہ وہ پرسنل لاء کے حوالے سے‘ شریعت کے باب میں‘ علما کے طے شدہ فیصلوں کے خلاف قانون سازی کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہاں متحدہ ہندوستان کی اسمبلی کی بات ہو رہی ہے۔
مولانا شبیر احمد عثمانی نے اُن علاقوں میں بھی مسلم لیگ کے حق میں جلسے کیے جنہوں نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ تقسیم کے بعد‘ انہیں پاکستان کا حصہ بننا ہے یا بھارت کا۔ اس میں صوبہ سرحد اور سلہٹ بطورِ خاص اہم ہیں۔ صوبہ سرحد میں باچا خان کا زور تھا اور سلہٹ کے بارے میں یہ طے ہونا تھا کہ اس نے آسام کے ساتھ جانا ہے یا پاکستان کے ساتھ۔ مولانا کی یہ سب تقاریر کم و بیش اسی مؤقف کا اعادہ ہے جو انہوں نے میرٹھ میں بیان کیا۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ بریلوی مشائخ کی طرح دیوبندی علما نے بھی اسی لیے پاکستان کے مطالبے کا ساتھ دیا کہ انہیں اور عوام کو نفاذِ اسلام کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔
قائداعظم کے بارے میں مولانا عثمانی کیا رائے رکھتے‘ اور اُن کے خواب کی حقیقت کیا ہے‘ یہ موضوعات ان شاء اللہ مضمون کے اگلے حصے میں زیرِ بحث آئیں گے۔
(تصحیح: مضمون کے گزشتہ حصے میں قائداعظم کے دورۂ مانکی شریف کی تاریخ 24مئی 1945ء لکھی گئی۔ صحیح تاریخ 24 نومبر 1945ء ہے)