بارشیں ہر برسات میں تباہی کا پیغام لے کر آتی ہیں اور ہمارا انتظامی ڈھانچہ ان کے سامنے بے بس ہے۔ اس کے لیے کوئی کمیشن بٹھانے کی ضرورت نہیں کہ یہ نظام معمول کے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ بات بارشوں تک محدود نہیں‘ ہر روز ایک نیا مشاہدہ اس حقیقت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے۔
جون کے دنوں میں‘ میرے شہر کے کئی علاقوں میں نئی سڑکیں تعمیر ہوئیں۔ یہ جاننے کے لیے علمِ غیب کی ضرورت نہیں تھی کہ ایک ماہ بعد مون سون کا آغاز ہو گا اور یہ سڑکیں تالاب بن جائیں گی۔ کروڑوں روپے اس پانی کے ساتھ بہہ جائیں گے جو اِن کی تعمیر پر خرچ ہو رہے ہیں۔ جو بات ایک عامی کی سمجھ میں آ رہی ہے‘ کیا ان حکام کی سمجھ سے باہر ہے جنہوں نے اس موسم میں سڑکوں کی تعمیر کا فیصلہ کیا ہے؟
معلوم ہوا کہ ان کی ایک مجبوری ہے۔ جون میں اگر ان سڑکوں کے لیے مختص بجٹ استعمال نہ ہوا تو یہ روپے قومی خزانے کو واپس کرنا پڑیں گے۔ میں نے پوچھا: اس سے کیا ہو گا؟ جواب ملا: یہ نااہلی میں شمار ہوتا ہے کہ کوئی محکمہ بجٹ میں مختص رقم خرچ نہ کر سکے۔ اس سے خزانے والے یہ نتیجہ برآمد کرتے ہیں کہ ان پیسوں کی آپ کو ضرورت نہیں۔ اس لیے آئندہ سال کے بجٹ میں اتنی رقم کم ہو جاتی ہے۔ مزید سوال کیا: آپ نے یہ سڑکیں پہلے اور بروقت کیوں نہیں بنائیں؟ اس کا جواب تھا: ہمیں خزانے سے یہ رقم جاری ہی تاخیر کے ساتھ ہوئی۔
یہ سن کر اس نظام کی افادیت کے بارے میں مزید سوالات پیدا ہوئے۔ پہلی بات یہ کہ اگر کوئی محکمہ مختص رقم سے کم خرچ کرتا یا بچت کرتا ہے تو یہ نااہلی کیسے ہو گئی؟ اس کی تو داد ملنی چاہیے کہ اس نے فضول خرچی نہیں کی۔ میں نے بارہا دیکھا ہے کہ صرف اس قانون کی وجہ سے‘ مالی سال کے آخری ماہ میں روپیہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے اور جانتے بوجھتے ضائع کیا جاتا ہے۔ مجھے جون میں ایک ادارے کے سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ پنچ ستارہ ہوٹل کے اس سیمینار میں ملک بھر سے علما کو جمع کیا گیا تھا۔ میں نے منتظمین میں شامل ایک صاحب سے اس کی افادیت کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ بجٹ میں پیسے موجود تھے۔ ہم نے سوچا ویسے بھی واپس کرنا پڑیں گے‘ اس لیے خرچ کر دیتے ہیں۔
میں یہ بھی نہیں سمجھ سکا کہ خزانے کا محکمہ تاخیر سے کیوں رقم جاری کرتا ہے؟ وسائل کی کمی ایک وجہ ہو سکتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب تاخیر سے رقم فراہم کی جاتی ہے تو اس کے فوری خرچ پر اصرار کیوں کیا جاتا ہے؟ یہ ایک محکمے کی نااہلی کیسے شمار ہو گی؟ اگر مئی کے آخر میں رقم فراہم کی جاتی ہے تو محض ایک ماہ میں پچاس کلومیٹر کی معیاری سڑک کیسے بن سکتی ہے؟ جو اتنی سرعت سے بنے گی اس کا معیار کیسا ہو گا؟
ایک اور مشاہدے کی روداد سنیے! شدید بارش کے اس موسم میں اسلام آباد راول چوک سے متصل مری روڈ اور پارک روڈ پر سڑک کی تعمیر جاری ہے۔ میں جب یہ کالم لکھ رہا ہوں‘ اسلام آباد میں شدید بارش ہو رہی ہے۔ اس سڑک پر سارے موسمِ برسات میں تعمیری کام جاری رہا اور آج بھی جاری ہے۔ کیا اس بارش میں اس نوعیت کا کوئی تعمیراتی کام ممکن ہے؟ کیا یہ وسائل کا درست استعمال ہے؟ اس بارش میں جو سڑک بنے گی‘اس کی عمر کتنی ہو گی؟ میں حیرت میں ڈوب جاتا ہوں کہ اس نظام میں کیا ایسے پیش پا افتادہ حقائق کو جاننے کی صلاحیت بھی موجود نہیں؟
ایک مسئلہ مختلف محکموں میں ربط کا ہے۔ میں بچپن سے یہ دیکھ رہا ہوں کہ ایک سڑک بنتی ہے اور چند دن بعد کچھ لوگ کدالیں لے کر اسے کھودنے آ جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ گیس یا پانی کے پائپ گزارے جا رہے ہیں۔ عقلِ عام یہاں بھی سوال اٹھاتی ہے کہ کیا یہ محکمے مختلف علاقوں کے ترقیاتی کاموں کو باہم مربوط نہیں بنا سکتے؟ کیا گیس پائپ لائن گزارنے کے بعد نئی سڑک نہیں بنائی جا سکتی؟ کہتے ہیں سڑک کھودنے کے بعد‘ اس کی دوبارہ تعمیر اُس محکمے کا کام ہے جو کھودتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ وہ اس پر جو وسائل خرچ کرے گا‘ کیا وہ قومی خزانے سے نہیں جائیں گے؟ دوسرا یہ کہ وہ محکمہ کبھی دوبارہ سڑک تعمیر نہیں کرتا۔ بس مٹی ڈال دی جاتی ہے اور یہ کھدائی سڑک کی بربادی کا نقطہ آغاز بن جاتی ہے۔
بارشیں اچانک نہیں آتیں۔ اب تو پیشگوئی کی جا سکتی ہے کہ کب اورکتنی بارش ہو گی؟ ان کے لیے تحصیل کی سطح پر ایک اے سی انتظامات کر سکتا ہے۔ میں نے پہلے بھی اس طے شدہ پالیسی کے بارے میں لکھا ہے کہ برسات کے آغاز سے پہلے نالے صاف ہوں گے۔ کیا کسی نے جائزہ لیا ہے اس سال اس کا کتنا اہتمام کیا گیا ہے؟
مشاہدات کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان کا حاصل یہ ہے کہ ہمارا انتظامی ڈھانچہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ یہاں نظام کی اصلاح کے لیے کمیٹیاں بنتی ہیں جو اصلاحات تجویز کرتی ہیں۔ میرا احساس ہے کہ اگر موجود نظام کو بر قرار رکھتے ہوئے‘ اس کی کارکردگی کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اصلاحات بھی کی جا سکتی ہیں مگر ہمارا مسئلہ نظام نہیں‘ نااہلیت ہے۔
کچھ لوگ سیاسی مداخلت کو اس نظام کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں۔ یہ بات درست ہو سکتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ تحصیل کی سطح پر تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل ایک فورم ہو جو انتظامی امور پر نظر رکھے اور وزیراعلیٰ کو رپورٹ کرے۔ ترقی یافتہ دنیا میں شہر کی سطح پر ایسے عوامی فورمز بنائے جاتے ہیں جو مسائل کے حل کے لیے انتظامیہ کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ اگر ان میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل ہوں تو جانبداری کا الزام نہیں لگے گا۔ اگر ایک شہر میں جلسہ ہونا ہے تو اس فورم پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ کیسے شہر کی زندگی کو متاثر کیے بغیر جلسہ ممکن ہے۔ اس کے لیے ایک پالیسی بن جائے اور سب سیاسی ومذہبی جماعتوں پر اس کا اطلاق ہو۔
اس کا ایک اور حل بلدیاتی اداروں کا قیام اور ان کو مضبوط بنانا ہے۔ جب تک اختیارات کا ارتکاز ختم نہیں ہو گا‘ عوامی مسائل برقرار رہیں گے۔ بدقسمتی سے کوئی سیاسی جماعت اس پر آمادہ نہیں ہوتی۔ مزید بدقسمتی یہ ہے کہ یہ معاملات عدالتوں کی ترجیحات میں بھی شامل نہیں۔ اگر عدالتیں بھی ان مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر سنیں تو بھی انتظامی ڈھانچے میں بہتری لا ئی جا سکتی ہے۔
انتظامی نااہلی کے سبب ہمارے وسائل جس طرح ضائع ہو رہے ہیں‘ اس کی داستان المناک ہے۔ ہم انتظامی ڈھانچے کو فعال بنا کر نہ صرف کارکردگی کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ وسائل کے ضیاع کو بھی روک سکتے ہیں۔ اگر ایک سڑک کی عمر زیادہ ہو گی تو اس کی بار بار تعمیر کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جب ہم یہ نہیں کرتے تو اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ ایسا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے تاکہ ٹھیکوں سے ناجائز پیسے کمائے جا سکیں۔
انتظامی ڈھانچے میں اصلاح کے لیے آئی ایم ایف کی ضرورت ہے نہ سیاسی مفاہمت کی۔ یہ کام حکومت اپنے طور پر کر سکتی ہے۔ جب عوام نظام سے مطمئن ہوں گے تو اس سے سیاسی استحکام بھی آئے گا۔