مولانا شبیر احمد عثمانی کیا قائداعظم کی جگہ لینا چاہتے تھے؟ کیا وہ کسی دنیاوی منصب کے لالچ میں مذہب کے سوئے استعمال کے مرتکب ہوئے؟
جناب وجاہت مسعود نے مولانا پر یہ الزامات عائد کیے ہیں۔ اس بار بھی مولانا عثمانی کی کسی تحریر یا تقریر سے براہِ راست شہادت فراہم کرنے کے بجائے انہوں نے عبید الرحمن نامی ایک وکیل کی کتاب کا حوالہ دیا ہے جس میں مولانا سے ایک بیان منسوب ہے۔ روایت کے مطابق مولانا عثمانی نے کہا: ''ابھی تحریک جاری ہے۔ جدو جہد کا دور ہے۔ اس وقت جس قیادت کی ضرورت ہے وہ قائداعظم میں موجود ہے۔ منزل تک پہنچانے کے لیے ان سے بہتر کوئی متبادل قیادت نہیں۔ منزل کے قریب ہم اپنا فرض ادا کریں گے‘‘۔ اب وہ 'حاشیہ‘ پڑھیے جو اس 'متن‘ پر وجاہت صاحب نے لکھا: ''اگر عبید الرحمن کا بیان ثقہ تسلیم کیا جائے تو یہ افسوسناک انکشاف ہوتا ہے کہ شبیر احمد عثمانی محض تزویراتی حیلے کے طور پر قائداعظم کو سیڑھی بنا کر آگے بڑھ رہے تھے اور حتمی تجزیے میں اپنی ذاتِ مبارکہ کو قائداعظم کی نسبت مسلمانوں کی راہنمائی کا بہتر اہل گردانتے تھے۔ شاید اسی حکمتِ عملی کے تحت 26 اگست 1947ء کو صوبہ سندھ کے وزیر تعلیم پیر الٰہی بخش نے کراچی کی ایک جامع مسجد میں تجویز پیش کی کہ پاکستان میں جمعہ کے خطبے میں قائداعظم محمد علی جناح کا نام بطور امیرِ ملت شامل کرنا چاہیے‘‘۔
اگر متن کے اس حاشیہ اور شرح کی نسبت وجاہت صاحب کے بجائے کسی نامعلوم کی جانب ہوتی تو میں اسے بلا تردد زبان و بیان کے مبادیات سے ناواقف قرار دیتا۔ پھر سندھ کے صوبائی وزیر کے بیان سے اس کو جوڑ کر جو معنویت پیدا کی گئی اس پر تو خاموشی ہی روا ہے۔ حیرت اس پر ہے کہ لاریب یہ وجاہت صاحب کی تحریر ہے جو ادب کے استاد ہیں اور مجھ جیسا طالب علم ان کی سخنوری اور سخن فہمی پر رشک کرتا ہے۔ میں یہ کیسے مان لوں کہ ان جیسا بحرِ زبان و ادب کا شناور متن اور حاشیے کا تعلق نہیں جانتا یا دو مختلف باتوں میں تطبیق کے اصولوں سے ناواقف ہے۔ میں اس پر بھی متردد ہوں کہ ان جیسے اخلاقیات کے علمبردار کو صریح بدگمانی کا مرتکب قرار دوں۔
خطبہ جمعہ میں قائداعظم کا نام شامل کرنے کا جواز مولانا عثمانی نے بیان کیا ہے۔ محترم محمد سعید صاحب نے ایک ڈیڑھ برس قبل ایک عمدہ کتاب ترتیب دی۔ انہوں نے چند بڑے اخبارات میں یکم اگست 1947ء سے 31 دسمبر 1947ء کے دوران شائع ہونے والی اہم خبروں‘ بیانات‘ اشتہارات‘ مضامین اور اداریوں کا ایک انتخاب بلا تبصرہ مرتب کر دیا۔ اس کتاب کے مطابق روزنامہ ''ڈان‘‘ میں 27 اگست 1947ء کو مولانا عثمانی کا ایک بیان شائع ہوا جس میں انہوں نے چند اہم باتیں کہیں۔ ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی: ''جمعہ کے خطبات میں قائداعظم کے نام سے متعلق یہ ہے کہ یہ بنو امیہ اور بنو عباس کی وراثت رہی ہے۔ اور اگر خطبات آج بھی Properly deliver کیے جائیں تو حکمران کا نام لامحالہ آئے گا بشرطیکہ ادارے کی روح کو برقرار رکھا جائے۔ اور قائداعظم بلاشبہ اس وقت 'مسلم سٹیٹ آف پاکستان‘ کے ہیڈ ہیں‘۔
اس رائے کا ایک پس منظر ہے‘ اسلام اور مسلم تاریخ کا طالب علم جس سے اچھی طرح باخبر ہے۔ اسلام میں جمعہ ایک سیاسی اجتماع ہے جس کا اہتمام ریاست کرتی ہے۔ خطبہ جمعہ دراصل ریاست کے سربراہ یا اس کے مقرر کردہ عمال کی ذمہ داری ہے۔ اسی وجہ سے اس میں ریاست کے سربراہ کا ذکر ہوتا ہے۔ جب حکمران اس قابل نہیں رہے یا کسی مقام پر مسلم اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تو پھر علما نے اس روایت کو زندہ رکھنے کے لیے خطبہ جمعہ کی ذمہ داری اٹھا لی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری زیادہ تر مساجد میں آج بھی عربی کا وہی خطبہ پڑھا جاتا ہے جو عباسی حکمرانوں نے اپنے دور میں رائج کیا۔ اس میں حضرت عباسؓ اور ان کی اولاد کے لیے خصوصی دعا کی جاتی ہے۔ مولانا عثمانی کا کہنا تھا کہ جب مسلمانوں کی اک ریاست وجود میں آ گئی ہے اور ان کا ایک حکمران موجود ہے تو خطبہ بھی اسی کا پڑھا جانا چاہیے۔ اس تجویز پر علمی تنقید تو کی جا سکتی ہے‘ یہ نتیجہ کیسے برآمد کیا جا سکتا ہے کہ مولانا عثمانی خود کو قائداعظم کے منصب پر بٹھانا چاہتے تھے؟
بعض حلقوں کی طرف سے مولانا عثمانی کو 'شیخ الاسلام‘ کا منصب دینے کی بات ہوئی تھی۔ اس کو بھی درست تناظر میں سمجھنا چاہیے۔ اسلامی ریاست کے جس تصور کے تحت 'شیخ الاسلام‘ کا منصب تجویز کیا جاتا ہے‘ اس میں بھی یہ 'خلیفہ‘ کے ہم معنی نہیں ہے بلکہ ریاست کے اندر ایک منصب ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ وہی منصب ہے جو دورِ حاضر میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کا ہے۔ مولانا نے خود کو کبھی اس منصب کے لیے بھی پیش نہیں کیا۔
مو لانا شبیر احمد عثمانی کی کسی تحریر یا تقریر میں اس بات کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا کہ وہ کسی دنیاوی منصب کے خواہش مند تھے یا خود کوقائداعظم کا متبادل سمجھتے تھے۔ میں ان کی تحریروں اور خطبات سے یہ بتا چکا ہوں کہ وہ قائداعظم کے بارے میں کیا خیالات رکھتے تھے۔ ان کا مؤقف واضح‘ دوٹوک اور ہر طرح کے ابہام سے پاک ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ مسلم لیگ کے بہت سے دوسرے ہم سفروں کی طرح‘ قیامِ پاکستان کے بعد لیگی قیادت سے ان کی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ اس کے اسباب اور مولانا کے بعد کے مؤقف پر آگے چل کر بات ہو گی۔ اتنی بات البتہ ابھی واضح کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مایوسی کے باوجود مولانا کبھی اقتدار کی سیاست کا حصہ نہیں بنے۔
مولانا شبیر احمد عثمانی نے سیاست میں ہمیشہ اعلیٰ اخلاقی اصولوں کی پاسداری کی۔ پاکستان سے ایک دھیلے کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ انہوں نے نئے ملک میں ایک مسافر کی طرح دو سال اور چند ماہ گزارے۔ مہاجرین کی آباد کاری کے لیے بہت کام کیا مگر اپنے لیے کوئی مکان الاٹ نہیں کرایا۔ آئے تو کراچی میں سر ہدایت اللہ کے مہمان بنے۔ پھر اے ایم قریشی صاحب کی کوٹھی پر منتقل ہو گئے۔ موت سے کچھ دن پہلے بہاولپور گئے اور وہیں انتقال ہو گیا۔ میت کراچی لائی گئی اور قریشی صاحب کے گھر سے جنازہ اٹھا۔ اللہ نے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا۔ دنیا سے رخصت ہوئے تو دامن دنیا کی ہر خواہش اور مفاد سے خالی تھا۔ ایسے آدمی کے بارے میں کسی بدگمانی کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے۔
مولانا عثمانی سیاست میں شائستگی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے علمبردار رہے۔ جب مسلم لیگ اور مذہبی طبقات کی طرف سے مولانا حسین احمد مدنی‘ مولانا آزاد اور قائداعظم کی توہین کی گئی تو دونوں کی مذمت کی۔ کلکتہ کانفرنس کے خطاب میں کہا: ''جب ایک جانب سے قائداعظم کی جگہ کافرِ اعظم اور ملعون و عیار وغیرہ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں تو لاکھوں افراد کے سینے میں یہ لفظ تیر و نشتر بن کر لگتے ہیں۔ دوسری طرف اگر مولانا ابوالکلام آزاد یا مولانا حسین احمد مدنی کے ساتھ کوئی ناشائستہ اور گستاخانہ معاملہ کیا جاتا ہے تو نہ صرف ان کے معتقدین بلکہ ہزارہا مسلمانوں کے قلب و جگر بھی چھلنی ہو جاتے ہیں جن کو ان کے سیاسی مسلک سے اختلاف ہے۔ کسی جماعت کے کسی بڑے آدمی یا کسی عالمِ دین کو اس طرح بے آبرو کرنا یا اس پر خوش ہونا پرلے درجے کی شقاوت اور حماقت ہے۔ اس سے ساری قوم کی ہوا خیزی‘ رسوائی‘ بے عزتی ہوتی ہے‘‘۔
ایسے خیالات کی حامل شخصیت اگر بدگمانیوں کا ہدف بن جائے تو اس پر اقدار کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔