''موت سے واپسی‘‘ کتاب نہیں‘ ایک طلسم کدہ ہے۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس دروازے سے داخل ہوا جائے۔ خوف یہ ہے کہ اس طلسم سے کیسے نکل پاؤں گا۔
یہ ایک صحافی کاروزنامچہ ہے جسے آمریت کے فساں نے مزاحمت کی تیز دھار تلوار بنا دیا۔ یہ ملکی تاریخ کے اُن اولیں ابواب میں سے ایک المناک باب ہے‘ جو اقتدار کے ایوانوں میں رقم ہوئے۔ یہ اس عہد کی داستان ہے جب ادب اور صحافت ہم آغوش تھے۔ یہ شورش کاشمیری کی زندگی کے چند اوراق ہیں جن پر کئی کہانیاں لکھی ہوئی ہیں۔ ایک ایک کہانی ایسی عجیب کہ اس کے لیے طلسم ہوشربا کا عنوان ہی موزوں ہو سکتا ہے۔
شورش اسم بامسمّیٰ تھے۔ ہر وقت شورش برپا کیے رہتے۔ 'اک ہنگامہ ضروری ہے سرِ جادہ ہستی‘ کی عملی تصویر۔ اپنی ذات میں انجمن۔ صحافی‘ شاعر‘ ادیب‘ مذہبی راہنما‘ سیاسی کارکن اور معلوم نہیں کیا کچھ۔ ایسی توانا اور ہمہ رنگ شخصیات‘ ہمارے ہاں پائی جاتی تھیں مگر اب نہیں۔ شورش شاید اس 'نسل‘ کے آخری آدمی تھے۔ 'قیس سا پھر کوئی اٹھا نہ بنی عامر میں‘۔
آج لیکن ان کی شخصیت کا تعارف پیشِ نظر نہیں۔ اس وقت صرف ایک کتاب کا تذکرہ مقصود ہے جو ان کے صاحبزادے برادرم مسعود شورش اور جناب عبدالستارعاصم کی طرف سے بطور ارمغانِ محبت موصول ہوئی۔ ناشر اور مشتہر‘ دونوں شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے تاریخ کے قبرستان میں مدفن اس کتاب کی ایک بار پھر رونمائی کرائی اور نئی صحافت کی قتیل نسل کو یہ معلوم ہوا کہ ہماری صحافت کبھی ایسی ہمہ رنگ بھی تھی۔
شورش کاشمیری نے جنرل ایوب خان کے عہدِ آمریت میں ایک طویل عرصہ جیل میں گزارا۔ ختمِ نبوت شورش کے لیے ایک جذباتی معاملہ تھا۔ یہاں کسی دلیل‘ رشتہ‘ مفاد‘ طمع اور خوف کا گزر نہیں تھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ تحریکِ احمدیت کوئی مذہبی نقطہ نظر نہیں‘ ایک سیاسی تحریک ہے۔ اس موضوع پر انہوں نے لکھا بھی بہت اور کہا بھی بہت۔ وہ تحریر ہی نہیں‘ تقریر کے بھی بادشاہ تھے۔ اس بادشاہی کو انہوں نے ختمِ نبوت کی دہلیز پر وار دیا۔ مقدمہ قائم ہوا اور جیل جا پہنچے۔ جیل میں ان کے ساتھ جو بیتی‘ اسے انہوں نے اس طرح قلمبند کر دیا کہ ایک طرف ان کی اپنی شخصیت کا خاکہ مرتب ہو گیا۔ ہم آنکھیں بند کر کے اگر ذہن کے پردے پر ان کی صورت گری کریں تو ہو بہو ان کی شبیہ ابھر آئے۔ دوسری طرف ایوب خان عہد کی قلمی تصویر بھی ہمارے سامنے آگئی۔ نو ورادانِ سیاست جان سکتے ہیں کہ عہدِ ستم کیسا ہوتا ہے۔ وہ اللہ کا شکر ادا کریں گے کہ وہ عہدِ ایوب میں نہیں تھے۔
میں ایک پہلو کو بطور مثال سامنے رکھ رہا ہوں۔ صحافت پر پابندی تھی‘ شورش مگر ان پابندیوں کو کم ہی خاطر میں لاتے تھے‘ اس لیے اکثر جیل میں رہتے۔ ان کا قلم ڈاکٹرکا نشتر بن جاتا جو بیمار جسدِ اقتدار پر مسلسل کچوکے لگاتا۔ آخر 'چٹان‘ کو پابندی سے بچانا بھی تھا کہ یہ عوام اور اسلام کا ترجمان تھا۔ اس لیے تلمیح و کنائے میں بھی بات کرتے تھے۔ کیسے لوگ ایوب خان کا گھیراؤ کیے ہوئے تھے‘ ایک فرضی سپاس نامے کی صورت میں‘ شورش نے ان کی تصویر کھینچی ہے۔ اس سپاس نامے کا ایک اقتباس دیکھیے جو حاکمِ وقت کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
''ہم نے جو مخلوق آپ کی خاطر یہاں جمع کی ہے‘ وہ نوادراتِ روزگار میں سے ہے۔ یہ شاہجہانی عہد کی اشرفیاں ہیں۔ یہ اکبری عہد کے نورتن ہیں۔ یہ اموی خلفا کے درہم و دینار ہیں۔ یہ نورجہاں کے حمام کا عطر ہیں۔ یہ تاج محل کے تعویذ کا پتھر ہیں۔ یہ فتح پور سیکری کے کھنڈروں کی آب ہیں۔ یہ لال قلعہ کی موتی مسجد کے حوض کا پانی ہیں۔ یہ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بجنے والا لال کٹورہ ہیں۔ یہ بہادر شاہ ظفر کے گھمی کبابی کا پراٹھا ہیں۔ یہ واجد علی شاہ کا طنبورہ ہیں۔ یہ زاہدہ پروین کے گلے کی گراری ہیں۔ یہ نورجہان کی آواز کا رس ہیں۔ یہ وارن ہیسٹنگز کا نالۂ جان کنی ہیں۔ یہ تانا رے رے کی آواز ہیں۔ یہ پرانے اور سیانے کَن رسیا ہیں۔ یہ بچھیا کے باوا ہیں۔ یہ بندے علی خان کے سانڈ ہیں۔ یہ ظلم کی پکار ہیں۔ یہ بھیڑ چال کی یادگار ہیں۔ یہ خلیل خان کی فاختہ ہیں۔ یہ گھڑ منہا ہیں۔ یہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر ہیں۔ یہ آٹھوں گانٹھ کمیت ہیں۔ یہ اقبال کے کرگس ہیں‘ یہ زاغ و خمہ ہیں۔ یہ ٹیڑھی کھیر ہیں۔ یہ بور کے لڈو ہیں۔ یہ امچور کی چٹنی ہیں۔ یہ محنت کی میت ہیں۔ یہ اچھوت کی ارتھی ہیں۔ یہ درزی کی سوئی ہیں۔ یہ حجام کا حقہ ہیں۔ یہ استاد کا ساز ہیں۔ یہ ستار کے بول ہیں۔ یہ جماعت نہیں ریوڑ ہیں۔ یہ حلقہ نہیں گلا ہیں۔ یہ مجلس نہیں چونا ہیں۔ یہ محفل نہیں جھلڑ ہیں۔ یہ طاقت نہیں بھیڑ ہیں۔ یہ ڈار نہیں ٹکڑی ہیں۔ یہ دستہ نہیں ٹولی ہیں۔ یہ کیلوں کی گبل اور پانوں کی ڈھولی ہیں:
بگیر ایں ہمہ سرمایہ بہار از من
'کہ گل بدستِ تواز شاخِ تازہ ترماند‘
گرامی قدر! آپ انہیں قرآن سناتے ہیں‘ انہیں دیوان سنائیے۔ آپ انہیں اسلام سکھاتے ہیں‘ انہیں دشنام پڑھائیے۔ غالب ان کے فہم کی چیز نہیں‘ انہیں امراؤ جان ادا پڑھائیے۔ اقبال ان کے بس کا روگ نہیں۔ وہ پاکستان میں رہ گیا اور دانشوروں کی ایک کھیپ نے اس کی تکہ بوٹی کر لی۔ آپ اقبال کو طاقِ نسیاں پر رکھیے اور داغ کی طرف لے جائیے‘ وہ غزل گوائیے جو منی جان گایا کرتی تھیں‘‘۔
یہ شورش کی صحافت کا ایک نمونہ ہے۔ ذرا زبان پر دسترس اور بیان پر قدرت دیکھیے۔ عصری صحافت اس بانکپن سے محروم ہے۔ اس تحریر سے معانی کشید کرنے اور حَظ اٹھانے کے لیے زبان کا فہم اور تاریخ کا علم ضروری ہے۔ جو 'گھمی کبابی‘ کو نہیں جانتا‘ وہ جملے میں اس کے ذکرکا سبب نہیں سمجھ سکتا۔ اس کے لیے لازم ہے کہ اس نے اشرف صبوحی کا لکھا ہوا خاکہ پڑھا ہو۔ پھر جس نے اقبال کو دقتِ نظر سے نہیں پڑھا وہ طالب آملی کے مصرع پر ان کی تضمین کا لطف نہیں اٹھا سکتا۔ اس تحریرمیں میرے لیے بھی کئی الفاظ اجنبی تھے جن کے فہم کے لیے مجھے لغت سے رجوع کرنا پڑا۔
صحافت کا کام محض خبر دینا یا عوامی جذبات کی ترجمانی نہیں ہے‘ اس کا اصل کام عوامی ذوق کی تعمیر ہے۔ اگر صحافی کا قلم صحت اور اعلیٰ مضامین سے خالی ہو گا تو قاری کا ذوق بھی پست ہو جائے گا۔ شورش مولانا ابوالکلام آزاد کے خوشہ چینوں میں سے تھے۔ ان کا دیا‘ آزاد کے چراغ سے لو لے کر روشن ہوا ہے۔ اس کی روشنی دیکھ کے جان لیجیے کہ اُس چراغ کا نور کیسا ہو گا۔ شورش چونکہ 'شورش‘ تھے اس لیے ہجو لکھنے میں انہوں نے اپنا راستہ نکالا جو مولانا آزاد کی روایت کا حصہ نہیں تھا۔ اس میں وہ مولانا ظفر علی خان کا نشِک ثانی تھے۔ مولانا نے ان کے بارے میں اسی لیے کہا تھا:
شورش سے مرا رشتہ ہے اور وہ ازلی ہے
میں وقت کا رستم ہوں تو وہ ثانیٔ سہراب
بات ابھی باقی ہے مگر کالم تمام ہونے کو ہے۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ واپسی کا راستہ تلاش کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ مجھے بتانا تھا کہ شورش نے جناب الطاف گوہر کے بارے میں کس رائے کا اظہار کیا۔ ان کے دور میں جیلوں کے حالات کیا تھے؟ سیاست اور مذہب کس طرح باہم اُلجھے ہوئے تھے؟ کیسے مشکل وقت میں انہوں نے بھٹو صاحب کا ساتھ دیا؟ کیسے دونوں کے تعلقات میں تلخی در آئی؟ میں ان پہلوئوں پر بات نہیں کر سکا۔ محض شورش کی قدرتِ کلام پر قلم اٹھایا تھا کہ کالم کا اختتام ہو گیا۔ ان سوالات کیلئے آپ کو یہ کتاب پڑھنا پڑے گی۔ پھر آپ یقینا ناشر کو دعا دیں گے جنہوں نے شورش کے تمام تصنیفی کام کو دوبارہ شائع کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ ابھی تو انہوں نے اس خزانے کامنہ کھولا ہے۔ دیکھیے کیسے کیسے ہیرے جواہرات نکلتے ہیں۔