قائداعظم کے بارے میں مولانا شبیر احمد عثمانی کی رائے وہی تھی جو ان کے حامی و مددگار دوسرے علما کی تھی۔ یہ علما ان کو مثالی راہنما نہیں سمجھتے تھے مگر اسے حکمت کا تقاضا خیال کرتے تھے کہ درپیش حالات میں مسلمانوں کی سیاسی قیادت‘ ایک ایسی شخصیت کے ہاتھ میں ہو جس کی دیانت شک و شبہے سے بالاتر ہو‘ جو جدید سیاست کے داؤ پیچ جانتی ہو‘ مخالفین کی نفسیات سمجھتی ہو‘ ان کی سیاسی روایت وافکار سے واقف ہو اور اُن کی زبان میں ان سے کلام کر سکے۔ اس کے ساتھ مسلم قوم کی تہذیبی شناخت اور مفادات کے بارے میں حساس ہو۔ ان کے نزدیک موجود قیادت میں محمد علی جناح ہی اس معیار پر پورا اترتے تھے۔
26 اکتوبر 1945ء کو کلکتہ میں جمعیت علمائے اسلام کی 'کل ہند چار روزہ کانفرنس‘ کا آغاز ہوا۔ مولانا عثمانی صاحبِ فراش ہونے کے باعث اس میں شریک نہ ہو سکے۔ کانفرنس کیلئے انہوں نے اپنا لکھا ہوا خطبہ ارسال کیا۔ اس میں قائداعظم کے بارے میں کہا: ''بلاشبہ مسلم لیگ اور اس کے قائد میں انسانی کمزوریاں ہیں اور ان کی بہت سی باتیں ہمارے علما کی نزدیک قابلِ اعتراض ہیں۔ لیکن ضرورت ہے کہ عوام کو تیار کیا جائے اور اچھے اچھے پختہ علما وزعما عوام کی طاقت سے مجبور کر دیں کہ وہ امانت داری سے اپنے آپ کو اس منصب کا اہل ثابت کریں جو جمہور کی طرف سے ان کو تفویض ہوا ہے۔ جہاں تک میں اپنی بساط کے موافق اندازہ کر سکا ہوں‘ مجھے یقین ہے کہ آج کل کی سیاست کے داؤ پیچ سے مسٹر جناح سب سے زیادہ واقف ہے۔ پھر وہ کسی قیمت پر خریدا جا سکتا ہے اور نہ کسی دباؤ کے سامنے سر جھکا سکتا ہے‘‘۔
قائداعظم کے ناقدین نے انہیں انگریزوں کا آدمی کہا۔ جمعیت علمائے ہند کا جو وفد مولانا عثمانی سے ملنے آیا‘ اس کی گفتگو میں بھی اس الزام کا تذکرہ ہوا۔ جواب میں مولانا عثمانی نے کہا: ''مسٹر جناح کے متعلق میرا کبھی یہ گمان نہیں ہو سکتا کہ وہ سرکاری آدمی ہیں یا وہ کسی لالچ اور دباؤ میں آ سکتے ہیں یا کسی قیمت میں خریدے جا سکتے ہیں‘‘ (مکالمۃ الصدرین)۔ مولانا پہ سب سے زیادہ دباؤ ان کے ہم مسلک لوگوں کا تھا۔ ان سے بار بار استفسار ہوا کہ دین کے جید علما کی موجودگی میں انہوں نے مسٹر جناح کی قیادت کیسے قبول کر لی؟ مولانا احمد اسماعیل صالح نے سوال کیا کہ مسلمانو ں کی قیادت کیلئے زیادہ اہل مولانا حسین احمد مدنی ہیں یا محمد علی جناح؟ مولانا نے جواب دیا: ''خالص مذہبی حیثیت میں مولانا سے مسٹر جناح کا مقابلہ نہیں کیا جا رہا۔ اصل چیز یہ ہے کہ آج کل کی سیاست اسلامی سیاست نہیں ہے بلکہ یہ سیاست بہت ہی گہرے اور باریک اصول مکر وکید پر مبنی ہے۔ اس کا توڑ وہی کر سکتا ہے جو پہلے ان آئینی چالوں کو سمجھ لے۔ اس اعتبار سے بکثرت مسلمانوں نے مسٹر جناح کو آگے کر رکھا ہے اور وہ انگریز اور اس کے شاگرد ہندو کی چالوں اور ان کے داؤ پیچ کو بخوبی سمجھتا ہے اور ان کے مکر وکید ان کی ہی طرف لوٹا دیتا ہے‘‘۔
مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی جیسی شخصیت نے بھی جب اسی طرح کی بات کہی تو مولانا نے انہیں لکھا: ''ہم نے ان (قائداعظم) کو ابتداً قائد نہیں بنایا۔ وہ اپنی دماغی قابلیت یا دوسرے تکوینی اسباب کی بنا پر مسلم اکثریت کے قائد بن گئے۔ اب ان کا مقابلہ کر کے جماعتِ مسلمین میں تفرقہ ڈالنا‘ درآں حالیکہ وہ اس وقت ایک مضبوط اصول اور صحیح نظریے کے حامل بھی ہیں‘ کیسے درست ہو سکتا ہے؟... مسٹر جناح عالم نہ سہی مگر جو آئینی کُشتی لڑی جا رہی ہے‘ اس کے داؤ پیچ سے خوب واقف ہے۔ لاؤزبسکو کے مقابلہ میں گاماں (پہلوان) ہی کو آگے بڑھائیں۔ آخر حضرت اشموئیل نبی کی موجودگی میں بنی اسرائیل کی درخواست پر اللہ تعالیٰ نے طالوت کو امیرِ لشکر بنایا تھا... پھر میں نہیں جانتا کہ آج کسی مفسرِ قرآن کی موجودگی میں مسٹر جناح کو قائد بنا دینے سے کیا قیامت ٹوٹ پڑی اور جو چیز 1937ء میں جنت تھی‘ 1945ء میں جہنم کیسے بن گئی؟‘‘ (یہ اس جانب اشارہ ہے کہ 1937ء میں مولانا مدنی اور جمعیت نے مسلم لیگ کی تائید کی تھی)۔ قائداعظم اور ان کے سیاسی مؤقف کے بارے میں مولانا عثمانی نے اپنی اس رائے کا اظہار‘ قیامِ پاکستان سے پہلے کیا۔ یہ باتیں مسلم لیگ کے اجتماعات میں کہیں۔ کسی ایک نے بھی ان پر یہ الزام نہیں لگایا کہ وہ اپنی بات قائداعظم کے منہ میں ڈال رہے ہیں۔
مولانا نے جمعیت علمائے ہند کے اکابر اور ان کے متاثرین کے سامنے جس طرح قائداعظم اور مسلم لگ کا مقدمہ پیش کیا‘ وہ متاثر کن ہے۔ انہیں علمائے دیوبند کے اُن متاثرین کا سامنا تھا جنہیں اپنے اکابر کی رائے کی صحت پر کامل یقین تھا۔ مولانا عثمانی نے ان کے فہمِ دین اور ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے جو جواب دیے‘ ان کا توڑ ان سے نہیں بن پایا۔
قائد کے بارے میں مولانا کے خیالات کو کچھ اس طرح سمیٹا جا سکتا ہے۔1: محمد علی جناح کو جمہور مسلمانوں نے اپنا راہنما تسلیم کر لیا ہے‘ اس لیے ان کی مخالفت کا مطلب‘ مسلم قوم میں انتشار پیدا کر نا ہے۔ 2: ان کا موقف دینی نقطہ نظر سے بھی درست ہے۔ 3: اہلِ اسلام کی سیاسی قیادت کا وہی اہل ہے جو سیاست کو بہتر سمجھتا ہے۔ اس بنیاد پر اسے عالمِ دین پر ترجیح حاصل ہے۔ 4: قائداعظم کی دیانت اور اہلیت شک و شبہے سے بالا تر ہے۔
برادرم وجاہت نے یہ تاثر دیا ہے کہ مولانا عثمانی نے اپنی ذات اور اپنے سیاسی مؤقف کے بارے میں کچھ خواب مشتہر کیے اور یوں مذہب کے سوئے استعمال کے مرتکب ہوئے۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا نے اپنی کسی تحریر یا تقریر میں کہیں کسی خواب کا تذکرہ نہیں کیا۔ مولانا کی تحریر کا ایک اقتباس میں نقل کر چکا ہوں جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ قائداعظم اور مسلم لیگ کے بارے میں انہیں کیسے شرحِ صدر ہوا۔ مولانا کے مطابق یہ قرآن و سنت اور فقہ حنفی کی روایت پر غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ گویا ایک فکری مشق کا حاصل ہے‘ کسی خواب کا نہیں۔ یہ وہ موقع تھا جہاں وہ خواب کو شرحِ صدر کی وجہ بتا سکتے تھے مگر انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کی۔ اب سردار شوکت حیات یا کسی سابقہ آئی جی کی مجہول روایت کو مولانا کے نامہ اعمال میں درج کر نا‘ کیا علمی تنقید ہے؟ یہ سوال اُن سے ہے جو اپنے مؤقف کے حق میں ایسی روایات پھیلاتے ہیں اور ان سے بھی جو ان کی بنیاد پر مولانا پر تنقید کرتے ہیں۔
آج کل بھی ایک روایت گردش میں ہے کہ مولانا تقی عثمانی کو نبیﷺ نے اس عہد کا مجدد کہا ہے۔ یہ بات مراد آباد کے کسی عالم سے خواب میں کہی گئی۔ انہوں نے راولپنڈی کے ایک عالم کو اور اس عالم نے دوسرے عالم کو بتائی۔ دوسرے عالم نے اسے مولانا تقی عثمانی کو بتایا۔کل اگر کوئی مورخ اس روایت کو بیان کرے اور یہ تاثر دے کہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے یہ روایت پھیلائی تو اس میں مفتی صاحب کا کیا قصور؟ واقعہ یہ ہے کہ یہ غیر ذمہ دار راوی ہیں جو تاریخ کو مسخ کرتے ہیں جس کی قیمت قومیں صدیوں تک ادا کرتی ہیں۔ مسلمان امت چودہ سو سال سے ایسے راویوں کے پھیلائے کانٹوں سے اپنے پاؤں کو مسلسل زخمی اور منزل کو کھوٹی کرتی چلی آ رہی ہے۔
وجاہت صاحب نے مولانا عثمانی کے سیاسی اخلاقیات کو بھی موضوع بنایا ہے۔ کیا وہ خود کو قائداعظم کے بہتر متبادل کے طور پر پیش کر رہے تھے؟ ان موضوعات پر‘ ان شاء اللہ مضمون کے اگلے حصے میں بات ہو گی۔