جمعیت علمائے اسلام اور تحریک انصاف کے مابین بڑھتی ہوئی قربتیں اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتی ہیں۔
اقتدار کی سیاست میں حق و باطل کی تقسیم نہیں ہوتی۔ جو اہلِ سیاست کو فرشتوں اور شیاطین میں تقسیم کرتے ہیں‘ ان کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ اس سیاست میں ان لوگوں کی امامت قبول کرنا پڑتی ہے جن کے لیے زمانے بھر کے برے القابات تراشے جاتے اور ہزاروں کے اجتماع میں جن کا ٹھٹھا اڑایا جاتا ہے۔ 'یہودی ایجنٹوں‘ کو گلے لگانا اور ان کے ساتھ ہم قدم ہونا پڑتا ہے۔ ان کی دعوت قبول کی جاتی ہے اور ان کو مدعو بھی کیا جاتا ہے۔ اقتدار کی سیاست کرنے والوں میں بس انیس بیس کا فرق ہوتا ہے۔
یہ داستان دو طبقات کی غلطی کو ایک بار پھر واضح کر رہی ہے۔ ایک طبقہ تو وہ ہے جو اپنے سیاسی راہنماؤں کو مرشد‘ امامِ انقلاب اور نامعلوم کیسے کیسے مبالغہ آمیز القابات سے نوازتا ہے۔ یہ سب گوشت پوست کے انسان ہیں جو اقتدار کی سیاست میں ایک دوسرے کے حریف بن سکتے ہیں اور حلیف بھی۔ اس جیسا سادہ لوح کوئی نہیں ہو سکتا جو ان میں سے کسی کو مرشد اور امام مانتا ہے۔ لوگوں کو اپنے سیاسی قائدین کا احترم کرنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ دوسری جماعتوں کے قائدین کو بھی اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ ترجیح کی دلیل ہو سکتی ہے لیکن سیاست کو مطلق نیک و بد میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔
اس سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ اگر کوئی سیاستدان کسی سے گفتگو کے دروازے بند کرتا ہے تو اس کی وجہ اصولی نہیں‘ مفاداتی ہوتی ہے۔ یہ بات عوام کے سمجھنے کی ہے جو سادگی کے باعث اپنے لیڈر کے لیے دلائل تراشتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی سیاستدان تین سیاستدانوں کو ایک جیسا مجرم قرار دیتا ہے اور پھر ان میں تفریق کرتے ہوئے ایک سے مذاکرات اور دوسروں سے بات نہ کر نے کا فیصلہ کرتا ہے تو ان دونوں اقدامات کے پیچھے مفاد اور سیاسی حکمتِ عملی ہی ہوتی ہے۔ جو آدمی اس سادہ سی بات کو سمجھ نہیں سکتا‘ وہ سیاسی اعتبار سے غبی ہوتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اہلِ سیاست کا کاروبار ان کی وجہ سے چلتا ہے۔
ایک دوسرا طبقہ بھی ہے جو غلطی پر ہے۔ جب سیاستدان اس طرح اپنے حلیف اور حریف بدلتے ہیں تو وہ ان پر بلا امتیاز فتویٰ لگاتا اور انہیں مجموعی طور پر مسترد کر دیتا ہے کہ 'سیاستدان تو ہوتے ہی ایسے ہیں‘۔ 'یہ سب ایک جیسے ہوتے ہیں‘۔ اس طرح کے تبصرے عا م سننے کو ملتے ہیں۔ یہ رویہ بھی سیاست سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ سیاست میں راستے تلاش کیے جاتے ہیں۔ سیاست دل کا نہیں‘ ذہن کا کھیل ہے۔ اس میں امکانات کو دیکھا جاتا ہے۔ حالات کو موافق بنایا جاتا ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کب حریف کمزور ہے اور اس پر سیاسی وار کرنا چاہیے۔ اسی طرح مفادات کے لیے انتظار کیا جاتا ہے یہاں تک کہ حالات سازگار ہو جائیں۔
سیاسی ذہن اور انقلابی ذہن ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ انقلابی ذہن تحریکیں اٹھاتے ہیں اور حالات سے سمجھوتا نہ کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ ایک دورتھا جب انسان رومانوی عہد میں جی رہا تھا۔ اس وقت اس طرح کے تصورات مقبول تھے۔ رومانویت پسند آج بھی اسی طرح سوچتے ہیں مگر ان کی تعداد اب کم ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ جدیدیت ہے جس نے عقل کی حکمرانی قائم کی۔ یہ دلیل کا دور (Age of Reason) تھا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ انسان اس سے بھی آگے نکل چکا۔ یہ بات جزواً درست ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ عقل کی نارسائی نے مسائل پیدا کیے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ انسان سوچنے سے دستبردار ہو گیا ہے یا دلیل کے لیے کوئی جگہ نہیں رہی۔
لیڈر سے جذباتی وابستگی بری بات نہیں۔ یہ فطری ہے۔ انسانی نفسیات یہی ہے کہ وابستگی تعلقِ خاطر پیدا کرتی ہے۔ یہ اگر حدود سے تجاوز کر جائے تو انسان شرک جیسی غلاظت میں لتھڑ جاتا ہے۔ انسانوں کو لوگوں نے اسی لیے دیوتا مانا کہ وہ دل کے تعلق کی حدود کو نہ جان سکے۔ سیاست اس بات کو سمجھنے کا نام ہے کہ زندگی کے معاملات کو محض جذبات کی بنیاد پر نہیں چلایا جا سکتا۔ انہیں کسی نہ کسی مرحلے پر عقل کی لگام دینا پڑتی ہے۔
ان دنوں امریکہ میں بھی صدارتی انتخاب کے لیے اہلِ سیاست عوام سے رجوع کر رہے ہیں۔ لوگ اپنے اپنے لیڈر کے لیے جذباتی دکھائی دیتے ہیں۔ امریکہ میں لیکن یہ موسمی بخار ہے۔ نومبر کے بعد لوگ سب کچھ بھول کر آگے بڑھ جائیں گے۔ پھر سیاست ان کے لیے اسی وقت موضوع بنے گی جب کوئی نیا ٹیکس لگے گا یا خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو گا۔ سیاست ان کے لیفٹ بال کے کھیل کی طرح ہے۔ ڈیڑھ دو گھنٹوں کے لیے لوگ شدید جذبات کی لپیٹ میں ہوتے ہیں۔ کھیل ختم ہوا تو اگلے میچ تک حالات معمول پر رہتے ہیں۔
اقتدار کی سیاست بھی ایک کھیل ہے۔ اگر آج کوئی کسی کا حریف ہے تو کل حلیف بھی ہو سکتا ہے۔ سب ایک جیسے لوگ ہیں۔ جو اچھی چال چلتا ہے‘ وہ جیت جاتا ہے۔ آج کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن بہتر چال چل گئے۔ کسی کا خیال ہے کہ عمران خان صاحب نے سب کو تگنی کا ناچ نچا دیا۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہو سکتی ہیں اگر ہم مان لیں کہ اقتدارکی سیاست بھی ایک کھیل ہے۔ چال سب چلتے ہیں مگر کامیاب کوئی ایک ہوتا ہے۔
یہ معاملہ اقتدار کی سیاست کا ہے۔ اگر کسی نے سیاست برائے اصلاح کرنی ہے تو پھر یہ 'اقتدار کی سیاست‘ (Power Politics) سے مختلف عمل ہے۔ اس کے لیے ہدف اور حکمتِ عملی دونوں مختلف ہوں گے۔ مثال کے طور پر ایک دور میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے یہ سیاست کی۔ پاکستان میں اشتراکی نظریات رکھنے والے بعض گروہ آج بھی یہ سیاست کرتے ہیں۔ دونوں پر اقتدار کی دیوی مہربان نہیں ہوئی۔ بعض اشتراکی آج بھی اپنے نظریات پر قائم اور یہ خیال کرتے ہیں کہ لوگوں کی سوچ کو تبدیل کرکے ہی انقلاب آ سکتا ہے۔ ان کی استقامت قابلِ تحسین ہے۔ انہوں نے کم ازکم یہ بات تو سیکھ لی کہ نظریاتی تبدیلی کے خواہاں کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہو سکتا۔ اس تبدیلی کے بغیر اگر اقتدار مل بھی جائے تو نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ سماج جدو جہد کا مرکز بنے۔ سماج اقدار کے بارے میں حساس ہو یہاں تک کہ کردار کے کمزور لوگ اس کا انتخاب نہ بن سکیں۔ یہ کام سرتا پا سماجی ہے۔ اس راستے میں اقتدار نہیں آتا۔ یہ ہو سکتا کہ کبھی سماج بدلے تو وہ ان لوگوں کو یاد کرے جنہوں نے اس تبدیلی کے لیے جد وجہد کی تھی۔ لوگ ان سے اظہارِ عقیدت کریں اور دلوں پر ان کا اقتدار قائم ہو۔ انسانی تاریخ میں ایسے لوگ رہے ہیں اور یہ وہی تھے جنہوں نے کبھی اقتدار کی سیاست نہیں کی۔
اقتدار کی سیاست کر نے والے سیاستدان جس طرح معاملات کو دیکھتے ہیں اگر عوام بھی اسی طرح سوچنے لگیں تو انہیں کبھی کوئی جذباتی صدمہ نہ پہنچے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس سیاست اور اقتدار کی سیاست میں فرق نہیں کرتے۔ انہیں اس لیے یہ عجیب لگتا ہے جب مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف والوں کے امام بنتے ہیں یا اسرائیلی اخبار میں عمران خان صاحب کے بارے میں مضمون شائع ہوتا ہے تو جمعیت کی صفوں سے کوئی آواز نہیں اٹھتی۔ سیاستدان اگر اسی طرح ملتے رہیں تو الزام تراشی کی سیاست میں کمی آ سکتی ہے۔ میرے نزدیک یہ بھی سیاست کی کوکھ سے جنم لینے والا ایک خیر ہے۔