کیا لکھا جائے اور کیوں لکھا جائے؟
قلم اٹھائیں تو یہ سوال نوکِ قلم سے لپٹ جاتا ہے۔ اس آزمائش سے ایک بار نہیں‘ بار بار گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی قلم رواں نہیں ہوتا اور کبھی ذہن کے دریچے بند ہو جاتے ہیں۔ آخر کوئی کب تک ایک سعیِ لاحاصل کرتا رہا۔ کس کس بات کا ماتم کریں؟ دانش کا‘ جسے ہم نے دیس نکالا دے دیا۔ اعلیٰ اخلاق کا‘ جو اللہ کے آخری رسولﷺ کی سیرت میں مجسم ہوا اور ہم نے آپﷺ کا امتی ہوتے ہوئے بھی اسے کھو دیا۔ احترامِ انسانیت کا‘ جسے ہم نے بھلا دیا۔ حفظِ مراتب کا‘ جو ہماری تہذیب کا امتیاز تھا مگر ہم نے طاقِ نسیاں کی نذر کر دیا۔
ہم ایک ایسی ہستی کی امت ہیں جس کی چادرِ رحمت نے عالمین کو اپنے سائے میں لے رکھا ہے۔ کوئی حادثہ سا حادثہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے رحمت کیا بنتے‘ ایک دوسرے سے جان کے خوف میں مبتلا ہو گئے ہیں اور وہ بھی اس پاکیزہ ذات کے نام پر۔ آج ہم سب ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں۔ ہم نے سماج پر خوف کی چادر تان دی ہے اور دعویٰ یہ ہے کہ رسولِ رحمتﷺ کے امتی ہیں۔ اس فضا میں کوئی لکھے تو کیا لکھے؟
اہلِ سیاست ہوں یا اہلِ ریاست‘ اپنے اپنے شخصی‘ گروہی اور ادارہ جاتی مفاد کے اس طرح اسیر ہو چکے ہیں کہ اجتماعی مفاد ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔ سیاست دور اندیشی اور بصیرت سے عبارت ہوتی ہے۔ ہماری سیاست کیا ہے؟ ریاستی ادارے مفاد نام کی کسی شے سے آشنا نہیں ہوتے‘ ہر مذہبی اور سیاسی تقسیم سے بالاتر ہوتے ہیں‘ ان کے سامنے صرف اجتماعی مفاد ہوتا ہے اور ایک ضابطہ کار جسے آئین کہتے ہیں۔ آج دور اندیشی کہیں نہیں ہے۔ آئین محض ایک کتاب ہے۔ اگر کچھ ہے تو شعلے اُگلتی زبانیں ہیں۔ سطحیت ہے۔ دھرنے ہیں۔ بے حسی ہے اور ابن الوقتی ہے۔ اب کوئی لکھے تو کیا لکھے؟
پارلیمان‘ ایوان ہائے عدل‘ سیاسی اجتماعات‘ ہر جگہ معلوم ہوتا ہے کہ ہیجان ہے اور حساب برابر کرنے کی نفسیات کا غلبہ ہے۔ چیف جسٹس صاحب کو ایک ایسے زاویے سے گرفت میں لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کی جان بھی خطرات میں گھر گئی ہے۔ وہ ایک ایسے جرم میں قصوروار ٹھیرائے جا رہے ہیں جو شاید ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہو گا۔ سوئے ظن کی اس فضا میں حسنِ ظن کی اسلامی قدر کی یاددہانی بھی کارِ عبث ہے۔ مذہب ہو یا سیاست‘ عدالتی فیصلوں کی حرمت کو سرِعام پامال کیا جا رہا ہے۔ کسی نصیحت کے لیے کوئی جگہ ہے نہ کسی تذکیر کے لیے۔ اب کوئی لکھے تو کیا لکھے۔
میرا احساس ہے کہ تاریخ کے اس عمل کو روکنا اب مشکل ہو گا۔ اس نے طے شدہ راستوں پر آگے بڑھنا ہے۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے فرمایا کہ تم پہلی امتوں کی ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز میں اتباع کرو گے۔ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوں گے تو تم بھی یہی کرو گے۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہﷺ‘ کیا اس سے یہود ونصاریٰ مراد ہیں؟ فرمایا: اور کون؟ (بخاری)۔ یہود نے جو کچھ کیا‘ کوئی جاننا چاہے تو عہدنامہ جدید پڑھ لے۔ انہوں نے اللہ کے رسول سیدنا مسیح اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ جو سلوک کیا‘ اس کے احوال انجیل میں بیان ہوئے ہیں اور قرآنِ مجید میں بھی۔ رسول اللہﷺ نے تو ہمیں خبردار کیا تھا مگر افسوس کہ ہمارا ہر قدم اس پیش گوئی کا مصداق بن گیا۔
پھر پندرہویں اور سولہویں صدی کے اہلِ کلیسا نے جو کچھ مسیحیت کے ساتھ کیا‘ ایک نظر اس پر بھی ڈال لینی چاہیے۔ ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے کہ اس تاریخ کو دہرا رہے ہیں۔ اسی لیے مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ ہم تاریخ کی گرفت میں ہیں۔ ایک رویے کے جو نتائج کل نکلے تھے‘ یہ نہیں ہو سکتا کہ آج ا س سے مختلف ہوں۔ تاریخ کے اس عمل کو تبدیل کیا جا سکتا ہے مگر اس کی کچھ شرائط ہیں۔ ہم ان شرائط کو کوئی اہمیت دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ کوئی بتانا بھی چاہے تو اس کی کوئی شنوائی نہیں۔
میرا یہ احساس گہرا ہوتا جا رہاہے کہ ڈھلوان کا یہ سفر اب کسی منطقی نتیجے تک پہنچے گا۔ ہمارے ساتھ یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ ناصح قوم کا سب سے معتوب آدمی ہے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ میں یہ مناظر ملتے ہیں مگر ہمارے ہاں شاید اتنے برے حالات کبھی نہیں تھے۔ لوگ ناصحین کو مطعون کرتے تھے۔ فتوے بھی لگتے تھے مگر اس کے باوجود نقطہ ہائے نظر وجود میں آتے رہے۔ مختلف بات کہنے والے اپنی طبعی عمر پوری کرتے تھے۔ ان کی کتب بھی شائع ہو جا تی تھیں۔ لوگ ان پر تنقید لکھتے اور وہ بھی چھپ جاتی تھی۔ ریاست کا جبر تو تھا لیکن سماج روادار تھا۔ آج صورتِ حال بدل چکی۔ ناصح کے لیے اس سرزمین پر کوئی جگہ نہیں۔ اگر آپ کی کوئی عصبیت نہیں تو آپ غیر محفوظ ہیں۔ یہ امر اب مشتبہ ہے کہ ریاست شہریوں کو جان ومال کے تحفظ کی ضمانت دے۔
بین الاقوامی حالت میں آنے والی تبدیلیاں بھی اب اس پر اثر ڈالیں گی۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے اپنے اثرات ہوں گے جو نہ صرف ہمارے خارجہ امور پر اثر انداز ہو ں گے بلکہ داخلی سطح پر بھی موجود اضطراب کو انگیخت دیں گے۔ ملک میں جاری احتجاج میں ایک نیا پہلو شامل ہو جائے گا‘ جس کی سرحدیں فرقہ واریت سے جڑی ہوئی ہیں۔ اہلِ فلسطین کی مظلومیت اور اسرائیل کی وحشت نے حالات کو خراب کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے‘ اس کا منفی ردِعمل ہو گا۔ مولانا فضل الرحمن صاحب نے پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف جمعہ کو احتجاج کا جو اعلان کیا ہے‘ اب اس میں اس واقعے کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔
کیا ریاست اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمتِ عملی رکھتی ہے؟ اس سے پہلے یہ سوال ہے کہ کیا اسے اس ہمہ جہتی چیلنج کا کوئی ادراک ہے؟ میرے پاس ان سوالات کے جواب نہیں ہیں۔ جب ایک معاشرہ فکری پراگندگی میں مبتلا ہو تو اس میں اٹھنے والی اضطراب کی لہر بے سمت ہوتی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ آنے والے لمحے میں اس کا رخ کس جانب ہو گا۔ ریاست اور معاشرے کی ترجیحات میں اس وقت کوئی موافقت نہیں۔ دونوں کے درمیان ابلاغ کا شدید بحران ہے‘ جو اعتماد کے بحران میں بدل گیا ہے۔ حکومت کا اچھا قدم بھی عوام کے لیے شکوک میں لپٹا ہوا ہے۔
کہا جا تا ہے کہ امید کا دامن کسی حال میں نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مجھے اس سے اتفاق ہے۔ اس کے ساتھ لیکن یہ بھی اہم ہے کہ حالات کی صحیح تصویر سامنے رہے۔ مریض اگر مرض سے بے خبر رہے گا تو علاج ممکن نہیں ہو گا۔ علامہ اقبال کا کہنا ہے:
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
امید کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ حالات سے آنکھیں چرائی جائیں۔ اگر ہم نے اصلاح کرنی ہے تو ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ تاریخ کا عمل کس طرح آگے بڑھتا ہے۔ کوئی قوم تاریخ کی محبوب اور کوئی مغضوب نہیں ہوتی۔ محبت یا غضب کا مستحق ہونا‘ اس کے اپنے طرزِ عمل پر منحصر ہے۔ مذہب اور سیاست کے باب میں اگر ہمارے رویے یہی رہے تو پھر قوم کو کوئی خوش خبری نہیں سنائی جا سکتی۔ اسے صرف متنبہ اور خبردار کیا جا سکتا ہے کہ اس طرزِ عمل کا انجام کیا ہونا ہے۔ مجھ جیسا ایک عام لکھنے والا سماج کی یہی خدمت سر انجام دے سکتا ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔