قائداعظم کا تصورِ ریاست کیا تھا؟ کیا یہ مولانا شبیر احمد عثمانی کے تصور سے مختلف تھا؟ قائداعظم اور مسلم لیگ کا تصورِ ریاست کیا ایک تھا؟
بیسویں صدی میں علمِ سیاسیات کے باب میں جو تصورات مستعمل تھے‘ ہر پڑھے لکھے آدمی کی طرح قائداعظم بھی ان سے خوب واقف تھے۔ ان میں سے تین سب سے اہم ہیں۔ ایک پاپائیت (Theocracy)‘ یعنی مذہبی طبقے کی حکومت۔ دوسرا سیکولر ازم‘ یعنی ریاستی امور سے مذہب کی لاتعلقی۔ تیسرا قومی ریاست‘ یعنی قومیت کی بنیاد پر ایک جغرافیائی و سیاسی وحدت۔ مسلمانوں میں بھی بعض تصورات بطورِ خاص موجود تھے۔ جیسے اسلامی ریاست۔ یہ خلافت کی تشکیلِ نو تھی‘ یا مسلم قومی ریاست۔ اس سے مراد مسلمانوں کی قومی ریاست ہے۔
قائداعظم کیسی ریاست چاہتے تھے؟ پاپائیت کی انہوں نے علانیہ نفی کی۔ اپنی سیاسی لغت کو انہوں نے سیکولر ازم کے لفظ سے بھی پاک رکھا۔ قومی ریاست کے اس تصور کو بھی انہوں نے قبول نہیں کیا جو مغربی سیاسی فکر میں بیان ہوا ہے۔ خلافت کے حق میں بھی انہوں نے کبھی کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ خلافتِ عثمانیہ کی بحالی کے لیے جب یہاں تحریک اٹھی تو وہ اس سے پوری طرح لاتعلق رہے۔ اسی طرح 'اسلامی ریاست‘ کے اس تصور سے بھی ان کی وابستگی کی کوئی شہادت موجود نہیں جو مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے پیش کیا۔
قائداعظم دراصل اس مسلم قومی ریاست کو مانتے تھے جس کی فکری بنیاد علامہ اقبال نے رکھی۔ یہ مغربی قومی ریاست کے تصور میں اتنا اضافہ تھا کہ اگر قومیت کی بنیاد رنگ‘ نسل اور جغرافیہ ہو سکتے ہیں تو مذہب کیوں نہیں؟ قوم کسی ایک سیاسی عصبیت پر کھڑی ہوتی ہے۔ اگر کہیں مذہب یہ عصبیت پیدا کر دیتا ہے تو پھر اسے بھی قومیت کی اساس ماننا چاہیے۔ اسی بنیاد پر وہ مسلمانوں کو اقلیت نہیں بلکہ ایک الگ قوم تسلیم کرتے تھے۔ انہوں نے بارہا اس کو بیان کیا کہ تہذیبی حوالے سے ہندو اور مسلمان مل کر ایک قوم نہیں بن سکتے۔ ایک وطن میں رہتے ہوئے جو چیز انہیں جدا کرتی ہے وہ مذہب کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتی۔
مذہب کی بنیادپر قومیت کا یہ تصور علامہ اقبال نے پیش کیا۔ یہ انہی کا کہنا تھا کہ 'خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی‘۔ قائداعظم نے بھی اس کو قبول کیا۔ مولانا مودودی بھی مذہب کو قومیت کی اساس مانتے تھے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ مسلمان ایک اسمِ صفت ہے۔ یہ ایک خاص کردار کا نام ہے۔ محض نام کی بنیاد پر جو 'مسلم قومیت‘ وجود میں آئے گی‘ یہ وہ قومیت نہیں جو اسلام میں مطلوب ہے۔ ان کے خیال میں مردم شماری کا رجسٹر نہیں‘ کر دار کسی کے مسلمان ہونے کا شہادت دیتا ہے۔ اس کے برخلاف قائداعظم ہر اس شخص کو مسلمان مانتے تھے جس کا نام مردم شماری کے رجسٹر میں بحیثیت مسلمان درج ہے۔
جب مذہب شناخت ہے تو جو قومی ریاست وجود میں آئے گی اس کی باگ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو گی۔ مسلمان رہتے ہوئے کوئی حکمران شریعت سے کیسے صرفِ نظر کر سکتا ہے؟ یہی بات قائداعظم نے بارہا کہی اور اس کی تفہیم میں عام آدمی کو مشکل پیش نہیں آتی۔ قائداعظم نے واضح کر دیا کہ وہ پاپائیت کے خلاف ہیں اور 'اسلامی ریاست‘ کے تصورکے ساتھ بھی ان کی رغبت کی کوئی شہادت موجود نہیں‘ بلکہ گواہی اس کے برخلاف ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی جو 'اسلامی ریاست‘ کا تصور پیش کر رہے تھے‘ وہ مسلم لیگ کی سیاست کے خلاف تھا۔ انہوں نے اس وقت جماعت اسلامی قائم کی جب قراردادِ پاکستان منظور ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا تھا اور وہ تحریکِ پاکستان کا حصہ نہیں بنے۔
قائداعظم کوئی عالم نہیں تھے۔ وہ عصری سیاست کے تناظر میں دیکھ رہے تھے کہ مسلمانوں کو اگر اپنا 'قومی‘ وجود باقی رکھنا ہے تو انہیں مذہب کو قومیت کی اساس کے طور پر منوانا ہو گا۔ بالخصوص جب سامنا ہندو اکثریت سے تھا۔ وہ اپنے تجربات کی روشنی میں اس نتیجے تک پہنچے تھے کہ ہندو عصبیت و اکثریت مسلمانوں کی تہذیبی شناخت کے راستے میں ہمیشہ رکاوٹ بنی رہے گی۔ جب مذہب کو انہوں نے شناخت کے طور پر قبول کیا تو اس کا بدیہی نتیجہ یہ تھا کہ جو ریاست بنے وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق ہو۔
مسلم لیگ میں اصولی سطح پر تو یکسوئی تھی کہ جومسلمانوں کی ریاست قائم ہو گی اس میں اسلام کے اصولوں کی بالا دستی ہو گی‘ اب عملاً اس کی نوعیت کیا ہوگی‘ مسلم لیگ اس بارے میں ابہام کا شکار تھی۔ مسلم لیگ کی تاریخ میں ایک بار ایک کمیٹی بنی تھی جس کے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ وہ اسلام کی روشنی میں سیاسی نظام کا ڈھانچہ تشکیل دے۔ مولانا محمد اسحاق کی سربراہی میں قائم اس کمیٹی میں سید سلیمان ندوی اور مولانا مودودی بھی شامل تھے۔ ان کا حاصلِ فکر ایک کتابچے کی صورت میں شائع بھی ہوا۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ کے پاس ریاست کے کسی واضح تصورکے آثار نہیں ملتے۔ اس کا معاملہ تو یہ تھا کہ علامہ اقبال کے علاوہ مسلم قومیت کے بارے میں اس کے پاس کوئی فکری مواد موجود نہیں تھا۔ اپنی ضرورت کے لیے انہوں نے مولانا مودودی کی وہ تنقید مستعار لی جو انہوں نے متحدہ قومیت کے تصور پر کی۔
اس بحث میں یہ نکتہ کم اہم نہیں کہ قائداعظم نے پوری سیاسی زندگی میں سیکولر ازم یا سیکولر سٹیٹ جیسے الفاظ کے استعمال سے گریز کیا۔ یہ بلا وجہ نہیں تھا۔ اگر 11اگست 1947ء کی تقریر سے ان کی مراد ایک سیکولر ریاست ہی تھی تو پھر اس لفظ کے استعمال میں کیا مانع تھا؟ یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے انہیں اکبر کی روا داری کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے اکبر کے بجائے سیدنا محمدﷺ کو اپنا فکری قبلہ قرار دیا۔ قائداعظم جانتے تھے کہ وہ ریاست کا جو تصور رکھتے ہیں اور جس کے لیے برصغیر کے مسلم عوام نے ان کا ساتھ دیا‘ اسکے لیے 'سیکولر‘ حوالہ موزوں نہیں۔
جہاں تک مسلم لیگ کا معاملہ ہے تو اس میں مسلمانوں کے سب طبقات کی نمائندگی تھی۔ وہ بھی جو سیکولر روایات کے امین تھے اور وہ بھی جو مذہبی تھے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی جیسی شخصیات نے اس بارے میں کوئی ابہام نہیں رہنے دیا کہ اگر اسلام کی تعلیمات کے مطابق پاکستان کے قیام کی بات نہ ہوتی تو وہ مسلم لیگ کا ساتھ نہ دیتے۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ کی قیادت کو اسی جانب متوجہ کرتے رہے اور کسی نے ان کی تردید نہیں کی۔ یہی نہیں جب قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تو اسمبلی میں لیاقت علی خان نے مولانا عثمانی کی تائید کی۔
یہ مسلم لیگ کی فکری کمزوری تھی کہ پاکستان بننے کے بعد انہیں جماعت اسلامی کی مدد کی ضرورت پیش آئی۔ اس کا فکری دامن بالکل خالی تھا۔ حکومت نے مولانا مودودی سے درخواست کی کہ وہ ریڈیو پاکستان سے عوام کو بتائیں کہ اسلام کا سیاسی‘ معاشی یا سماجی نظام کیا ہے۔ یہی نہیں‘ قراردادِ پاکستان کے لیے بھی انہیں جماعت اسلامی کی تائید حاصل کرنا پڑی۔ جماعت اسلامی نے تائید تو کی مگر اس بات پر مسلم لیگ کی حکومت پر تنقید بھی کی کہ وہ اس قرارداد کے مطابق ریاست کی دستوری سمت طے نہیں کر سکی۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ قائداعظم اسلام کے اصولوں کے مطابق ایک ریاست کی تشکیل چاہتے تھے مگر یہ وہ تصورِ ریاست نہیں تھا جسے 'اسلامی ریاست‘ کے عنوان سے پیش کیا جا رہا تھا۔ یہ ایک مسلم قومی ریاست تھی۔اسی طرح انہوں نے سیکولر ریاست کے تصور کو بھی قبول نہیں کیا۔ رہا یہ سوال کہ قائداعظم کی 11اگست 1947ء کی تقریر کیا اسلام کے اصولوں سے متصادم ہے؟ اس سوال کا جواب ان شاء اللہ مضمون کے اگلے حصے میں تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔