اس بار ربیع الاوّل کے موقع پر اسلام آباد ایک نیا منظر دیکھے گا‘ ان شاء اللہ۔ 20‘21 اور 22 ستمبر کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار 'سیرت فیسٹیول‘منعقد کیاجا رہا ہے۔ اس کا اہتمام 'قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی‘ نے کیا ہے۔
یہ فیسٹیول ہمہ رنگ پر وگراموں کا مجموعہ ہے۔ 'عالمی امن کی تلاش: تعلیماتِ پیغمبرﷺ کی روشنی میں‘ اس دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا عنوان ہے جو اس موقع پر منعقد ہو رہی ہے۔ دنیا اور پاکستان بھر سے آنے والے سکالرز اور علما اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں کریں گے۔ اس کا مقصد سیرت النبیﷺ سے علمی استفادہ ہے۔ 'یوتھ سیرت کنونشن‘ کے انعقاد سے نوجوانوں تک بطورِ خاص سیرت کا پیغام پہنچایا جائے گا۔ سیرت کتاب میلے میں پاکستان بھر سے پبلشرز آئیں گے اور سیرت کی کتابوں پر عام لوگوں کو 50 فیصد تک رعایت ملے گی۔
جمالیاتی پہلو کا اظہار خطاطی کی نمائش میں ہو گا جس میں رسالت مآبﷺ کے اسمائے گرامی کی خطاطی کے خوبصورت نمونے آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے رکھے جائیں گے۔ جمالیات کے اظہار کا ایک اسلوب شاعری بھی ہے۔ نعتیہ مشاعرے میں شعرا آپﷺ سے اپنی محبت کا اظہار کریں گے۔ سیرتِ پاک پر دستاویزی فلمیں بھی دکھائی جائیں گی۔ قرآن مجید کی آیات اور آپﷺ کے ارشادات پر مبنی حسنِ اخلاق کے پیغامات کی تشہیر ہو گی۔
وفاقی سیکرٹری تعلیم محی الدین وانی صاحب کی ذاتی دلچسپی اور توجہ کے باعث وزارتِ تعلیم سے متعلق تمام ادارے اس کارِ خیر میں شریک ہو گئے ہیں۔ ہر ادارہ دینی گرم جوشی کے ساتھ اس سرگرمی کا حصہ ہے۔ نیشنل سکلز یونیورسٹی اسلام آباد کے کیمپس میں اہم تقریبات کا انعقاد ہو گا۔ نیشنل بُک فاؤنڈیشن نے اس موقع پر پورے ملک میں اپنی کتابوں پر 50 فیصد رعایت کا اعلان کیا ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور اس کے شعبہ علومِ اسلامی کا انتظامی اور علمی تعاون اس بین الاقوامی کانفرنس کے لیے میسر ہے۔ اس کے ساتھ فیڈرل بورڈ آف ایجوکیشن‘ آئی بی سی سی‘ پیرا‘ فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن بھی دامے درمے سخنے اس میں شامل ہیں۔ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی‘ پیغامِ پاکستان اور جامعہ محمدی شریف چنیوٹ نے بھی دستِ تعاون دراز کر رکھا ہے۔
'قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی‘ ایک ایسا ادارہ ہے جس کا مقصد رسالت مآب سیدنا محمدﷺ کی سیرتِ مطاہرہ پر تحقیق ہے تاکہ اس کی روشنی میں تعمیرِ سیرت کے ذریعے سماج کی اخلاقی تعمیر کی جائے۔ منزل‘ فرد اور سیاسی و سماجی اداروں کی اصلاح ہے۔ تعمیرِ سیرت کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام میں سیرت سازی کو بنیادی اہمیت دیں۔ وفاقی سیکرٹری تعلیم نے اس کام کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا اور قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اس کی حکمتِ عملی بنائے۔ اتھارٹی نے کریکٹر بلڈنگ فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر یہ حکمت عملی بنائی جو اس سال اگست میں نافذ کر دی گئی۔ اتھارٹی کی اب یہ کوشش ہے کہ تعمیرِ سیرت کا یہ پیغام صوبے بھی اپنا لیں۔
اتھارٹی نے نوجوانوں میں سیرتِ پاک سے عملی وابستگی کے لیے تعلیمی اداروں میں 'رحمۃ للعالمین یوتھ کلبز‘ کے قیام کا آغاز کر دیا ہے۔ ان کا مقصد نوجوانوں میں مطالعہ سیرت کا ذوق پیدا کرنا اور نوجوانوں کو رسالت مآبﷺ کی سیرت سے عملاً وابستہ کرنا ہے۔ ہم نے عام طور پر محبت و عقیدت سے یہ مراد لے رکھی ہے کہ نبیﷺ کی شخصیت ہماری پہنچ سے ماورا ہے اور ہمارا کام اس مینارۂ نور کو دور سے دیکھنا اور اس کی عظمت کا اعتراف کرنا ہے۔ آپﷺ کی عظمت بلاشبہ ایسی ہے کہ ہماری تمام صلاحیتیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں‘ بایں ہمہ اس بات کا سامنے رہنا بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو اس لیے مبعوث فرمایا کہ ان کا اتباع کیا جائے۔ یہ اتباع اسی وقت ممکن ہو گا جب ہم ان کی سیرت سے عملی تعلق قائم کریں گے۔ ہم اللہ کے آخری رسولﷺ کی امت ہیں۔ ہمارے لیے آپﷺ کو مثال بنایا گیا۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم آپﷺ کے اوصافِ حمیدہ کا علم حاصل کریں اور پھر ان کو اپنانے کی کوشش کریں۔ رحمۃ للعالمین یوتھ کلبز نوجوانوں میں اسی احساس کو بیدار کرنے کا ذریعہ ہیں۔
اتھارٹی نے 'رحمت سب کے لیے‘ کو بطور اصول اپنایا ہے۔ مذہبی اقلیتوں کو بھی یہ پیغام دیا گیا ہے کہ رسالت مآب سیدنا محمدﷺ کی چادرِ رحمت ان کے لیے بھی ہے۔ اگر کوئی سماج آپﷺ کے اسوہ کو اپناتا ہے تو اس میں سب افراد کے لیے رحمت کا پیغام ہے۔ ان کی مذہبی آزادی کا تحفظ ہے۔ نبیﷺ کے احکام کی روشنی میں قائم کسی معاشرے میں کسی کے ساتھ ناانصافی کا کوئی امکان نہیں۔ 11 اگست 1947ء کو جب قائداعظم نے پاکستان کے شہریوں کو مذہبی آزادی کا پیغام دیا تو اس کے لیے راہنمائی نبیﷺ کی تعلیمات ہی سے لی گئی تھی۔
قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی ایک حکومتی ادارہ ہے جس کا مخاطب ریاست کے ساتھ سماج بھی ہے۔ سماج کی اخلاقی بنیادیں اگر مستحکم نہ ہوں‘ کوئی سیاسی نظام نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں قوانین کے حوالے سے اسلام کا نفاذ ہو چکا۔ ریاست اور سماج مگر ان کے اثرات سے محروم ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اسلام کو جن نفوس پر نافذ ہونا ہے ان کی اخلاقی ساخت ابھی اسے قبول کر نے پر آمادہ نہیں۔ ابھی یہ بنیادی تصور ہی جاں گزیں نہیں ہو سکا کہ نبیﷺ کی بعثت کا بنیادی مقصد لوگوں کا تزکیہ کرنا تھا۔ اگر ہمارا اخلاقی وجود پاکیزہ نہیں ہے تو وہ اس خیر کو قبول کر نے کی صلاحیت سے محروم ہے جو نبیﷺ لے کر آئے ہیں۔
ربیع الاول میں ہونے والے روایتی پروگرام اس بنیادی تصور سے کوسوں دور ہیں۔ ان کے نتیجے میں کوئی ایسی تحریک نہیں اٹھتی جو فرد کو سیرتِ رسولﷺ سے وابستہ کرے۔ ایسی تحریک کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے مرحلے پر انبیاء کرام کے مقصدِ بعثت کا شعور پیدا کرے اور دوسرے مرحلے میں عوام کو سیرتِ رسولﷺ سے وابستگی کا عملی پروگرام دے۔ ایسے پیغام سے محرومی کے باعث ربیع الاول کے پروگرام رسمی تقریبات بن کے رہ گئے ہیں۔
'سیرت فیسٹیول‘ کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ نبیﷺ سے وابستگی کا مطلب آپﷺ کی سیرت کو اپنانا ہے۔ سماج کو تذکیر کرنی ہے کہ آپﷺ پر ایمان اور آپﷺ سے وابستگی کا بدیہی نتیجہ آپﷺ کی سیرت سے راہِ حیات کو منور کرنا ہے۔ اسلام کوئی عصبیت نہیں بلکہ اللہ کی ہدایت ہے۔ یہ ہدایت نبی کریمﷺ کی سیرت میں مشہود ہو گئی۔ اس ہدایت کی روشنی میں جو شخصیت بنتی ہے‘ وہ آئیڈیل صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں خود کو اس سے قریب تر کرنا ہے۔ اسی سے معاشرہ سنورے گا اور اسی سے امن آئے گا۔ سیرت کانفرنس کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا جائے گا کہ اگر ہمیں عالمی سطح پر امن چاہیے تو اس کے لیے ہمیں نبی کریمﷺ کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔
مجھے اس معاملے میں کبھی شبہ نہیں ہوا کہ فرقہ واریت کا واحد علاج اللہ کے آخری رسولﷺ کو مرکز و محور ماننا ہے۔ اسی طرح عالمی سطح پر پہلے مرحلے میں اگر ہم ابراہیمی روایت کے ماننے والوں کو اس پر جمع کر سکیں کہ اس روایت کا اگر کوئی حقیقی امین ہے تو وہ آپﷺ ہیں تو ہم عالمگیر امن کی طرف قابلِ ذکر پیشرفت کر سکتے ہیں۔ سیرت فیسٹیول اس سمت میں ایک بڑا قدم ہو گا اور مستقبل میں ان شاء اللہ سماجی بیداری کی ایک بڑی سماجی تحریک بنے گا۔ وہ تحریک جو اللہ کے آخری رسولﷺ کی سیرت کی روشنی میں آگے بڑھے گی۔